علمائے کرام سے امید اور توقعات …

May 27, 2018

تحریر:کونسلر ریاض بٹ…لوٹن
1960ء کی دہائی اور اس کے بعد یہاں برطانیہ میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا۔ اس وقت یہ لوگ جو پہلے آئے ہوئے تھے نے نئے لوگوں کی رہنمائی کی بلکہ ان کی مدد بھی کرتے تھے، ان لوگوں نے جہاں دوسرے مسائل کے حل کے لیے اپنی کمیونٹی رہنمائوں کی سربراہی میں سماجی کام شروع کر رکھے تھے وہاں مذہبی طور پر کام کو آگے بڑھانے کے لیے بھی سرگرمیاں جاری رکھیں، اس وقت پڑھے لکھے لوگ کم تھے، پھر بھی انہوں نے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر گھروں میں چھوٹی چھوٹی مساجد کو قائم کیا، یہ چھوٹی چھوٹی مساجد بعد میں بڑی بڑی مساجد میں تبدیل ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے برطانیہ کے اندر ہزاروں کی تعداد میں بڑی بڑی مساجد قائم ہوگئیں۔ الحمدللہ رمضان المبارک ایک ہی دن شروع ہوگیا، ہم علمائے کرام سے امید اور توقع کرتے ہیں وہ اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے اور ساتھ ہی جدید سائنسی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے فیصلہ کریں گے کہ ایک ہی دن اسلام کا بڑا مذہبی تہوار عیدالفطر منایا جائے۔ ابتدائی طور پر یہاں برطانیہ میں نزدیک ترین اسلامی ملک مراکش سے رویت کی شہادت پر بھی علمائے کرام فیصلہ کرتے رہے، ان کا یہ فیصلہ ٹھیک ہوتا رہا اور علمائے کرام نے اس پر زیادہ اختلاف نہیں کیا اور یہ علمائے کرام برطانیہ کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتے رہے جبکہ یہاں بھی چاند نکلتا ہے، جس کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور باہر سے چاند درآمد کرکے مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کردیا گیا ہے، اس کی مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ گزشتہ سال یہاں کے کچھ علمائے نے سائوتھ افریقہ اور دیگر افریقی ممالک کے بارے میں بتایا تھا کہ وہاں چاند کی رویت ہوگئی ہے، لہٰذا یہاں برطانیہ میں بھی نماز عیدین پڑھی جاسکتی ہیں، یہ سارے معاملات یہاں مسلمانوں کو کئی گروپوں میں تقسیم کرکے آغاز رمضان المبارک اور دو، دو عیدیں کروا رہے ہیں۔ اس سے یہاں مسلمانوں کے اندر غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔ اس تقسیم سے عام مسلمان ہی متاثر ہوتا ہے جو لوگ کارخانوں میں کام کرتے ہیں انہیں وہاں مختلف اوقات میں چھٹیوں کی درخواست دینے میں مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسی طرح سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز میں بھی مسلمان طلبہ و طالبات کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رمضان المبارک کے ایک دن شروع کرنے اور ایک دن ہی عید منانے سے ہمارے کام کرنے والے بھائیوں اور بچوں کی مشکلات میں کمی ہوگی اور انہیں پریشانی یا مایوسی کا سامنا نہیں کرنے پڑے گا۔ ہم برطانیہ کے علمائے کرام سے گزارش کرتے ہیں کہ یہاں کی آبزرویٹری سے رابطہ کرکے چاند ہونے کی تصدیق کرسکتے ہیں۔ یہاں ہمارے شہر لوٹن کی کونسل آف لوٹن ماسکس بھی موجود ہے، یہ کونسل اس بارے میں متفقہ فیصلہ کرکے لوگوں پر احسان کرے، تاکہ عام مسلمان کو دوسری کمیونٹیز کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ ان معاملات سے ہماری نوجوان نسل پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہ سوال کرتے ہیں کہ ایک ہی شہر میں دو، دو عیدیں کیوں ہوتی ہیں۔ علمائے کرام اور دوسرے کمیونٹی رہنما ان سوالوں کے جواب نہیں دے سکتے۔ اس سے یہاں ہم علیحدہ علیحدہ گروپوں میں بٹ جاتے ہیں۔و ہاں ہمارے بچے بھی ہم سے نالاں نظر آتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمیں دین اسلام کی اصل روح اور شریعت محمدیؐ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔