احتجاج یا تعمیر و ترقی ؟

February 16, 2016

بنیادی و اصولی طور پر احتجاج بُری چیز نہیں ہے۔ سماج میں ہونے والی زیادتیوں پر اندر ہی اندر کڑھنا اور اس کے خلاف آواز بلند نہ کرنا بزدلی کی علامت ہے۔ ہماری نظر میں احتجاج زندگی کی علامت ہے مُردے تو احتجاج نہیں کرتے۔ انہیں چارپائی پر لٹائو یا پھٹے پر ڈال دو، انہیں اس سے کیا۔ بچے کو بھی اگر ماں دودھ نہیں پلاتی تو وہ رو یا چلا کر احتجاج کرتا ہے تو پھر بھلا جیتا جاگتا ہوش و حواس والا خردمند انسان اپنے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر مختلف طریقوں یا حربوں سے احتجاج کیوں نہ کرے لیکن یہ ہے تصویر کا محض ایک رخ۔
دوسرا رخ یہ ہے کہ شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔ باشعور انسان اور ایک سانڈ یا جانور کے احتجاج میں بہرحال فرق ہوتا ہے سانڈ تو جیسے تمثیل ہے کہ a bull in china shop تو وہ کراکری کی دکان میں گھس کر توڑ پھوڑ ہی کرے گا جبکہ باشعور انسان احتجاج کرے گا مگر کسی بے گناہ کو دکھ یا ضرر پہنچائے بغیر۔ فطری قانون کا اصول ہے کہ جو انصاف کا طلبگار ہے اسے خود بھی انصاف پر عمل پیرا ہوتے ہوئے کلین ہاتھوں کے ساتھ آنا چاہئے جو ظلم کے خلاف بولتا ہے اسے پہلے خود پر بھی نظر ڈال لینی چاہئے کہ کہیں اس کی اپنی سوچ نظریہ ظلم پر استوار تو نہیں ہے؟ جو کرپشن کے خلاف بول رہا ہے کہیں وہ خود بھی تو کرپٹ نہیں ہے؟…خیالات کا یہ تلاطم ہمارے ذہن میں پی آئی اے کی احتجاجی تحریک کو دیکھ کر امڈ رہا ہے۔ خدا کے بندو کچھ تو خدا سے ڈرو تم نے اس مملکتِ خداداد کے ساتھ اور کون کون سا ظلم کرنا ہے؟ اس مملکت کی معیشت کابیڑاغرق کر کے رکھ دیا گیا ہے، ہماری معیشت کا بال بال بیرونی قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے، ہمارے پاکستانی روپے کی اس وقت دنیا میں جو قدر و منزلت ہے اس کا ہر پاکستانی کو اس وقت شدت سے احساس ہوتا ہے جب وہ کسی بھی باوقار ملک میں جاتا ہے اور اپنی کرنسی چینج کرواتا ہے اس وقت وہ خون کے گھونٹ پیتا ہے اس لئے کہ اس کی بھری جیب میں رہ کیا جاتا ہے؟۔ظاہر ہے اس بربادی کا ذمہ دار کوئی ایک ادارہ ہے نہ ایک محکمہ نہ کوئی مخصوص حکومت۔ اس ’’ثواب دارین‘‘ میں جہاں بہت سے ادارے اور محکمے ملوث ہیں وہیں حکومتوں کو بھی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ والی مثال ہے جس کا جتنا زور چلا اس نے کمی نہیں چھوڑی ہے بالخصوص پی پی کی سابقہ سویلین حکومت اور ماقبل مشرف کے دور ِ آمریت میں جس طرح پی آئی اے میں سیٹوں کی لوٹ سیل لگی رہی اور سفارشوں کی جو بھرمار ہوئی اس کے بعد ادارے کا دیوالیہ نہ نکلتا تو یہ معجزہ ہی ہوتا۔ آج ہم کہانیاں سنا رہے ہیں کہ کسی زمانے میں دھوم ہماری قومی ایئر لائن کی تھی ہم نے سعودی و گلف ایئر لائنوں سمیت ایسٹ ایشیا کے کتنے ممالک کی قومی ہوائی کمپنیوں کو اپنے قدموں پر کھڑے ہونے اور خود کفیل بنانے میں معاونت کی ہماری ایئر لائن نے خود کو توانا رکھنے کے لئے کیسے کیسے ہوٹل اور منفعت بخش ادارے قائم کئے لیکن پھر کیا ہوا؟ پھر ہم نے وہی کیا جو ہمارے دیگر بہت سے اداروں میں ہو رہا تھا۔آج سبھی اس ظلم کا رونا رو رہے ہیں اعداد و شمار پیش کئے جا رہے ہیں کہ جی امریکہ میں تو ایک جہاز کیلئے 106 افراد درکار ہیں، قریب ترین ہمسائے بھارت میں یہ ریشو ایک کے مقابلے میں 229 ہے جبکہ ہمارے یہاں یہ تناسب ایک جہاز کے لئے 418 تک کیسے پہنچ گیا ہے؟ آج سب چلا رہے ہیں کہ PIA کا خسارہ 320 ارب تک کیسے پہنچ گیا؟ نجی ایئر لانئز کو کروڑوں میں آمدن ہو رہی ہے تو پی آئی اے ہر سال 30 ارب روپے کیوں ڈبو رہی ہے۔ کچھ ویسے ہی اعدادو شمار سٹیل مل کے حوالے سے پیش کئے جاتے رہے لیکن نتیجہ ندارد۔ تو کیا سفید ہاتھی کو پال کر گھر والوں کو کنگال کئے جانے کا وتیرہ جاری و ساری رکھا جائے؟ اس لئے کہ اسے چھیڑا گیا تو شدید احتجاج ہو گا؟ یہ احتجاج ہے یا غنڈہ گردی، بدمعاشی اور بلیک میلنگ؟ ہماری PIAکے ترجمان جناب دانیال گیلانی سے ابھی بات ہو رہی تھی کہ جو خسارہ ہوا ہے سو ہوا ہے آئندہ کی سوچیں جو ان ہڑتالوں کی بدولت مزید ہونے جا رہا ہے جب زیرو کمائی کے بالمقابل واجبات کی ادائیگی کے مطالبات کروڑوں سے اربوں میں پہنچ جائیں گے۔
آج حالت یہ ہو چکی ہے کہ احتجاجی آگ کو مزید بھڑکانے کیلئے انسانی خون کی آمیزش سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا کوئی بھی باشعور ذہن کیا یہ سوچ سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں پولیس یا رینجرز اندھی گولیاں کیسے چلا سکتی ہے؟ کوئی بھی ادارہ جسے غریب عوام کی بہبود کیلئے سرکاری کنٹرول میں رکھنا ناگزیر ہو اس پر اگر قوم اپنا پیٹ کاٹ کر خرچ کرتی ہے تو قابل فہم ہے جسے ہمارے اسپتال، ڈسپنسریاں، لائبریریاں ابتدائی و ثانوی یا اعلیٰ تعلیمی ادارے یا داخلی و خارجی سیکورٹی ادارے یا وہ محکمے جنہیں سرکاری کنٹرول میں رکھنا اجتماعی قومی مفاد میں قرار پاتا ہے اس کے بعد دیگر تمام ادارے جو صوبوں سے متعلق ہیں انہیں صوبائی حکومتوں کی تحویل میں دے دیا جائے اور جو پرائیویٹائز ہونے کے قابل ہیں خواہ مخواہ قوم پر بوجھ ہیں اور پیہم خسارے میں جا رہے ہیں آخر کیوں انھیں پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے نہ کیا جائے؟ ہمیں تو آج تک بھٹو صاحب کا دیا ہو یہ دکھ نہیں بھولا جو انھوں نے تیزی سے ترقی کرتی ہوئی انڈسٹری کو قومیاتے ہوئے بربادی کی راہ پر ڈال دیا تھا جس کا قوم نے خمیازہ بھگتا اور مابعد اسی لیڈر کی پُرعزم عملیت پسند باشعور بیٹی نے کفارہ ادا کرتے ہوئے سجدہ سہو کیا تھا۔ اس کے بعد تو اس حوالے سے پی پی اور ن لیگ میں قطعی الجھن نہیں ہونی چاہئے تھی۔ آج کسے معلوم نہیں ہے کہ نواز شریف حکومت قومی تعمیرو ترقی کا جو ایجنڈا تھامے ہوئے ہے قومی معیشت کو اس کی کس قدر ضرورت ہے۔ آج اورنج ٹرین منصوبہ ہویا کاشغرسے گوادر تک پاک چائنا کاریڈور جیسا تعمیر و ترقی کا پروگرام اس پر ہم سب کو قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ناروا احتجاجی اسکیموں کو ناکام بنانا ہوگا اور تمام تر خسارے میں جانے والے بیمار اداروں کا آپریشن پرائیویٹائزیشن کے آزمودہ طریقِ علاج سے کرنا ہوگا ۔