عام انتخابات :سپریم کورٹ کا بروقت فیصلہ

June 05, 2018

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں ترمیم کے خلاف لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ بروقت معطل کرکے عام انتخابات میں تاخیر کے خدشات، ملک بھر میں ابھرنے والی ہیجانی کیفیت اور عوام میں پائے جانے والے شکوک وشبہات بیک جنبش قلم دور کردیئے ہیں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے لئے انتخابی شیڈول معمولی ردوبدل کے بعد دوبارہ جاری کردیا ہے اور پیر سے الیکشن ایکٹ 2017کے مطابق امیدواروں سے کاغذات نامزدگی کی وصولی شروع ہو گئی ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو الیکشن کمیشن اور قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نےچیلنج کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ نے قانون بنا کر کمیشن سے کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کا اختیار واپس لے لیا ہےجبکہ اسپیکر کا کہنا ہے تھا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد سے عام انتخابات تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کرکے ان کی اپیلیں سماعت کےلئے منظور کر لیں۔ چیف جسٹس نے دو ٹوک فیصلہ دیا کہ عام انتخابات 25جولائی کو ہی ہوں گے اور اس معاملے میں تاخیر ہوئی تو اس کاذمہ دار الیکشن کمیشن ہو گا جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کا سیاسی پارٹیوں اور عوام کے تمام طبقوں نے زبردست خیر مقدم کیا ہے۔ نگران وزیراعظم جسٹس(ر) ناصرالملک نے بھی یقین دلایا ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ اکتوبر2017میں تمام پارلیمانی پارٹیوں نے متفقہ طور پر کاغذات نامزدگی سے 19ڈیکلریشنز ختم کر دیئے تھے۔ جن کے تحت2013کے برخلاف قرضوں بلوں کی ادائیگی، شریک حیات، کاروباری مفادات، ٹیکس چوری، تعلیم، موجودہ پیشے، فوجداری مقدمات، سیاسی فنڈنگ، نیشنل ٹیکس نمبر، غیر ملکی سفر، انتخابی حلقوں میں کئے گئے ترقیاتی کاموں، اثاثوں اور غیر ملکی شہریت وغیرہ کی تفصیلات فراہم کرنا لازمی تھا۔ یہ تمام نکات آئین کی دفعات61 اور62میں شامل اور امیدوار کی اہلیت کا لازمی تقاضا ہیں جو نامزدگی فارم میں شامل نہ ہونے کے باوجود امیدواروں پر لاگو ہوتے ہیں۔ منتخب نمائندوں کو حلف اٹھانے کے بعد ان کی تفصیلات باقاعدگی سے کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہیں۔ ہائیکورٹ کا فیصلہ تھا کہ پارلیمنٹ نے جو ترمیم کی وہ آئین سے متصادم ہے اس لئے الیکشن کمیشن نئے کاغذات نامزدگی تیار کرے جن میں ان شرائط کو شامل کیا جائے۔ کمیشن نے اس حکم کے بعد وقتی طور پر انتخابی شیڈول پرعملدرآمد روک دیا اور سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ ہائیکورٹ کے حکم کی تعمیل سے انتخابات میں تاخیر کے خدشات پیدا ہو گئے جبکہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ رائے عامہ کی جانب سے بھی انتخابات مقررہ وقت پرکرانے کےلئے زورو دیا جانے لگا۔ ہائیکورٹ کے فیصلے سے انتخابات میں تاخیر کے علاوہ نیا سیاسی پنڈورا بکس کھل جاتا جو حددرجہ سیاسی کشیدگی، الزام تراشی، کردار کشی اور عدم برداشت کے موجودہ ماحول میں کسی طور پر قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کے مفاد میں نہیں تھا۔ اس سے ان الزامات کو بھی تقویت ملتی کہ بعض حلقے درپردہ انتخابات ملتوی کرانے یا سرے سے نہ کرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ کے بر وقت فیصلے سے اس طرح کی افواہیں اور خدشات دم توڑ گئے ہیں اور یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 25جولائی کو ہی ہوں گے، کاغذات نامزدگی کی وصولی کے علاوہ الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ خواتین اور غیر مسلموں کی مخصوص نشستوں کے لئے ناموں کی ترجیحی فہرست8 جون تک جمع کرا دیں۔ گویا انتخابی عمل زور و شور سے شروع ہو گیا ہے اور یہی آئین کا تقاضا ہے جسے انتخابات کے علاوہ باقی معاملات میں بھی سختی سے رہنما اصول بنا لیا جائے تو تمام مسائل بحسن و خوبی حل ہو سکتے ہیں۔ توقع ہے کہ انتخابی مہم میں شائستگی اور سنجیدگی کو ملحوظ رکھا جائے گا اور بے جا الزام تراشی اور گالی گلوچ سے گریز کرتے ہوئے قومی مسائل پر بامقصد بحث مباحثے کو فروغ دیا جائے گا۔