کیلو آتش فشاں

June 05, 2018

صادقہ خان

امریکی ریاست ہوائی میں پانچ آتش فشاں واقع ہیں جو ہوائی کے نیشنل پارک کا حصہ ہیں۔ ان میں سے ایک آتش فشاں’’کیلو امیگما‘‘ آج کل دنیا بھر کی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے ۔گزشتہ ماہ اس آتش فشاں کے پھٹتے ہی لاوے کا اخراج اس قدر تیز تھا کہ محض ایک گھنٹے کے اندر یہ لاوا بہتا ہوا قریب کی آبادی اور پارکس تک جا پہنچا تھا۔ یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ کسی بھی آتش فشاں پہاڑ میں میگما ( آتش فشاں کے اندر زیر زمین پگھلی ہوئی معدنیات و نامیاتی مرکبات ) پکنے کا عمل کئی سال بلکہ بعض اوقات عشروں پر محیط ہوتا ہے۔ زمین کی اندرونی سطح میں جسے’’ مینٹل ‘‘کہا جاتا ہے بلند درجۂ حرارت کے باعث زیر ِ زمین معدنیات اور نامیاتی مرکبات کے درمیان تعاملات کی وجہ سے پلازمہ جیسا گاڑھا مادہ پکتا رہتا ہے۔ جب یہ مادہ زمین کی اوپری سطح’’ کرسٹ ‘‘تک پہنچتا ہے تو پہاڑ کے اندر گیسوں کا دباؤ بڑھنے لگتا ہے اور آخری حد پر پہنچنے کے بعد چوٹی میں موجود دراڑوں سے یہ گیسیں دھماکے کے ساتھ خارج ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی لاوے کا اخراج بھی شرو ع ہو جاتا ہے۔

ہوائی کے کیلوا میگما سے ابتدا سے ہی لاوے کا اخراج اس قدر شدید تھا کہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کر دیا تھا کہ اس سے خطے میں بڑے پیمانے پرجغرافیائی اور ماحولیاتی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ اس سے خارج ہونے والی پینٹین اور سلفر ڈائی آکسائیڈ گیسیںماحولیاتی نظام ( ایکو سسٹم )کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں ۔ گذشتہ ہفتے نئے دھماکوں اور لاوے کے اخراج کے بعد کیلوا بھی ماؤنٹ پینا ٹوبو اور سینٹ ہلینز کی طرح کسی بڑے تباہی کا سبب بن جائے گا۔ ماؤنٹ پینا ٹو بو سے راکھ ، دھوئیں اور گیسوں کے اخراج کے باعث دو سال تک سورج کی روشنی رکی رہی تھی اور پورے خطے کے درجۂ حرارت میں اضافہ کچھ عرصے کے لیے رک گیا تھا، مگر امریکی ارضیاتی سروے کے ادارے اور وولکانولوجسٹ کے مطابق ماؤنٹ کیلوا کسی اتنی بڑی تباہی کا باعث ہر گز نہیں بنے گا،کیوں کہ اس سے خارج ہونے والا لاوا سینٹ ہلینز اور پینا ٹوبو سے خارج ہونے والے لاوے سے بالکل مختلف ہے۔ ماہرین کے مطابق میگما بہت سی معدنیات اور مائع حالت میں دھاتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، جس میں اگر سلیکا کی مقدار زیادہ ہو تو یہ بہت زیادہ گاڑھا ا اور چپکنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے، جس کے ساتھ سلفر یا دیگر گیسوں کے شامل ہوتے ہی زور دار دھماکوں کے ساتھ لاوے کا اخراج ہوتا ہے ۔ سلیکا ہماری زمین پر موجود چٹا نوں اور کرسٹ کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے ، جس میں آتش فشاں کو دھماکے دار بنانے کی قدرتی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ میگما میں سلیکا کی مقدار زیادہ ہونے سے اس کے مالیکیولز ایک دوسرے کے ساتھ چین کی صورت میں جڑ کر سیلیکا کی کرسٹل (قلمیں) بنا لیتے ہیں ۔یہ قلمیں میگما میں مزید جڑ کر لمبے دھاگوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور اس لاوے کو ہٹانے کے لیے زیادہ قوت درکار ہوتی ہے،کیوں کہ مضبوط بونڈنگ کے باعث اس کو توڑنا مشکل ہوتا ہے۔علاوہ ازیں اس کو توڑنا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ لاوے میں سے مسلسل گیسوں کا اخراج جاری رہتا ہے۔ اس کے بر عکس ہوائی کے آتش فشاں سے خارج ہونے والے میگما میں سلیکا کی مقدار کم ہے اور سمندر کی مٹی زیادہ شامل ہے ، اگرچہ اس کا درجۂ حرارت کافی زیادہ ہے، مگر یہ لاوا زیادہ بلندی پر نہیں جائے گا، مگر سلیکا کی غیر موجودگی میں بھی آتش فشاں سے زوردار دھماکے ہو سکتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق اس کی وجہ پہاڑ کے اندر محصور گیس کی زیادہ مقدار ہے جو بے پناہ دباؤ کی وجہ سے مختلف میکینزم سے اخراج کا راستہ ڈھونڈتی ہے۔جب میگما زمین کی اوپری سطح کرسٹ تک پہنچ کر دباؤ بڑھا کر دھماکے سے خارج ہو کر بہتا ہے تو اسے لاوا کہا جاتا ہے۔ پہاڑ کے اندر لاوا کسی پانی سے بھری جھیل کی مانند ہوتا ہے اس میں پہاڑ کا کوئی ٹکڑایا چٹان رکاوٹ کا باعث بنے تو دباؤ بڑھنے سے بھی دھماکے کے ساتھ لاوا خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا کیلوا میں کئی ہفتوں سے جاری دھماکوں کو ماؤنٹ پینا ٹو بو جیسے کسی بڑی تباہی سے ہر گز نہیں جوڑا جا سکتا۔ اگرچہ لاوے کے ساتھ مسلسل خارج ہونے والی زہریلی گیسیں ،دھواں اور راکھ اطراف کی آبادی کے لیے مہلک ضرور ثابت ہوسکتی ہیں، مگر اس کے اثرات صرف علاقائی ہوں گے ،گلوبل انوائرمنٹ پر اس کے منفی اثرات کا امکان ہر گز نہیں ہے۔ موجودہ اعداد و شمار کے مطابق اطراف کی آبادی اور جنگلات سے 50 ہزار پونڈ کے قریب پینٹین گیس خارج کی جاچکی ہے ۔ جب کہ دھماکوں کی صورت میں 10 پونڈز کی چٹانیں 5 میل کے فاصلے تک اور گولف کی بال کے سائز کے پتھر 11 میل دور تک جا کر گرے ہیں ،جو یقیناً قریب کے علاقوں میں رہائش پزیر افراد کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے لیکن ہوائی کے علاوہ اس سے کسی اور علاقے کے متاثر ہونے کا امکان ہر گز نہیں ہے۔

اب تک ہونے والے دھماکےاور لاوے کا اخراج ماضی میں ہوائی کے دیگرآتش فشاں پہاڑوں میں ہونے والی آتش فشانی سے شدت میں کم ہیں ۔ 1983 میں ماؤنٹ کرا کاٹوا میں جب آتش فشاں پھٹا تو دھماکے اس قدر شدید تھے کہ انڈونیشیا ، آسٹریلیا، سنگا پور اور ماریشس تک سنے گئے تھے،جب کہ خارج ہونے والی گیس 15 میل کی بلندی تک جا پہنچی تھی، جس کے نتیجے میں شدید گہرے دھوئیں کے بادل 775.3 میل کے فاصلے تک چھائے رہے تھے اورکئی ماہ تک یہ علاقے سورج کی روشنی سے محروم رہے ، چٹانوں اور مٹی کے تودے گرنے اور سونامی کے باعث تقریباً 36 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے،مگر ہوائی میں ہونے والی تازہ آتش فشانی سے اس قسم کا کوئی خطرہ فی الحال لاحق نہیں ہے۔

آتش فشانی چاہے ماؤنٹ پینا ٹوبو یا کرا کاٹوا کی طرح خطرناک ہو یا کیلوا کی طرح مائلڈ(ہلکا) ۔ بہر حال ایک قدرتی آفت ہے جو صدیوں سے انسان کی زندگی پر منفی اثرات مرتب کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی، کیوں کہ زیر ِ زمین تبدلیاں مسلسل جاری ہیں اور سیارہ زمین کی اندرونی سطح ہمیشہ سے انتہائی متحرک رہی ہے۔اگرچہ قدرتی آفات کو روکنا ابھی تک انسان کے بس میں نہیں ہے ،مگر جدید ٹیکنالوجی کی بدولت ان سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کو کسی حد تک کنٹرول کرناممکن ضرور ہوگیا ہے۔