اکثریت اقلیت کے مابین سماجی ہم آہنگی

June 07, 2018

آٹھ جون کا دن امریکی تاریخ میں نہایت اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے جب 1953ءمیں امریکہ کی سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں قرار دیا کہ واشنگٹن میں قائم ہوٹل اور ریسٹورنٹ مالکان کو کوئی اختیار نہیں کہ وہ سیاہ فام افراد کو کھانے پینے کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کریں، بلاشبہ آج کا امریکی سماج سیاہ فام اور سفید فام باشندوں کے مابین مکمل ہم آہنگی کی بہترین مثال پیش کرتا ہے۔ایک ریسرچ رپورٹ کے مطابق 9ہزار کے قریب سیاہ فام باشندے امریکہ کی جنگ ِآزادی سے وابستہ تھے جبکہ پانچ ہزار کالوں کا براہ راست تعلق جدوجہد آزادی کیلئے کی جانے والی جنگجوانہ کاروائیوں سے تھا۔افریقی نژاد امریکی مزدور کرِسپس اٹکس کو امریکہ کی جنگ آزادی کا پہلا شہید قرار دیا جاتا ہے جس نے 1770ء میں برطانوی سامراج کے خلاف اپنی جان کی قربانی پیش کی، اٹکس کے بہادرانہ کردار کو امریکی لٹریچر میں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے، بعدازاں امریکی سماج میں غلامی کے خاتمے کیلئے چلائی جانیوالی مختلف تحریکوں میں بھی اسکی شخصیت کو بطور مثال پیش کیا جاتا رہا۔ بدقسمتی سے امریکہ کی جنگ آزادی کی کامیابی بھی کالوں کی غلامی کی زنجیریں توڑنے میں ناکام رہی تاوقتیکہ امریکی لیڈر ابراہام لنکن نے تمام امریکی ریاستوں کو غلامی کے خاتمے کیلئے رضامند نہ کیا، ابراہام لنکن نے کالوں کی غلامی کو ختم کرنے کیلئے امریکی کانگریس میں 13ویں آئینی ترمیم بھی متعارف کروائی جو سینیٹ میں اپریل 1864میں منظور ہوئی،بعدازاںجولائی 1868ء میں منظورکردہ 14ویں آئینی ترمیم میں تمام امریکی شہریوں بشمول سابق سیاہ فام غلاموں کا یکساں حق شہریت تسلیم کیا گیا۔ امریکی آئین کے تحت یقین دہانیوں کے باوجود امریکی معاشرے میں کالوں کے حقوق کی پامالی کا سلسلہ نہ رک سکا اور انہیں درجہ دوئم کا شہری سمجھا گیا جسکی ایک مثال سفید فام امریکیوں کے زیرانتظام ہوٹلوں میں کالوں کے داخلے پر پابندی تھی۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو پاکستان اور امریکہ میں بہت سی سماجی اقدار مشترک پائی جاتی ہیں، مثلاً دونوں ممالک کی آبادی مختلف قومیتوں اور نسلوں سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ہے، دو نوں ممالک مشترک برطانوی سامراج کیخلاف کامیاب جدوجہد آزادی کی تابناک تاریخ کے حامل ہیں اور سب سے اہم ترین دونوں ممالک استحکام جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ تحریک ِ پاکستان کی کامیابی میں بہت سے غیرمسلموں نے بھی قائدانہ کردار ادا کیا جن میں ہندو سیاستدان جوگندر ناتھ منڈل کو بانی پاکستان قائداعظم کے قریبی ساتھی ہونے کا اعزاز حاصل تھا، غیرمسلموں کی تحریک پاکستان سے ہم آہنگی نے قیام پاکستان کے مخالفین کو ناکام بنانے میں اپناکردار ادا کیا، قائداعظم نے مختلف مواقع پر واضح الفاظ میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایسے قابل تقلید رول ماڈل ملک کے طور پر ابھرے گا جہاں ہر پاکستانی شہری کو اکثریت اقلیت سے بالاتر ہوکر یکساں حقوق میسر ہونگے اور ہر ایک کو اپنے مذہبی عقائد پر کاربند رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی آزادی ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا ووٹ بینک 36 لاکھ تک پہنچ گیا ہے جبکہ سب سے بڑی اقلیت ہندو ووٹرزکی تعداد 17لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، پاکستانی اقلیتوں کی ایک بڑی تعداد مختلف شعبہ زندگی میںخاموشی سے مثبت کردار ادا کررہی ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ آج اکثریت اور اقلیت میں منقسم پاکستانی معاشرہ وہیں کھڑا ہے جہاں 65سال قبل امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے سے پہلے امریکہ تھا، پاکستان کیلئے تمام تر قربانیوں کے باوجود محب وطن غیرمسلم اقلیتوں پر بیشتر قومی اداروں کے دروازے بند ہیں، اقلیتوں کو اپنے حقیقی نمائندے پارلیمنٹ میں ڈائریکٹ اور دہرے ووٹ کے ذریعے بھیجنے کا حق حاصل نہیں۔ میں بیشتر مواقع پر نشاندہی کرچکا ہوں کہ غیرمسلم پاکستانیوں کو اہم قومی ایشوز مثلاََ 18ویں ترمیم کی کمیٹی، الیکشن اصلاحات کمیٹی، پارلیمانی بورڈز اور سب سے اہم قومی ایکشن پلان کی تیاری کیلئے طلب کردہ آل پارٹیز کانفرنس میں نظر انداز کرنے سے مطلوبہ قومی اہداف خاطر خواہ حاصل نہیں کئے جاسکے۔ میری نظر میں امورِ مملکت میں غیرمسلموں کو شامل کرکے پاکستان دشمن عناصر کے پروپیگنڈے کا زور توڑا جاسکتا ہے، دوسری طرف اہم قومی اداروں مثلاً اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، پلاننگ کمیشن، پیمرا، ٹیلی کام اتھارٹی وغیرہ کی سربراہی میرٹ پر کرنے سے مثبت روایات کوفروغ حاصل ہوگا، اگر ہم بیرون ممالک متعین سفراء کرام کی تعیناتی میں غیرمسلم اقلیت کو بھی شامل کرلیں تو نہ صرف اقلیت کے احساس محرومی کا ازالہ کیا جاسکتا ہے بلکہ عالمی برادری کو بھی مثبت پیغام دیا جاسکتا ہے۔ پاکستان ترقی کی دوڑ میں روز بروز پیچھے ہوتا جارہا ہے، ہمارے بعد آزاد ہونے والے ملک چین، کوریا، ملائشیا وغیرہ ہم سے آگے نکل گئے ہیں، اگر ہم ان ممالک کی ترقی کا جائزہ لیں تو ہمیں ایک قدر مشترک ملے گی کہ ان تمام ممالک نے اپنے معاشروں میں سماجی ہم آہنگی اور میرٹ کو یقینی بنایا، انہوں نے اپنی اقلیتوںکو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ آٹھ جون کا دن جہاں ایک طرف سیاہ فام امریکیوں کی اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے انتھک جدوجہد کی یاد دلاتا ہے، وہیں اس لحاظ سے سبق آموز ہے کہ امریکہ کی سپریم کورٹ کے فیصلے نے امریکہ میں کالے اور گوروں کے مابین سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنایا تو امریکہ عالمی سپرپاورکا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا، تاریخی فیصلے کے نفاذ کے بعد امریکہ دنیا بھر میں جمہوریت پسندوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کیلئے ایک روشن مثال بن کر سامنے آیا، امریکہ کے سماجی انصاف پر مبنی نظریات کو دنیا بھر میں پذیرائی حاصل ہوئی تو نوآبادیاتی نظام کے ستائے ہوئے ممالک نے امریکہ کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا، پاکستان نے بھی اصولوں کی بنیاد پر آمریت پسند سوویت یونین کی بجائے امریکہ کا اتحادی بننا پسند کیا۔ اگر ہم پاکستان کو ایشیائی ٹائیگر کے روپ میں دھارنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی سب سے پہلے اپنی جدوجہد کا محور پاکستانی معاشرے میں صبر وتحمل، برداشت، رواداری اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانا ہوگا، ہمیں قائداعظم کے وژن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملکی خدمت کیلئے پرعزم اقلیتوں کو قومی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کیلئے میرٹ کی بنیاد پر یکساں مواقع فراہم کرنے چاہئے، میری نظر میں اکثریت اور اقلیت کے مابین تمام شعبہ زندگی میں سماجی ہم آہنگی کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانا ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور کا بنیادی حصہ ہونا چاہئے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونے سے کوئی دنیاوی طاقت نہیں روک سکتی۔