سوڈان کی کمسن لڑکیوں کے دلخراش بین

June 22, 2018

11 سالہ سوڈانی لڑکی امل ابھی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہی تھی کہ اس کے باپ نے اسے 38 سالہ شخص کے ساتھ شادی کے بندھن میں باندھ دیا۔

امریکی نژریاتی ادارے نے سوڈان میں کم عمر ی کی شادی کے کئی دلخراش واقعات رپورٹ کئے ہیں۔سوڈان میں کم عمر شادیاں ثقافت کا حصہ بنتی جا رہی ہیں جس کی وجہ غربت اور روایت ہے۔زیادہ تر بچیاں 18 سال کی عمر ے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔

یونیسیف کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق 12 فیصد لڑکیاں 15 سال کی عمر سے بھی پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔ 57فیصد لڑکیاں 18 سال کی بھی نہیں ہو پاتی اور ان کی شادی کر دی جاتی ہے۔

سوڈان ایسی کئی نورا اور امل سے بھرا پڑا ہے جن کی آنکھیں کسی مسیحا کی منتظر ہیں جن کے اپنے والدین ان کو بوجھ سمجھتے ہیں۔

1991 کے قانون کے تحت بچیوں کی بلوغت ( جو دس سال ہوتی ہے) کی عمرتک پہنچنے کے بعدشادی کو جائز قرار دے دیا گیا تھا۔یہ افریقہ میں شادی کی سب سے کم قانونی عمر ہے۔

حالیہ واقعات میں سوڈانی عدالت نے ایک15 سالہلڑکی نورا حسین کو ریپ کرنے والے اپنے ہی شوہر کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔اس واقعے نے سوڈان میں کم عمری کی شادی کے مسئلےکی جانب توجہ مرکوز کرائی تھی۔

امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے امل نے بھی اپنی کہانی سنا ڈالی جو کئی بار شوہر کے ہاتھوں ریپ کا نشانہ بن چکی ہے،جس کا جسم سگریٹ سے بھی جھلسایا گیا ہو اور تشدد کے نشان عیاں ہوں۔

جہنم میں جھونکنے والا اس کا باپ برابر میں بیٹھا اس کی آپ بیتی پر روپڑا۔ امل نے بتایا کہ جب اس کا شوہر اس پر ظلم کرتا تھا تو وہ اپنے باپ کے دروازے پر جاتی تھی مگر وہ اسے پلٹا دیا کرتا تھا۔

امل کا علاج کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس کے جسم پر ہاتھ پیر باندھ کر ریپ کرنے کے واضح نشانات موجود ہیں۔

امل اب شوہر سے طلاق حاصل کر نا چاہتی ہے جس کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرے گی۔

امل سے جب پوچھا گیا کہ وہ دوسری لڑکیوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے تو اس نے کہا ’ بہادر بنو‘، کاش میں بھی بہادر بنوں۔‘