عمران خان۔ آہیاں وچوں ناہیاں.

November 07, 2012

عمران خان شمالی امریکہ کے دورے میں تقریباً ساڑھے آٹھ لاکھ ڈالر یا لگ بھگ اسّی، پچاسی کروڑ روپے کا چندہ جمع کرکے پاکستان لوٹے ہیں جو کہ پاکستان کے الیکشنوں کے لئے کافی بھاری رقم ہے۔ مذہبی پارٹیاں تو تارکین وطن کے چندے پر چلتی ہی رہی ہیں اور انفرادی سطح پر بھی ہمارے دوست انور عزیز جیسے سیاستدان بھی عوامی چندوں سے سیاست کرتے رہے ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں میں شاید تحریک انصاف پہلی ہے جو یہ طرح ڈال رہی ہے۔ عمران خان کے ناقدین تو کہیں گے کہ وہ بھی ایک مذہبی پارٹی کے ہی رہنما ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ان کو چندہ دینے والے بظاہر روشن خیال ہیں اور مذہبی پارٹیوں کے ہرگز حامی نہیں ہیں۔شمالی امریکہ میں عمران خان کو اتنی بھاری مقدار میں چندے کیوں ملے؟ یہ سوال انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کو صرف یہ کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا کہ بہت سے پڑھے لکھے پاکستانی برگر یا جینوں والے جہادی ہیں جو امریکہ دشمنی اور ڈرون حملوں کے خلاف عمران خان کے جنون سے متاثر ہیں۔ شمالی امریکہ میں ان کی پارٹی کے کرتا دھرتا لوگوں میں سے جن کو ہم جانتے ہیں اکثریت آزاد خیال لوگوں کی ہے جو ڈرونوں کو ضمنی یا معمولی مسئلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں عمران خان ایک ایماندار سیاست دان ہیں جو پاکستان کو راہ راست پر لا سکتے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ شمالی امریکہ کے مختلف شہروں کا دورہ کرنے والے ان کے معتمد خاص کا کہنا ہے کہ مختلف جلسوں میں نہ تو خان صاحب نے کوئی خاص بات کی اور نہ ہی چندہ دینے والے اجتماعات میں اس بارے میں سوالا ت کئے گئے۔
عمران خان کو چندہ دینے والوں کا ان کے نظرئیے کے بارے میں ایک مخصوص تصور ہے جس کو انگریزی میں پرسیوڈ آئیڈیالوجی (Percieved Ideology) یا ’فرض کیا ہوا نظریہ‘ کہا جاتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ عمران خان کا نظریہ ہو ہی نہ۔ بالکل ایسے ہی جیسے عوام کا بھٹو کے نظریات کے بارے میں ایک تصور تھا جس کا بھٹو کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ بہت سے لوگ بھٹو کو سوشلزم کا پیروکار سمجھتے تھے جس کی بھٹو نے بار بار تردید کی اور یہاں تک کہا کہ وہ سوشلزم کے مخالف ہیں لیکن پھر بھی ان کے بہت سے حامی ان کو سوشلسٹ سمجھتے رہے۔ بھٹو کو سوشلسٹ بنانا ان کے مخالفین کو بھی راس آتا تھا اور ان کے حامیوں کو بھی۔ ان کے مخالف ان کو سوشلسٹ کہہ کر ان پر بے دینی کا لیبل لگا سکتے تھے اور حامی اپنا دل خوش کرسکتے تھے۔ شاید عمران خان کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے، ڈرون حملوں کے مخالف ان کو ڈرون خان کہہ کر خوش ہیں اور دوسرے اس کو معمولی سا ضمنی مسئلہ سمجھ کر۔
عمران خان کے نظریات سے قطع نظر ان کی مرکزی دھارے کی سیاسی پارٹی نے عوامی چندوں سے سیاست کرنے کی نئی اور مثبت روایت کا آغاز کیا ہے۔اب تک پاکستان کی عمومی سیاست جاگیرداروں اور امیر لوگوں کے پیسے سے ہی چلتی رہی ہے۔ اس کا بدترین نتیجہ یہ ہے کہ سیاست محض کاروبار بن کر رہ گئی ہے۔ پچھلی کچھ دہائیوں سے الیکشنوں کے اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ بہت کم لوگ ہی اس عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں، اسی لئے جیت کر اسمبلیوں میں پہنچنے والے ممبران اپنی پوزیشن استعمال کرتے ہوئے الیکشن میں خرچ کی ہوئی رقم سے زیادہ کمانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 80ء کی دہائی سے انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے بہت سے درمیانے طبقے کے لوگ کروڑ پتی بن چکے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ جب تک پاکستان اس سیاسی غلاظت کے دائرے سے باہر نہیں نکلتا کسی بھی طرح کی پائیدار اصلاحات بہت مشکل ہیں۔ عمران خان نے تارکین وطن سے چندہ جمع کر کے سیاست کو کاروبار سے علیحدہ کرنے کا راستہ نکالا ہے۔ پاکستان میں عمران خان کے بہت سے پیروکار خوشحال درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو تارکین وطن سے عددی اور دولت کے لحاظ سے کہیں بڑھ کر ہیں اور سب سے اچھا تو یہ ہوتا کہ وہ انہی سے چندہ جمع کرتے۔ اگر عمران خان پاکستان سے سیاسی تحریک کے لئے رقوم جمع کرنے کی روایت قائم کر دیں تو اس سے جمہوریت کی نئی تاریخ مرتب ہو گی اور پاکستان صحیح معنوں میں جمہوری دنیا کا حصہ بن جائے گا۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ عمران خان کے بیرون ملک چندہ جمع کرنے سے کئی اخلاقی اور قانونی سوالات اٹھتے ہیں جن کے بارے میں سیاسی دانشوروں اور پاکستان کے الیکشن کمیشن کو غور کرنا چاہئے۔
تارکین وطن سے چندہ جمع کرنے پر سب سے پہلا اعتراض تو یہ کیا جارہا ہے کہ یہ چندہ بھی ایک طرح کی امریکی امداد ہی ہے جس کی عمران خان زورشور سے مخالفت کرتے ہیں۔ مزید برآں جس منطق کے تحت تارکین وطن کو صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے الیکشن لڑنے کا نااہل قرار دیا گیا ہے وہی اصول یہاں بھی لاگو ہوتا ہے۔ اگر دوسرے ملکوں کے پاکستانی شہریوں کو منقسم ہمدردیوں کی بنا پر نااہل قرار دیا گیا ہے تو ان کی فراہم کی ہوئی رقوم بھی درست نہیں ہیں کیونکہ اس طرح سے تارکین وطن اپنے پیسے سے پاکستان کے قومی ایجنڈے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ابھی یہ صورت حال نہ ہو لیکن کون جانتا ہے کہ کل کلاں تارکین وطن میں سے کچھ لوگ پاکستانی سیاستدانوں کے فنڈ ریزر مخصوص ٹھیکے لینے یا خارجہ پالیسی کو متاثر کرنے کیلئے کریں۔
تارکین وطن سے چندہ جمع کرنے کے قانونی پہلو بھی ہیں۔ امریکہ میں سیاسی چندہ دینے والوں پر مخصوص پابندیاں ہیں کہ کون کتنے پیسے دے سکتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہر چندہ دینے والے کا نام ریکارڈ کیا جاتا ہے، اس لئے امریکہ کے الیکشن کمیشن کے ریکارڈ دیکھ کر بتایا جا سکتا ہے کہ کس نے کس کو کتنا چندہ دیا ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ مستقبل میں امریکی حکومت بیرون ملک کی پارٹیوں کو چندہ دینے پر پابندیاں عائد کر دے یا چندہ دینے والوں کی فہرست بنانا شروع کر دے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر پاکستان کے الیکشن کمیشن کو بھی اندرون و بیرون ملک چندہ جمع کرنے کے اصول و ضوابط بنانے پڑیں گے۔ ہندوستان کے الیکشن کمیشن نے اس طرح کے قوانین اور ضابطے پہلے سے ہی کافی تفصیل میں مرتب کر رکھے ہیں اور پاکستان کو ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔
عمران خان کو ابھی تک امریکہ دشمنی اور ڈرون حملوں کے مخالف کے طور پر ہی جانا جاتا ہے۔ ان کا قبائلی نظام کو آئیڈیل سمجھنا اور ڈرون حملوں کا جنون اپنی جگہ لیکن یہ تاریخ کی ستم ظریفی یا کج روی کہئے کہ بعض اوقات قدامت پرستی سے ہی جدیدیت پھوٹ رہی ہوتی ہے جو بقول صوفی شاعر سچل سرمست ”آہیاں وچوں ناہیاں تھیندیاں ، ناہیاں وچوں آہیاں“ (مثبت سے نفی اور نفی سے اثبات جنم لیتے ہیں)۔ عمران خان کا عوامی چندوں سے سیاست چلانا بھی ”نفی سے اثبات“ پیدا ہونے کا قابل تقلید عمل ہے۔ ہم ان کی سیاست سے شدید اختلافات کے باوجود ان کے ان اقدامات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک نئے دور کے آغاز کی علامت ہے۔