افغانستان میں سکھوں کو کون مار رہا ہے ؟

July 03, 2018

افغانستان میں سکھ برادری اب برائے نام ہی رہ گئی ہے اور جو رہ گئے ہیں انہوں نےبھی افغانستان چھوڑ کر بھارت منتقلی کا فیصلہ کرلیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ افغانستان اب ان کے رہنے کے لیے محفوظ نہیں ہے۔

افغانستان میں سکھ برادری نے اس بات کا فیصلہ افغان شہر ’جلال آباد‘ میں ہونے والے دھماکے میں 13 سکھوں کے جاں بحق ہونے کے بعد کیا۔

عسکریت پسند گروپ نے دعوی کیا ہے کہ ’اوتار سنگھ‘ جو اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والا واحد سکھ امیدوار تھا اور ’راویل سنگھ ‘ جو سکھ کمیونٹی کا ایک اہم کارکن تھا، اس حملے میں جاں بحق ہونے والوں میں شامل ہیں۔

’تیجویر سنگھ ‘ نامی ایک سکھ نوجوان نے بتایا کہ جلال آباد دھماکے میں جاں بحق ہونے والوں میں ان کےایک رشتہ دار بھی شامل تھے۔

انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں واضح کہتا ہوں اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے‘ ہماری مذہبی رسومات دہشت گردوں سے برداشت نہیں ہوتیں کیونکہ ہم ’افغان‘ ہیں۔ حکومت ہمیں تسلیم کرتی ہےلیکن دہشت گرد وں کا ہم ہدف ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان نہیں ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ افغانستان میں اب صرف300 سکھ خاندان آباد ہیں جبکہ پورے افغانستان میں صرف دو گودوارے رہ گئے ہیں جن میں سے ایک جلال آبادمیں اور دوسرا افغانستان کے دارلحکومت کابل میں موجود ہے۔

افغانستان میں اب جو سکھ رہ گئے ہیں ان کے ساتھ بہت برا برتائو ہوتا ہے انہیں تشددکا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ انہیں ہراساں بھی کیا جاتا ہے جس کے سبب انہیں نےاپنے گھر چھوڑ کر بھارت منتقل ہونا شروع کردیا ہے۔

’بلدیو سنگھ‘ نامی وہاں کے ایک مقامی شخص نے بتایا کہ جو سکھ افغانستان میں رہ گئے ہیں ان کو دہشت گردوں کی طرف کی دھمکیاں دی جاتی ہیں کہ ’اسلام قبول کرلو یا افغانستان چھوڑ کر بھارت چلے جائو۔‘

کابل میں مقیم ’سندیپ سنگھ‘ کا کہنا ہے کہ ’ہم ڑدپوک یا بزدل نہیں ہیں، افغانستان ہمارا ملک ہے اور ہم اپنا ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔‘