پاکستان میں صنفی تفریق

July 06, 2018

صنفی تفریق پوری دنیا کا مسئلہ ہے، اس کی تصدیق اقوامِمتحدہ کی حالیہ رپورٹ سے بھی ہوتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف صنفی تعصب پوری دنیا میں پایا جاتا ہے۔ اس رپورٹ میں پاکستان کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے، جہاں 18 سے 49 سال کی 49 لاکھ خواتین کو پائیدار ترقی کے چار شعبوں سے بیک وقت محروم رکھا جاتا ہے۔ ان میں:

18برس کی عمر سے پہلے شادی،

تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ،

صحت کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت،

اور روزگار سے متعلق فیصلے شامل ہیں۔

2015ءمیں اقوامِمتحدہ اور عالمی رہنماؤں نے 2030ء کے ایجنڈےکی منظوری دی تھی، جس کے بعد اس رپورٹ میں ایجنڈے کے 17اہداف کی تکمیل کو صنفی پیمانے سے پرکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایجنڈے پر عمل پیرا ہونے کے لیے اس رپورٹ میں قابلِ عمل سفارشات بھی دی گئی ہیں۔ اقوامِمتحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی مرد و خواتین کے درمیان ان کی آمدن اور مقام کی وجہ سے واضح خلیج موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں سب سے پسماندہ نسلی گروہ میںپشتون،سندھی اور سرائیکی خواتین ہیں، جبکہ دوسرے اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ غریب خواتین ہر جگہ یکساں طور پر پسماندہ ہیں۔

رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں:

۔ملک میں 74 فیصد خواتین ایسی ہیں، جنھوں نےمحضپرائمری تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔

۔پشتون خواتین اس معاملے میں سب سے پسماندہ ہیں۔

۔سندھ کے غریب ترین خاندانوں میں40 فیصد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ قومی سطح پر یہ شرح 13اعشاریہ 2فیصد ہے۔

۔غربت کی وجہ سے عورتیں کام کرنے پر مجبور تو ہو جاتی ہیں لیکن انھیں سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں صنفی تعصب، کم مواقع اور کم اجرت شامل ہیں۔ ان وجوہات کے باعث کم خواتین کام کر پاتی ہیں۔

۔بنیادی سہولیات سے محروم خواتین کا 79اعشاریہ 8فیصد دیہی آبادی پر مشتمل ہے۔

۔امیرگھرانوں کی24فیصد خواتین کی کم عمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ امیر گھرانوں کی 13اعشاریہ 4فیصد خواتین صحت کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

صنفی مساوات، صوبے کیا کررہے ہیں؟

پنجاب کی آخری دستیاب رپورٹ میں سال 2016ء کے اعداد وشمار بتائے گئے ہیں۔ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑےصوبے میں زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں صنفی عدم مساوات موجود ہے۔2014ءمیں 15 سال سے بڑی لڑکیوں کی شرحِ خواندگی 58 فیصد تھی، جبکہ لڑکوں میں یہ شرح 67اعشاریہ 6فیصد تھی۔ خاص طور پر، شہری علاقوں میں کام کرنے والے مرد اورخواتین کے درمیان بھی شدید عدم مساوات پائی جاتی ہے۔ شہری اور دیہی، دونوں علاقوں کے معاوضوں میں بھی واضح فرق موجود ہے۔

دیہی اور شہری پنجاب میں 25 سے 60 سال کی عمر میں مَردوں کے کام کرنے کی شرح 90 فیصد سے زائد ہے، جبکہ عورتوں میں یہی شرح 18 تا 22 فیصد ہے۔ 46 فیصد عورتوں کو جومعاوضہ ملتا ہے وہ انتہائی کم آمدنی کے زمرے میں آتا ہے، یعنی 5 ہزار روپے، جبکہ صرف 7اعشاریہ 7فیصد مردوں کو یہ کم معاوضہ ملتا ہے۔ سرکاری اداروں، خاص طور پر قانون کے شعبے میں عورتوں کا تناسب بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ پنجاب میں عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت کم ہے، یعنی 67اعشاریہ 2برس کے مقابلے میں 66اعشاریہ 5برس اوراس کی بڑی وجہ عورتوں میں تولیدی مسائل ہیں۔

یہ بات مسلمہ ہے کہ معاشرے کی سوچ میں اسی وقت تبدیلی آ سکتی ہے، جب سماجی شمولیت اور صنفی مساوات کے لیے مسلسل کوششیں کی جائیں۔ اسی طرح، خواتین کو اگر کام کرتے دکھایا بھی جاتا ہے تو وہ عموماً 'خدمات والے شعبے ہوتے ہیں مثلاً ڈاکٹر اور استاد۔ عورتوں کو پائلٹ، انجینیئر، سائنس دان یا بزنس وومن کے روپ میں نہیں دکھایا جاتا، حالانکہ ان شعبوں میں بھی ان کی بڑی تعداد کام کر رہی ہے۔

خواتین کی معاشی اور سماجی خود مختاری کو فروغ دینے، سماجی زندگی میں ان کی بامعنی شمولیت کو یقینی بنانے، اور ان کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کو کم کرنے کے لیے حکومتِ پنجاب کی جانب سے 2012ء، 2014ء اور2016ء میں پنجاب ویمنز اِمپاورمنٹ پیکج کے ذریعے عملی اقدامات کیےگئے۔ ان میں عورتوں کے تحفظ، معاشی حقوق اور نوکریوں میں زیادہ شمولیت جیسے حقوق شامل تھے۔عورتوں کے حقوق کے حوالے سے پنجاب کمیشن میں 24 گھنٹے کی ایک ہیلپ لائن اور ایک شکایتی رجسٹر بھی موجودہے تاکہ خواتین کو معلومات فراہم کی جا سکیں اور ان کی شکایات کا اندراج کروایا جا سکے۔ عورتوں کے لیے تھانوں میں ہیلپ ڈیسک قائم کی گئی ہیں اور محتسب کے دفاتر بھی جنسی ہراسانی کی شکایات وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ خصوصی ادارے تشکیل دیے گئے ہیں، مثلاً ویمن ڈیویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ آف پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں عورتوں کے حقوق کے بارے میں کمیشن، اور پنجاب میں خصوصی مانیٹرنگ یونٹ تشدد روکنے کے لیے سرگرم ہیں۔