کانسپرنسی تھیوریز یا فوڈ فار تھاٹ

November 09, 2012

ہم سب کیلئے یقینا یہ خوشی کی بات ہے کہ 9/اکتوبر کو وحشیانہ حملہ کی شکار ملالہ الحمدللہ برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال میں تیزی سے صحت یاب ہورہی ہے۔ سوات سے تعلق رکھنے والی 14 سالہ اس معصوم بچی کے افکار، مشن، اس پر حملہ اور مابعد کی تفصیلات کا شہرہ اس قدر حیرت انگیز طور پر ہوا کہ کم از کم پاکستان کی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی ، مغربی میڈیا نے اسے دنیا کی معروف ترین ٹین ایجز قرار دیا ہے۔
یہ سب اپنی جگہ مگر بہت سی سازشی تھوریز بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں، بعض کے نزدیک تو حادثے کی تفصیلات ہی مشکوک ہیں۔ سازشی تھیوری یہ ہے کہ ایسے نکمے اور نااہل نشانہ باز، جو کنپٹی پر بندوق رکھ کر بھی نشانہ نہ لگا سکیں، ہرگزہرگز طالبان نہیں ہوسکتے۔اسی تھیوری کو آگے بڑھاتے ہوئے 4نومبر کو منعقد ہونے والی اسلام زندہ باد کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن بھی ملالہ پر حملے کو ڈرامہ قرار دے چکے، جو اس خوبصورتی کے ساتھ کھیلا گیا کہ سیریس قسم کی ہیڈ انجری نہ ہو اور انکشاف کیا کہ ملالہ کے زخم کسی طور بھی ہیڈ انجری کی ذیل میں نہیں آتے۔ بچی کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سمیت، اس سے کہیں گھناؤنے مظالم ملک کی بے شمار بچیوں کے ساتھ ہوچکے۔ برطانوی ایوان بالا کے رکن پاکستانی نژاد لارڈ نذیر احمد کو بھی دال میں کالا دکھائی دیتا ہے۔4نومبر کے ڈیلی ٹیلیگراف میں چھپنے والے موصوف کے بیان کے مطابق ملالہ کا معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا کہ دکھائی دیتا ہے۔ اس کے پیچھے کوئی اور ہے اور مدعا بھی کچھ اور۔ یہ کھیل طالبان کو ڈسکریڈٹ کرنے کیلئے کھیلا گیا ہے ۔
سازشی تھیوری والے یہ بھی کہتے ہیں کہ سوات جیسے پسماندہ اور شورش زدہ علاقے میں جہاں تعلیم، بالخصوص لڑکیوں کی تعلیم کا نظام تلپٹ ہوچکا، گیارہ برس کی بچی سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کسی خارجی تعاون اور امداد کے بغیر بی بی سی پر ”پاکستان اسکول گرل کی ڈائری“ جیسا بلاگ لکھے گی۔ جو یکایک دنیا میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرلے گا۔ تعلیم کے حوالے سے اسکی تقریریں، نظمیں، انٹرویوز بھی شبہات کی زد میں ہیں اور پھر اس کی اس للکار ”طالبان مجھ سے تعلیم کا بنیادی حق کیونکر چھین سکتے ہیں“ کا سب سے پہلے نوٹس بھی این جی اوز اور مغربی میڈیا نے ہی لیا تھا۔سازشی عناصر تو ملالہ کا تقابل بینظیر بھٹو جیسی جینئس خاتون سے بھی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کی تحریک کے علمبردار مارٹن لوتھر کنگ کو اکتوبر 1964ء میں نوبل امن انعام ملا، تو بینظیر، ملالہ کی طرح ٹھیک گیارہ برس کی تھیں۔ اسکول والوں نے اس حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا، تو تقریر کیلئے نظر انتخاب بینظیر پر پڑی، ٹیچر نے ہدایت کی کہ اگلے دن تقریر لکھوا کر لائے۔ بھٹو صاحب نے سنا تو اسکول انتظامیہ کو فون کیا کہ اتنا مشکل موضوع اور اتنا کم وقت؟ کل تو نہیں البتہ پرسوں انتظام ہوجائے گا اور اس دن وزارت خارجہ کا متعلقہ ڈیسک سارا دن تقریر کے ڈرافٹ لکھ لکھ کر اپنے ایڈیشنل سیکرٹری کو دکھاتا رہا، جو کہیں شام کو جاکر فائنل ہوا۔ یاد رہے ذوالفقار علی بھٹو کی چہیتی صاحبزادی اس وقت تک کراچی کے معروف اداروں لیڈی جیننگز نرسری اسکول اور کانونٹ آف جیس اینڈ میری سے ہوتی ہوئی راولپنڈی کے پریزنٹیشن کانونٹ تک پہنچ چکی تھی۔ سازشی تھیوری والوں کا وقف ہے کہ اس قسم کی غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے طلبہ کو بالعموم پش کیا جاتا ہے۔ اس قسم کے خیالات اس کے ذہن میں انڈیلے جاتے ہیں۔تحریرو تقریر کی باقاعدہ تراش، خراش ہی نہیں بلکہ تخلیق بھی کی جاتی ہے۔ زبان و بیان اور لہجہ کے اتار چڑھاؤ کی باقاعدہ پریکٹس کرائی جاتی ہے پھر کہیں جاکر بچہ رواں ہوتا ہے۔ گیارہ برس کے بچے کا ازخود بی بی سی پر بلاگ لکھنا اور اتنی بڑی بڑی باتیں کرنا، قرین قیاس نہیں۔ اسکے پیچھے کوئی نہ کوئی ضرور تھا۔ انہیں تو برطانیہ جانے سے پہلے ملالہ کی فیملی کے پاکستانی حکام کیساتھ مذاکرات اور برطانیہ میں سیاسی پناہ کی خواہش کا اظہار اور اس کے والد بزرگوار کیلئے پاکستان ہائی کمیشن میں عارضی ملازمت کی اطلاعات کے پیچھے بھی بہت کچھ دکھائی دیتا ہے۔اس طبقہ فکر کو ملالہ کے ملاقاتیوں کی طویل قطار پر بھی حیرت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وطن عزیز پر ڈرون حملوں کے نتیجے میں چار ہزار کے لگ بھگ لوگ جان سے ہاتھ دھو چکے، جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے۔ زخمیوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں تو کسی نے پرسہ نہیں دیا۔ ملکی اور غیر ملکی اہم شخصیات کا رخ برمنگھم کے کوئین الزبتھ اسپتال کی جانب ہی کیوں ہے؟ برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے وزراء کے ہمراہ اپنے رحمن ملک کا اسپتال کا دورہ، آصفہ بھٹو کا ملالہ فیملی کے ساتھ گروپ فوٹو اور ٹیلیفون پر گفتگو، چیئرمین سینیٹ کی اسپتال کی استقبالیہ کے ایک ٹھنڈے کمرے میں پاکستان ہائی کمیشن کے ملازمین کے ساتھ متفکرانہ تصویر۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا محض بھیڑچال ہے؟ یا پھر اس سے بھی سیاسی مفادات کشید کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ ملالہ سے ملاقات تو کسی کی بھی نہیں ہوئی کیونکہ وہاں کے ڈاکٹر وی آئی پیز سے مرعوب ہوکر مریض کو ان کی خدمت میں پیش کرنے کے فن سے نابلد ہیں۔ سو جانے والے محض رسم دنیا نبھا کر چلے آئے اور یہ سب بے شک ہمارے غیرمتوازن معاشرتی رویوں کا عکاس ہے۔