سنجرانی ٹائپ کا خوف

July 12, 2018

بہت ہی مختصر انتخابی مہم۔ سب ہی مشکل میں ہیں۔ قومی سیاسی جماعتیں۔ نگراں حکومت۔ نگرانوں کے نگراں۔ مگر پینا فلیکس والے ۔ ڈیکوریشن والے خوش ہیں۔ دریوں کی جگہ کرسیاں استعمال ہورہی ہیں۔ پارلیمنٹ کی مدت پوری ہونے سے ڈیکوریشن والے نقصان میں رہتے ہیں۔ پہلے دو ڈھائی سال بعد چاندی ہوجاتی تھی۔ اب پورے پانچ سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ میاں صاحب اور مریم نواز صاحبہ کے جلسوں سے گلشن کا کاروبار چلنے لگا تھا۔ وہ لندن چلے گئے۔ اب لگ رہا ہے کہ وہ آتے ہی جیل لے جائے جائیں گے۔ جیل والوں کی مشقّتیوں کی۔ ماڑی والوں کی چاندی ہوجائے گی۔ لیکن باہر سناٹا ہوگا ۔ ڈیکوریشن والوں کے ہاں اُداسی بال کھولے سورہی ہوگی۔
آج بھائی بہن کو سپریم کورٹ میں پیش ہونا ہے۔ دونوں طاقت ور۔ بااثر۔ ایک جنبش ابرو سے کشتوں کے پُشتے لگ جاتے ہیں۔ کل باپ بیٹی کا ایک طرف ہزاروں کی تعداد میں کارکن استقبال کریں گے دوسری طرف نیب والے ہتھکڑیاں لے کر کشادہ ہوائی جہاز کی فرسٹ کلاس میں پہنچ رہے ہوں گے ۔ معلوم نہیں کہ شریف بیانیے کو ان کی عدم موجودگی میں اسی اعتماد اور شد و مد سے لے کر کوئی چلنے والا ہے یا نہیں۔
ایک افراتفری ہے۔ بے یقینی ہے۔ پہلے ایسے دگرگوں حالات میں ملکی سا لمیت کو خطرات لاحق ہوجاتے تھے لیکن عوام مطمئن ہیں کہ پاک فوج موجود ہے۔ جو الرٹ بھی ہے۔ اور پوری طرح جدید ترین اسلحے سے لیس بھی اور ہمارا عزیز ترین دوست چین بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اس لئے بیرونی خطرات سے ہم اللہ کے فضل سے محفوظ ہیں۔ لیکن اندرونی طور پر کتنے محفوظ ہیں۔ نگراں حکومتوں کا تو پتہ ہی نہیں چل رہا۔
ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے
نگراں وزیر اعظم قوم سے خطاب نہیں کررہے نہ طوفانی دورے کررہے ہیں،قومی سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کی ایک میٹنگ تو انہیں بلانی چاہئے تھی،ایک امریکی یاترا بھی ہو جاتی تو کیا مضائقہ تھا۔
اقتدار کی غلام گردشیں ہوں،میڈیا ٹاک شوز، اخبارات کے کالم، پنج ستارہ ہوٹلوں کی لابیاں۔ ایک انجانا خوف ہر جگہ،کسی سنجرانی ٹائپ وزیر اعظم کی انٹری نہ ہوجائے۔ سنجرانی صاحب کے بارے میں اتنا ذکر ہورہا ہے کہ میری ان سے ملنے کی بے تابی بڑھ رہی ہے۔ دُعا کریں میں ان سے آپ کی طرف سے ملوں اور پوچھوں کہ ان کے سر پر ہما کیسے بیٹھا۔ سنجرانی اپنی اچھی قسمت بھی ساتھ لکھوا کر آتے ہیں۔ پہلی سیاسی انٹری میں ہی وہ سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوگئے۔مختصر سے عرصے میں کئی بار قائم مقام صدر مملکت بھی بن چکے ہیں۔33سال پہلے لاہور میں بھی ایسی ہی انٹری ہوئی تھی۔ میاں نواز شریف کو میدان سیاست میں کوئی نہیں جانتا تھا۔ آج جس مخلوق کی بات کی جارہی ہے اس کے بزرگوں نے انہیں اسی طرح داخل کیا تھا ۔ ان کی قسمت نے بھی ساتھ دیا۔ملک میں پہلی بار کسی کو تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کا موقع ملا۔ اس وقت کے فرشتوں کو کہاں اندازہ ہوگا کہ کل یہ نووارد سیاستدان۔ ان کے لئےسب سے بڑا چیلنج بن جائے گا اور پنجاب والے اپنی فاتح نوازی کی روایت ترک کرکے خود فاتح بن جائیں گے۔
عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے
پہلی بار پنجاب کے میدانوں سے انتہائی موثر لہجے میں کسی طاقتور کو ہدف بنایا جارہا ہے۔ وہی لہجہ جو سندھ۔ سرحد اور بلوچستان کے محروم لیڈر اختیار کرتے تھے۔ اب معلوم نہیں کہ یہ محمود خان اچکزئی کی صحبت کا نتیجہ ہے یا حاصل بزنجو سے رفاقت کا حاصل ہے۔ تاریخ کے ہم جیسے طالب علموں کے لئے یہ ایک نیا منظر نامہ ہے۔ الیکشن 2018کے نتیجے میں معلق پارلیمنٹ آئے یا قطعی اکثریت والی۔ پنجاب میں یہ بیانیہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ کیونکہ یہ رفتہ رفتہ سینہ بسینہ چل رہا ہے۔ پہلے اقبال کی ایک نظم سن لیں
پنجابی مسلمان
مذہب میں بہت تازہ پسند اس کی طبیعت
کرلے کہیں منزل تو گزرتا ہے بہت جلد
تحقیق کی باری ہو تو شرکت نہیں کرتا
ہو کھیل مریدی کا تو ہرتا ہے بہت جلد
تاویل کا پھندا کوئی صیّاد لگادے
یہ شاخ نشیمن سے اترتا ہے بہت جلد
اقبال کشمیری بھی تھے پنجابی بھی۔اس لئےپنجاب کی نبض پر ان کی انگلیاں تھیں۔ مذہب میں طبیعت کی تازہ پسندی دکھائی دے رہی ہے۔ بالکل نئی مذہبی جماعتوں نے کتنی بڑی تعداد میں امیدوار نامزد کئے ہیں۔تحقیق کی بازی میں شرکت نہیں ہورہی ہے۔ خانقاہیں اور پیری مریدی کے سلسلے بہت سرگرم ہیں۔ شاخ نشیمن سے پرندے اتر رہے ہیں۔ اپنی مرضی سے جال میں گھس رہے ہیں۔ پنجاب سے پہلی بار ایسی موثر آواز اٹھنا بہرحال ایک لائق مشاہدہ منظر نامہ ہے۔
پہلے الیکشنوں میں یہ جملہ بار بار سننے کو ملتا تھا۔ ہم قائد اعظم کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اس بار قائد اعظم۔ کشمیر ہندوستان انتخابی مہم کا موضوع نہیں ہیں۔ کراچی میں ایک کلب کو نہ جانے کیوں خیال آگیا کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔ جہاں یہ سیمینار ہورہا تھا وہاں قائد اعظم کو پہلا استقبالیہ بھی دیا گیا تھا۔ کلب کے ارکان زیادہ تر میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ میں اکثر کہتا ہوں۔
نگاہ مرد ’’میمن‘‘ سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
پہلے نگراں حکومتوں میں ایک نہ ایک میمن ضرور ہوتا رہا ہے ۔ اب کے غور نہیں کیا۔ مقررین میں کھلاڑی بھی تھے اینکر پرسن بھی۔ حسین چہرے بھی۔ سب کا اتفاق اس بات پر تھا کہ گزشتہ 10سال سے جو پاکستان ہے یہ قائد اعظم کا نہیں ہے۔ طلعت حسین نے ن م راشد کی نظم سنائی۔ سہیل وڑائچ نے قائد اعظم کی بطور باپ۔ بطور بھائی بطور بیٹا بہت دلکش تصویر کشی کی۔ معیشت کے حوالے سے بھی باتیں ہوئیں۔ گورنر سندھ نے قائد اعظم کا جو پاکستان بتایا۔ وہ قائد اعظم ثانی میاں نواز شریف والا کسی اور کی مداخلت سے پاک پاکستان تھا۔ 11اگست1947کی تقریر کا حوالہ سب ہی دیتے رہے۔ مجھے سب سے آخر میں بولنا تھا۔ جب صرف چند خاندان رہ گئے تھے جو آخر دم تک جاننے پر مصر تھے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے۔
میں نے ان باقی ماندہ ارکان کو یہ خوش خبری دی کہ قائد اعظم ایسا ہی ہنستا کھیلتا۔ کھاتا پیتا۔ اور خوشحال پاکستان چاہتے تھے جو کراچی کلب کے مختلف ہالوں میں نظر آتا ہے۔ یہاں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ پائنچے ٹخنوں سے اوپر ہوں ۔ سر پر ٹوپی ہو البتہ خواتین خود پائنچے ٹخنوں سے اوپر رکھنے لگ گئی ہیں۔ اچھی بھی لگتی ہیں۔ قائد اعظم نے 70سال پہلے جن برائیوں کا ذکر کیا تھا ۔ چور بازاری۔ اقربا پروری۔ رشوت۔ احباب نوازی۔ وہ اب بھی موجود ہیں۔ کراچی کلب کے بارے میں تحقیق ہونی چاہئے کہ انہیں قائد اعظم کا پاکستان کیوں یاد آرہا ہے۔ اکبر اس زمانے میں خدا کا نام کیوں لیتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)