سر رہ گزر

July 17, 2018

ناں ناں کر کے ہاں کسی سے کر بیٹھے
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف: شفاف الیکشن نہ ہوئے تو ملک کا نقصان ہو گا۔ بلاول زرداری بھٹو:شفاف الیکشن کے بغیر پارلیمنٹ متنازع ہو گی۔ ناطقہ سربگریباں ہے کہ آخر ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو انتخابات کے غیر شفاف ہونے کا اس قدر یقین کیوں ہے، جبکہ ملک کی تاریخ میں کسی الیکشن کو شفاف بنانے کے جتنے جتن اس بار کئے گئے ہیں وہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئے، شاید یہ طوفان آنے سے پہلے طوفان ہے، جو غماز ہے کہ کوئی طوفان نہیں آنے والا کیونکہ طوفان سے پہلے ہوا تھم جاتی ہے اور فضاء پر گھمبیر سکوت طاری ہو جاتا ہے، مگر ایسے آثار تو نہیں پھر یہ غیر شفافیت کا شور کہیں طوفانِ شکست کے اندیشے تو نہیں، یوں بھی تو کہا جا سکتا ہے، شفاف الیکشن ہوئے تو ملک کا فائدہ اور نہ ہوئے تو نقصان ہو گا، مگر شفاف انتخابات کے لئے جو غیر شفاف پیش گوئیاں ماضی کی دونوں بڑی جماعتوں کی طرف سے کی جا رہی ہیں، وہ کسی گہرے اندرونی خوف کو ظاہر کر رہی ہیں، یہ انداز اپنے فرضی پائوں پر نفسیاتی کلہاڑا مارنے کے مترادف ہے، ہم جب لڑکپن میں گلی کوچوں میں دو ٹیمیں بنا کر کھیلتے اور شکست کا یقین ہو جاتا تو رولا رپا ڈال کر کھیل کو درہم برہم کر دیتے آج نہ جانے کیوں وہ لڑکپن یاد آ گیا ہے، ہمارے کچھ مہربان ایسے بھی ہیں جو حمایت کے پردے میں مخالفت کی دلیلیں پیش کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ شاید انہوں نے اپنے ممدوح کا قصیدہ پڑھ دیا ہے، یہ خود کو دام فریب میں لانے اور قارئین کو بھی اپنے ہمرنگ زمین جال میں الجھانے کا سیدھا سیدھا انداز ہے، ہم ان کو عندلیب شیراز کا یہ مشہور شعر سناتے ہیں شاید وہ اپنے لفظی جال کی ناپختگی کا اندازہ کر لیں؎
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
(جس رنگ ڈھنگ کا لباس پہن لو مگر ہم تو تمہارے قد کا انداز جانتے ہیں)
٭٭٭٭
(گل فروشوں کو ضمیر فروش کہتے ہو؟
عمران خان:صحافیوں سے پوچھتا ہو ںضمیر بیچ کر نواز شریف کو ہیرو کیوں بنا رہے ہو؟ اب اس کا ’’وہ‘‘ والا جواب تو ہم نہیں دینا چاہتے کہ ہم بھی ان کی صف میں آ جائیں گے تاہم اتنا کہیں گے کہ صحافیوں نے اپنے ضمیر کے مطابق سیاسی قائدین کو اٹھایا، گرد جھاڑی، چمکایا تاکہ یہ جنہیں قوم کی خدمت کا شوق ہے بہتر انداز میں صاف ستھرے ہو کر جمہوری سیاست کر سکیں، آج صحافی خان صاحب! آپ سے نظریں ہٹا لیں تو کوئی آپ کو دیکھنے کا بھی روا دار نہ ہو، اگر آپ باضمیر انہی صحافیوں کو کہتے ہیں جو ہر وقت آپ کی تعریف کریں دوسروں کی برائیاں بیان کریں تو معاف کرنا ایسا کوئی صحافی، ہماری صفوں میں موجود نہیں، وہ سب کے اوصاف حمیدہ و خبیثہ بلا رو رعایت پیش کرتے ہیں تاکہ ووٹرز کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو، اور وہ کسی کم بُرے کو چن لے کیونکہ کوئی خطا سے پاک ہو تو وہ انسان ہی نہیں، آپ کیوں بار بار ایسی غلطیاں کر رہے ہیں کہ جن سے آپ پاتال میں گر سکتے ہیں، آج یہ صحافی ہی ہیں جن کے توسط سے پاکستان میں سیاسی لیڈر شپ دکھائی دے رہی ہے، میڈیا کوریج نہ دیتا تو عمران خان کی آواز میانوالی کے محلہ خنکی خیل سے باہر نہ آتی، ہمیں بے حد دکھ ہوا کہ انہوں نے پورے ملک کے صحافیوں کو ضمیر فروش کہہ دیا، وہ کیوں اپنی نیکیاں بدیوں میں بدل رہے ہیں کیا اس طرح وہ اس جنت میں داخل ہو سکیں گے جس کا خواب دیکھتے دیکھتے وہ بال سفید کر بیٹھے، اگر نواز شریف کو ضمیر بیچ کر ہیرو بنایا ہوتا وہ جیل میں نہ ہوتے، آج سب سیاسی قائدین کے بیانیہ کو صحافی آگے بڑھا رہے ہیں، اگر کوئی مخالفت کرتا ہے تو اپنی اصلاح کرنا چاہئے صحافیوں کو ضمیر بیچنے کی گالی نہ دیں اگر انہوں نے نظر ہٹا لی تو آپ شاید نظر بھی نہ آئیں۔ تنقید کو صحافی کی ضمیر فروشی کہنا بے ضمیری ہے۔
٭٭٭٭
یہاں سارے قائداعظم ہیں
....Oکیسی ہوا چلی کہ اعظم سے کوئی نیچے نہیں اور نیچے سے کوئی نیچا نہیں۔
....Oمیڈیا نے قوم قائد و اقبال میں بیداری و آگہی پیدا کی اس سے اسکا کریڈٹ چھیننے والے کہیں خود اسفل السافلین نہ ہو جائیں۔
....O نگران حکومت پر تبرا پڑھنے والے یہ بھی محسوس کریں کہ وہ خود کربلا کے میدان میں کس جانب کھڑے ہیں۔
....Oسانحہ مستونگ کو دل سے سانحہ سمجھنا چاہئے کہ یہ پاکستان کے پرچم پر حملہ اور ہر پاکستانی کا قتل ہے، سوگ منانے کے ساتھ ساتھ اسے محسوس کریں اور سبق سیکھیں کہ دشمن آپکی دھرتی قتل کرنے کا ایجنڈا لیکر آگے بڑھ رہا ہے۔
....Oعمران خان:کرپٹ افراد کے ساتھ مل کر حکومت نہیں بنائوں گا ۔
مگر کرپٹ افراد کو پارٹی کا حصہ ضرور بنائوں گا۔
....O عائشہ گلالئی:ایک ہاتھی جیل پہنچ چکا مزید 2 کے لئے مشن جاری رکھوں گی۔
اگر ہمارے چڑیا گھر سے سارے ہاتھی جیل پہنچ گئے تو لوگ تفریح کیلئے کیا اڈیالہ جائیں گے؟ ویسے بھی مس گلالئی! جو ہاتھی جیل گیا وہ تو آپ کا محسن ہاتھی ہے، اور اسے بھیجنے والا بھی کوئی اور ، بیان ابھی کچا ہے پکے بیان دیا کریں۔
....Oاگر آج تک زینب کا قاتل زندہ ہے تو ہر زینب مقتول ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)