سفر زیا رت بیت المقدس

July 19, 2018

تحریر:حافظ عبدالاعلیٰ درانی…بریڈفورڈ
(قسط نمبر22)
آرائیں برادری کی مناسبت ’’ شہر اریحا ‘‘سے ہے قارئین جنگ سے معذرت کہ رمضان المبارک میں خلاصہ مضامین قرآن کی ترتیب اوراس ماہ مقدس کی دیگر مخصوص مصروفیات کے باعث سفر فلسطین کی نئی قسط تیار نہ کرسکا فرصت ملتے ہی یہ سلسلہ دوبارہ شروع کیاجارہاہے ۔تسلسل کیلئے ملاحظہ فرمائیں 14مئی2018کاجنگ لندن۔اب اس سے آگے پڑھیے :۔’’ محققین کے مطابق کہ حجاج بن یوسف کے دور میں مجاہدین کاجوقافلہ محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ کے جہادمیں شامل ہواتھا۔ان میں سے اکثرسپاہیوں کا تعلق فلسطین کے اس تاریخی شہر’’اریحا ‘‘سے تھا۔یہ لوگ ہندوستان ہی میں بس گئے اور انہی کی نسل …اریحا …کی نسبت سے ارائیں کہلائی۔ یہی وجہ ہے کہ دو برادریاں مکمل طور پر مسلم برادریاں ہیں ۔ ایک اعوان اور دوسرے ارائیں ۔ان میں کوئی ہندو یا سکھ نہیں ہے کیونکہ یہ خالص مسلمان نسل سے ہیں ۔ بحرمیت کے مختصر سے وزٹ کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا۔اور ہمارا رخ بحر میت سے بالکل قریبی شہراریحا ہے۔چند کلو میٹر کے فاصلے پربڑی شاہراہ سے بائیں جانب ایک سڑک پرجاؤ تو۔اریحا۔ کاسائن آجاتاہے اریحا (انگریزی میںJerichoجریکو) فلسطینی مغربی کنارے (ضفۃ الغربیہ) کاایک خوبصورت شہر ہےجس کے بارے میں ہم نے بچپن میں بہت کچھ سنااور بڑے ہوکر بہت کچھ پڑھا تھا اریحا کا معنی خوشگوار (Fragrant) راحت والاا ورخوشبو دار بائبل میں اسے سٹی آف پام ٹری کہا گیاہے ۔غالبا دنیا کا سب سے قدیمی شہر یہی ہے ۔ کم و بیش نوہزار سالہ بعض محققین کے مطابق اس سے بھی قدیم ہے بائبل کے مطابق اریحا … ہیروڈیس اعظم کے دور میںاس کا سرمائی صدرمقام رہا ہے ۔یاد رہے کہ ہیروڈیس ولادت عیسوی سے چار سال قبل وہیں فوت ہوا تھا۔ 1950کی کھدائی سے ہیروڈیس کا قلعہ موجودہ شہر سے سوا میل جنوب میںدریافت ہواہے ۔ جو رومن طرزتعمیر اور رومن عہد کی یادگار ہے ۔ اس شہر کے گرد حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی جو دنیا کی سب سے قدیمی اور مضبوط حفاظتی دیوار کی حیثیت رکھتی ہے ۔اس کے کچھ حصے اب بھی موجودہیں ۔ پتھرکا ایک بہت بڑا مینار بھی یہاں موجودہے ۔جو اس شہر کی قدامت ظاہر کرتاہے ۔دینی تاریخی کے لحاظ سے بھی یہ شہربڑی اہمیت کاحال ہے۔ یعنی یہ وہ پہلا شہر ہے جس میں قوم موسیٰ کو سب سے پہلے داخل ہونے کا حکم دیا گیاتھا۔یا یوں کہہ لیجئے اسی شہر سے قوم موسیٰ کی فتوحات کاآغاز ہواتھا۔قصہ یوں ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی غرقابی کے بعداپنی قوم کو لے کرجزیرہ نمائے سینامیں ’’ارواء ،ایلیم کے راستے کوہ سینا کی طرف آئے اور ایک سال سے کچھ زائد مدت تک اس مقام پر ٹھہرے رہے ۔ یہیں سے توریت کے بیشتر احکام آپ پر نازل ہوئے ۔پھرآپ کو حکم ہواکہ بنی اسرائیل کو لے کر فلسطین جاؤ اور اسے فتح کرلوکہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لیے ہوئے تبعیر اور حصیرات کے راستے دشت فاران تشریف لائے ۔اور وہاں سے آپ نے بنی اسرائیل کے 12سرداروں کو فلسطین کا دورہ کرنے کیلئے بھیجا تاکہ وہاں کے حالات معلوم کرکے آئیں یہ لوگ چالیس دن دورہ کرکے وہاں سے واپس آئے اور قادس کے مقام پر انہوں نے قوم کے مجمع عام میں بیان کیا کہ واقعی وہاں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی ہیں۔لیکن جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں وہ زور آور ہیں ۔ہم ان پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ۔یہ بیان سن کر سارا مجمع چیخ اٹھا کہ ’’اے کاش ہم مصر ہی میں مرجاتے ۔یا کاش ہم اسی بیابان ہی میں مرجائیں‘‘۔ان کی بزدلی دیکھ کردوسردار یوشع بن نون اور کالب اٹھے اور انہوں نے قوم کی بزدلی پر لعن طعن کی اور اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کی ۔آخرکار اللہ کا غضب بھڑکااور اس نے فیصلہ فرمادیاکہ ’’ اب یوشع اور کالب کے سوااس قوم کے بالغ مردوں میں سے کوئی بھی اس سرزمین میں داخل نہ ہونے پائے گا۔یہ قوم چالیس سال تک بے خانماں پھرتی رہے گی‘‘۔چنانچہ اس فیصلہ خداوندی کے مطابق بنی اسرائیل کو دشت فاران سے شرق اردن تک پہنچتے پہنچتے پورے38 برس لگ گئے ۔ اس دور میں وہ سب لوگ مرکھپ گئے جو جوانی کی عمر میں مصر سے نکلے تھے ۔ شرق اردن فتح کرنے کے بعدحضرت موسیٰ علیہ السلام کابھی انتقال ہوگیا اسکے بعد یوشع بن نون کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل اس قابل ہوئے کہ فلسطین کو فتح کر سکیں۔ حضرت یوشع نے مشرق کی جانب سے دریائے اردن کو پار کرکے ’’شہر اریحا ‘‘کو فتح کر لیا۔یہ فلسطین کا پہلا شہر تھا جو بنی اسرائیل کے قبضے میں آیا ۔پھرایک قلیل مدت میں پورا فلسطین فتح ہوگیا ( تفہیم القرآن ج1ص 460) یہ تفصیلات بائبل کی کتاب گنتی، استثناء اور یشوع میں ملیں گی۔اور قرآن کریم کی سورہ مائدہ آیت نمبر21تا26میںاسی کاذکر کیاگیاہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم سے کہا اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جائو جو اللہ نے تمہارے لیے لکھی ہوئی ہے ، وہاں جانے سے پیٹھ نہ پھیرو ورنہ نقصان اٹھاؤ گے (۲۱) لیکن بنی اسرائیل کی بزدلی اورتن آسانی حملے کرنے میں آڑے آئی۔ اور بولے ’’اے موسیٰ وہاں کے لوگ تو بہت زور آور ہیں ، اس لیے ہم اس وقت تک وہاں نہ جائیں گے جب تک وہ لوگ خود بخود وہاں سے نکل نہ جائیں ۔اور جب وہ خود بخود نکل جائیں گے تو پھر ہمیں حاضر سمجھو (۲۲)تب دو خدا ترس آدمیوں نے ‘ جن پر اللہ کا فضل تھا کھڑے ہو کر کہا کہ تم ان کا مقابلہ کرتے ہوئے شہر کے دروازے میں گھس جاؤ ‘ دروازے میں قدم رکھتے ہی یقینا تم غالب آ جائو گے‘ اور تم اگر مومن ہو تو تمہیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے(۲۳) قوم نے جواب دیا کہ اے موسیٰ! جب تک وہ وہاں ہیں تب تک ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے، لہٰذا تم اور تمہارا رب جا کر دونوں ہی لڑ و‘ ہم یہیں بیٹھ کر دیکھیں گے(۲۴) موسیٰ نے عرض کی اے رب ! مجھے اپنے اور اپنے بھائی کے سوا کسی اور پر کوئی اختیار نہیں ہے‘ پس تو ہم میںاور ان نافرمانوں میں جدائی کر دے (۲۵) نتیجے میں ان سے کہاگیاکہ اب یہ چالیس سال سینا کی صحرا نوردی کرتے رہیں گے ۔ ارشاد ہوا کہ اب وہ سر زمین ان پر چالیس سال تک حرام رہے گی‘ یہ جگہ جگہ مارے مارے پھرتے رہیں گے۔ اب تم ان فاسقوں کی بدحالی پر غم زدہ نہ ہونا(۲۶) حضرت موسی علیہ السلام کاانتقال تواسی صحرانوردی کے دوران میں ہوگیا تھا۔لیکن ان کے بھانجے حضرت یوشع بن نون کے دور میں حالات نے پلٹا کھایا اوران کی قیادت میں جب فلسطین فتح ہواتو سب سے پہلا شہر یہی اریحا تھا۔ارض فلسطین کو ارض مقدسہ کہا گیاہے اس لحاط سے شہر اریحا شہر مقدس قرار پاتاہے کیونکہ یہی سب سے پہلا مفتوحہ شہربنا یہیں سے بیت المقدس کاعلاقہ شروع ہوتاتھا ۔اور اسلامی تاریخ میں اس شہر کا بڑا نام ہے جیساکہ اوپرعرض کیاکہ اسی شہر سے محمد بن قاسم کی فوج میں6000سپاہی بھرتی کیے گئے تھے اور یہ لوگ سند ھ ہی میں بس گئے تھے۔ انہی کی نسل اریحا کی مناسبت سے ارائیں کہلائی۔ جغرافیائی طور پر شہر اریحا فلسطین کے سولہ محافظات (اضلاع)میں سے ایک ہے فلسطینی مغربی کنارے میں59کلومربع میٹر میں پھیلا ہوا یہ شہر 1949 سے 1967تک اردن کے زیر قبضہ تھا اور 1967میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا۔1994میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی انتطامیہ کے زیر اثر آگیا 2006کی مردم شماری کے مطابق اس کی آبادی 20.300ہے اس میں یہودیوں کو داخل ہونے کی قطعااجازت نہیں ہے داخل ہوتے وقت حفاظتی چوکی پرواضح لکھاہے کہ ’’کوئی یہودی اس شہر میں داخل نہیں ہو سکتا‘‘ ورنہ کوئی ذمہ داری نہیں ہوگی لیکن ہم تو بڑے فخر کے ساتھ سینہ تان کر اریحا کے اندر داخل ہوئے کہ جیسے اپنے لاہور میں داخل ہوتے ہیں گویایہ بھی ہماراپنا شہر ہے ایسی ہی کیفیت ہماری بیت اللحم میں داخلے کے وقت بھی ہوئی تھی۔یہاں کی اہم پیداوار مجھول کھجور ہے، جو اپنی موٹائی، لمبائی اور لذت میں مشہور ہے کھجوروں کے بازار میں اس کی قیمت بھی زیادہ ہے لیکن اس معروف کھجور کی مجہول وجہ تسمیہ سمجھ میں نہیں آئی۔تن آسان لوگوں نے اس کانام مجہول رکھا جبکہ اصل نام مہجول ہے واللہ اعلم
یاسرعرفات مرحوم کا تربیتی کیمپ
ہم جب اس شہر میں داخل ہوئے تو اس وقت چیک پوسٹ پر کوئی بھی نہیں تھا ۔ ہم بلا روک ٹوک چلے گئے۔شہرکے پہلے حصے میں بائیں جانب ہائی سکول کی طرح کی ایک بلڈنگ نظر آئی جس کانام پڑھ کر میں چونک گیا لکھاتھا’’ P.L.O یاسر عرفات تربیتی سنٹر۔یعنی فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن(PLO) جسکی قیادت یاسرعرفات مرحوم کرتے تھے ، ان کا تربیتی سنٹر۔
ابو عماریاسر عرفات آزادی فلسطین کاہیرو
اس مجاہدفلسطین حریت پسند رہنمانے سے ساری زندگی فلسطین کی آزادی کیلئے وقف کردی تھی۔اس کی جدوجہدسے 1994میں اوسلومعاہدہ ہوااورفلسطینیوں کوبھی ’’ انسان ‘‘تسلیم کرلیاگیا۔یعنی بالکل ابتدائی طورپرہی سہی لیکن ان کی حیثیت مان لی گئی اورفلسطین کے بٹوارے سے کئی شہرفلسطینی ریاست کا حصہ قرار پائے ۔یاسرعرفات عالم اسلام میں مسلمانوں کاہیرو شمار ہوتا رہا ہے۔وہ 1929میں قاہرہ میں پیدا ہوئے ۔ان کا نام محمدیاسرعبدالرحمٰن عبدالرؤف عرفات قدوۃ الحسینی تھا ان کے والد تاجرپیشہ تھے اور والدہ زاہوا عبدالسعود کا تعلق شہربیت المقدس یروشلم سے تھا ۔وہ1933میں فوت ہوگئیں جب یاسر کی عمر صرف چار برس تھی ان کے والد1952میں قاہرہ ہی میں فوت ہوئے ۔انہوں نے قاہرہ یونیورسٹی سے1956 میں انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی جس کے بعد انہوں نے فتح تحریک سے اپنے سفر آزادی کاآغاز کیا۔1966میں انہوں نے فلسطینی لبریشن آرمیP.L.Oکی باگ ڈور سنبھال لی۔