نجات دہندہ کی ضرورت

July 19, 2018

صرف ایک ہفتے کے دوران 168افراد شہید ہوچکے ہیں۔ سیکڑوں زخمی ہیں۔ ملک میں خوف و ہراس کی فضا ہے۔ قارئین! وطنِ عزیز کی 70سالہ مجموعی سیاسی حالات کو دیکھ کر ہندوستان کا قدیم کردار چانکیہ اور اٹلی کے پندرہویں عیسوی صدی کاعیار میکاولی یاد آنے لگتے ہیں۔ جس طرح ہمارے حکمران اپنا دورِ اقتدار بڑھانے کے لیے ہر قسم کے حیلے بہانے اور حربے آزماتے رہتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے 15 سو قبل مسیح میں بھی بادشاہ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے یہی کچھ کیا کرتے تھے۔ چانکیہ ایک ہوشیار، عیار اور ذہین ترین شخص تھا۔ وقتاً فوقتاً حکمران کو اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے گر اور فارمولے بتاتا رہتا تھا۔ حاکمِ وقت ان پر عمل پیرا ہوکر اقتدار کے ہزاروں مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے باوجود تخت سے چمٹے رہتے تھے۔ اس وقت کے فرمانروا ’’چندر گپت موریہ‘‘ کے حکم پر چانکیہ نے ’’ارتھ شاستر‘‘ نامی کتاب بھی لکھ ڈالی۔ چندر گپت موریہ نے ہندوستان میں ’’موریہ‘‘ خاندان کی ایک طویل و عریض سلطنت قائم کی تھی۔ اس کی سرحدیں کابل سے مدراس تک پھیلی ہوئی تھیں۔ چانکیہ نے اپنی کتاب میں ایسے گر اور فارمولے بتائے جن کے بغیر لمبی حکومت کرنا ناممکن ہے۔ چانکیہ کی سفارت کاری ’’دشمن کا دشمن دوست‘‘ اور ’’ہمسائے کا ہمسایہ دوست‘‘ جیسے اُصولوں پر مبنی ہے۔ اگر کسی دشمن کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے دشمنوں کو اپنا دوست بنالیں۔ وہ نفسیاتی طورپر ختم ہوجائے گا۔ ریاست کے ہمسائے ہمیشہ آپ کے دشمن ہوتے ہیں۔ ان کو دوست بنانے کی کوشش نہ کریں کیونکہ وہ کبھی آپ کے دوست نہیں بن سکیں گے۔ہمسایوں پر توجہ دینی چاہیے۔ ان کو دوست بنائیں، آپ کا ہمسایہ دشمن نفسیاتی اور ذہنی طورپر تباہ ہوجائے گا۔ چانکیہ کی تعلیمات میں وعدہ خلافی، جھوٹ، مکروفریب اور دھوکا دہی سے کام لے کر اپنے مخالف کو زیر کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان جیسے درجنوں ’’سنہری اُصول‘‘ تھے جن پر چندر گپت موریہ نے پوری زندگی عملدرآمد کیا اور نتیجے میں وہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے پر حکومت کرتارہا۔ چانکیہ کے فلسفے سے اتفاق کرتے ہوئے بعد کے بھی کئی حکمران اس پر عمل کرتے آرہے ہیں بلکہ اب تو ان کے فلسفے کو عالمی شہرت مل چکی ہے۔ ہٹلر کی طرح اس کا بھی کہنا تھا: جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ یقین کرنے لگیں۔ شاید انہیں فلسفوں کو مشعلِ راہ مان کر ہمارے حکمران بھی اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ بعض اوقات خود بھی شرما جاتے ہیں اور قوم سے معذرت کرنا پڑتی ہے۔اسی طرح جب اٹلی اپنے بدترین دور سے گزر رہا تھا۔ ملک اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی صورتِ حال انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ عوام ظلم کی چکی میں پس رہے تھے تو ایسے حالات میں ’’میکاولی‘‘ اٹلی کے لیے ’’نجات دہندہ‘‘ بن کر آیا۔ اس کے چند گر اور اصول یہ ہیں: اپنے ذاتی اغراض ومقاصد کو اولین ترجیح دو اور ان کا حصول سرفہرست رکھو۔ طاقت ور حکمران کو کمزور عوام پر ڈرانے، دھمکانے والے قوانین نافذ کرنے چاہییں تاکہ ان کی سرکشی اور بغاوت کو کچلا جاسکے۔ بے رحمی، سفاکیت اور ظالمانہ روش وہ لازمی اوصاف ہیں جن کے بغیر کسی اچھی حکمرانی کا تصور بھی محال ہے۔ خوف وہراس کی فضا انتہائی ضروری ہے تاکہ ریاست کی حکمرانی موثر انداز سے عمل پذیر ہوتی رہے۔ دبدبہ، ڈر اور رُعب سے متاثر کرنے کے مواقع سے فائدہ اُٹھائو۔ ایک اچھے حکمران کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کو فنا کے گھاٹ اُتاردے اور اگر ضرورت سمجھے تو دوستوں کو بھی ماردینا چاہیے۔ خاص کر اپنے رشتہ داروں سے بے حد چوکنا اور ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں وہ قرابت داری کی آڑ میں اس کا خون ہی نہ کردیں۔ بادشاہ کو نیک بننے کی ضرورت نہیں البتہ نیکی کا ڈھونگ رچانے میں کوئی حرج نہیں۔ اچھا بننے کی کوشش حکمرانی کے لیے زبردست خطرہ ہے کیونکہ اس سے عوام جری، دلیر اور بے خوف ہوجاتے ہیں۔ البتہ اچھا بننے کی ایکٹنگ کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ یہ بھی درحقیقت ظلم وسفاکیت کے ہتھیار ہوتے ہیں۔ لہٰذا حاکم کو چاہیے کہ زبان پر تو رحم وشفقت کے بول ہوں البتہ دل میں فقط سفاکیت اور سنگ دلی ہو۔ ایک اچھے بادشاہ کو کنجوس، لالچی اور بخیل ہونا چاہیے۔ اپنے عوام کی دولت بے دریغ نہیں لٹانی چاہیے البتہ دوسرے ممالک کی دولت لوٹنے میں بے حد ماہر اور طاق ہونا چاہیے۔ کسی کی عزت وتکریم نہیں کرنی چاہیے بلکہ صرف اور صرف اپنی عزت اور تکریم کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ایک بہترین حکمران میں دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا عزم بدرجہ اتم ہونا چاہیے۔ دھوکہ دہی اور فریب بازی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے۔ ایسے موقع روز روز نہیں آتے اور نادان بعد میں کفِ افسوس ملتے ہیں۔ پرنس کو دوسرے کے حقوق کی فکر میں ہرگز ہلکان نہیں ہونا چاہیے۔ حکمران کو تمام فوائد اور سہولیات پر قدرت ودسترس ہونی چاہیے مگر یہ فوائد وسہولیات کسی دوسرے کو ہرگز نہیں عطا کرنے چاہییں۔ جب تم اپنے دشمن پر غلبہ حاصل کرلو تو اس کے خاندان اور عزیز واقارب کا نشان مٹادو ورنہ اس کے کچھ رشتہ دار کسی زمانے میں قوت حاصل کرکے تم سے تمہاری غلط کاریوں کا انتقام لے سکتے ہیں۔ چانکیہ اور میکاولی کی یہ ساری تاریخ مجھے 25 جولائی کے انتخابات کی مہم پر حکمرانوں کے خوشنما بیانات، عوام کے لیے سنہرے خواب پر مشتمل اشتہارات اور خصوصی ایڈیشنوں سے یاد آئی۔ ایک طرف غریب عوام ہیں تو دوسری طرف حکمران۔ ایک طرف عیش وعشرت ہے تو دوسری طرف فقروفاقہ۔ ایک طرف سسکتے بلکتے عوام کے لیے دو وقت کی روٹی نہیں تو دوسری طرف حکمرانوں کے باغیچوں اور ان کے جہازوں کی زیب وآرائش کے لیے کروڑ وں کی رقم صرف کی جارہی ہے۔ ایک طرف مرگ انبوہ ہے تو دوسری طرف جشن کا سماں۔ ان ملکی حالات کو مدنظر رکھ کر چانکیہ اور میکاولی بلاساختہ یاد آجاتے ہیں کیونکہ اس وقت بھی ہمارے حکمران اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے چانکیہ اور میکاولی کے اُصولوں پر عمل پیرا ہیں تو دوسری طرف ملک کے غریب عوام کی حالت صدیوں قبل انڈیا اور اٹلی کے عوام سے بھی بدتر ہے۔ آج پورا ملک انارکی اور بے چینی کا شکار ہے۔ امن وامان کی صورتِ حال دگرگوں ہے۔ ملک کی اقتصادی اور معاشرتی حالت انتہائی کمزور ہے۔ غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں خودکشی اور اپنے بچے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ آج ہمارے حکمرانوں کو چانکیہ اور میکاولی کے ’’فرمودات ‘‘کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کو گھمبیر مسائل کے حل کے لیے اور بھنور میں پھنسی کشتی کو نکالنے کے لیے کسی مصلح اور دانشور، مدبر ومفکر نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ ایسا نجات دہندہ اسی صورت میں مل سکتا ہے جب اسلام کے زریں اُصولوں پر خلافتِ راشدہ کے دور کو مدنظر رکھ کرلائحہ عمل طے کیا جائے۔ تبھی ہم کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)