اکیسویں صدی کی تعلیم

July 29, 2018

بیسویں صدی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں بجلی،فضائی طیارے،فلم، ریڈیو، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ سمیت ہر وہ چیز دریافت ہوگئی جو طرزِ حیات کو جدید انداز دیتی ہے۔ بیسویں صدی کی تمام اہم ایجادات کی نت نئی اشکال اور ایڈوانسڈ فنکشنز کے حوالے سے یہ صدی پچھلی صدی کی ایجادات کا نیا پیراہن ہے۔اختراع سازی و جدت طرازی کے حوالے سے اکیسویں صدی کے ابتدائی18برس کو ہم انٹرنیٹ، کلاؤڈ ،تھری ڈی ، مصنوعی ذہانت ،نینو اور ڈرون ٹیکنالوجیز کی یکتائیت کے اولین دور سے منسوب کرسکتے ہیں۔اسی طرح ہماری تعلیم کا سفر جو گندھارا کی بدھ یونیورسٹی ،یونان کی عظیم اکادمی ،سندھ،چین، مصر اور عراق کی شاندار تہذیبوں سے شروع ہوا تھا،آج 21ویں صدی میںآن لائن ایجوکیشن، اسمارٹ ایجوکیشن اور ورچوئل ایجوکیشن سے ہم آہنگ ہو چکا ہے۔اس کی قدر و قیمت درس گاہوں سے ہمارے بیڈ روم تک آگئی ہے۔

کامیابی کا روشن چہرہ ماضی کی نسبت آج مختلف دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں کامرانی حاصل کرنے والے لوگ روایتی جاب مارکیٹ میں اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملازمت کے خواہاں ہوتے اور آج 21ویں صدی کے تعلیم یافتہ خواتین و حضرات ملازمت کے وسیع مواقع پاتے ہیں جیسے:

ممکن ہے کہ ابھی آپ کو پاکستان میں یہ سیلف میڈ لائف اسٹائل کم کم دکھائی دیتا ہو لیکن اگر اعداد و شمار ملاحظہ کریں توہمارے ہاں بھی یہ اسٹائل تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے اور نوجوانوں کی اکثریت اب ای کامرس کی دنیا میں آرہی ہےاور یہی 21ویں صدی کی تعلیم کا نیا رنگ ہے کہ اب تعلیم و ہنر کا حصول مشکل نہیں رہا۔ ہزاروں کی تعداد میں فن و ہنر سیکھنے کی ویڈیوز سماجی رابطوں کی ویپ سائٹس پر موجود ہیں۔ گوگل کی ایک سرچ کے ذریعے ان پیج میکنگ سے ٹیکنیشن تک ہر معلومات آپ کی دسترس میں ہے۔ آن لائن تعلیم کے کریش اور شارٹ کورسز کے ذریعے مطلوب قابلیت کا یہ طرزِ حیات ہی 21ویں صدی کی تعلیم کا رخ متعین کرتا ہے۔

’’ہمارے اذہان سے باہر‘‘(Out of Our Minds) کے مصنف سر کین رابنسن اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ جیسے جیسے ہماری دنیا پیچیدہ ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے ہمیںتعلیم اور کام کی جگہ میںبڑھتی مسابقت کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ تخلیقی ذہن کا حامل بننا ہوگا۔ اب جو لوگ تخلیقی ذہن کے مالک ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے۔ اب تعلیمی نصاب کو تبدیل کرنا ہوگا اور روایتی اندازِ تدریس کو تبدیل کرتے ہوئے مارکیٹ میں موجود ملازمتوں کے لحاظ سے اپنی صلاحیت و لیاقت کو بڑھانا ہوگا۔20ویں صدی کی تعلیم کا زور تخلیقیت کے بجائے تعمیلِ حکم اورمطابقت و ہم آہنگی پر مبنی تھا،یہ دو ہنر کسی بھی پیشہ ورانہ یا کارپوریٹ ماحول کے لیے ضروری امر تھے اور ان کی بدولت کسی بھی اچھی ملازمت میں برسوں تک رہا جاسکتا تھا،لیکن 21ویں صدی کی تعلیم ہر گزرتے دن ندرتِ خیال کی محتاج ہے جس کے بغیر آپ اس تیز رفتار ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل دنیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

یوں جانیے یہ ہر روز نئی ترجیحات اور نئی حکمت عملی مرتب کرنے کا وہ اسمارٹ دور ہے جہاں کاہل وجود بہت پیچھےرہ جائیں گےاوروہ لوگ آگے ہوںجو اپنی ذہنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے ساتھ جسمانی طور پر بھی مشقت کے قائل ہیں۔ یوں جانیے کہ 21ویں صدی کی تعلیم ہر روز نئے سرے سےجینے کی کہانی ہے، جہاں ہر دوسرے دن کے تقاضے کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔حتیٰ کہ اساتذہ و طالب علموں کو بھی تدریس کے دوران روز نئے سبق کی ابتداء کرنی ہوگی، نصاب و تدریس کو روزمرہ بنیادوں پر استوارکیا جائے گا۔

21ویں صدی کے طالب علم

1995ء اور2009ء کے درمیان جنم لینے والی نسل ’جنریشن زی‘ کہلاتی ہے، جو انٹرنیٹ کے بغیر جیتی تھی۔ اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران انہیں اسمارٹ فونز،آئی پیڈز،اسمارٹ بورڈز اور دیگر دستیاب تعلیمی آلات جیسی ٹیکنالوجی دستیاب نہ تھی۔2010ء سے جنم لینے والی نسل ’الفا جنریشن‘ کہلاتی ہے، جن کے پاس آئی پیڈ،3ڈی ٹیلی ویژن،فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام اوراسپاٹی فائی جیسی میوزک اسٹریمنگ ایپس دستیاب ہیں۔ یہ پہلی نسل ہے جو حقیقی معنوں میں22ویں صدی کے ثمرات بھی دیکھ لے گی۔

ان دو نسلوں کا موازنہ کیجیے اور دیکھیے کہ معلومات اب انگلیوں تک محدود ہوگئی ہیں۔یہ وہ نسل ہے جس کے لیے کسی بھی سوال کا جواب حاصل کرنا چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ یہ نئی نسل علم کے ڈیجیٹل آلات کے استعمال سے اسی طرح واقف ہے جیسے ہمارے بزرگ کتابوں کے صفحات پلٹا کرتےتھے۔ زی اور الفا جنریشنز ایک دوسرے سے بین الاقوامی طور پر منسلک ہیں اور ساری دنیا کو اپنا گھر جانتی اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ہمارے اسکولوں کے بچے ہم سے زیادہ ذہین اور حاضر دماغ ہیں جس کے لیے اساتذہ کو بھی اسمارٹ بننا ہوگا۔