روشنی

July 31, 2018

حسن ظن اور امید کی شمع ہمیشہ روشن رہنی چاہئے۔ مشکلات اور مصائب کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھی امید اوربہتری کی شمع جلتی رہنی چاہئے کیونکہ امید دراصل یقین سے جنم لیتی ہے اور یقین ایمان سے جنم لیتاہے۔ مطلب یہ کہ امید کے دیئے میں تیقن، ایمان اور اللہ پاک پر اندھے اورپختہ یقین کا تیل جلتاہے۔ جب یہ یقین لڑکھڑانے لگے تو امید کا چراغ جھلملانے لگتا ہے۔ اسی لئے میں ہمیشہ پرامید اور خوش فہم رہتا ہوں۔ جب لوگ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیںاور چہروں پر ناامیدی کے سائے پھیلا لیتے ہیں تو میں اس وقت بھی حسن ظن کا اظہار کرتا اور انہیں بہتر مستقبل کی نوید سناتا ہوں۔ اس صورتحال کی ایک بنیادی وجہ ہے جسے میں بہ امر مجبوری لکھ رہا ہوں، ورنہ اپنی سوچ کے پردے چاک کرنا مخالفین کو پتھر مارنے کی دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ بات تو فقط اتنی سی ہے کہ ہمارے دانشور حضرات، عالم و فاضل لکھاری اور تجزیہ نگار الفاظ کے موتی پروتے ہوئے سارے عوامل کا ذکر کرتے ہیں اور سارازور ظاہرپرصرف کردیتے ہیں لیکن وہ نہیں مانتے کہ اس ساری صورتحال میں ایک پاورفل فیکٹر ذات باری تعالیٰ کا ہے جو جب چاہے سارے منصو بےالٹ پلٹ کردے، دشمنوں کے عزائم ناکام بنادے، لوٹنے والوں، چوروں اور پاکستان کو نقصان پہنچانے والوں کو عبرت کی مثال بنادے اور اندھیروں میں تیقن اور امید کے چراغ روشن کردے۔ 1937کا سال ہندو پاکستان کے مسلمانوں کے لئے اتھاہ مایوسیوں، ناامیدی اور حوصلہ شکنی کا خوفناک سال تھا۔ انتخابات میں مسلمانوں کی نمائندہ قیادت مسلم لیگ کو صرف چارفیصد ووٹ ملے تھے اور جو بعد ازاں سات صوبوں میں کانگریس نے اپنی حکومتیں بنا کر مسلمانوں کو اقتدار میں شرکت اور قومی دھارے سے نکال باہر کیا تھا۔ مسلمانوں کی رائے عامہ نے ذہنی شکستگی اور نامرادی کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لئے ہندو غلامی بارے سوچنا شروع کردیا تھا۔ اس د ور کے تجزیہ نگاروں، دانشوروں اور چھوٹے چھوٹے سیاسی رہنمائوں نےامید کے چراغ بجھا دیئے تھے۔ ایسے میں قدرت نے سیاہ تاریکی میں امید کی شمع روشن کی اور قائداعظم کوروشنی کا مینار بناکر قیادت سونپ دی۔ 23مارچ 1940کی قرارداد نے مسلمانوں کے تیقن کو زندہ کیا اور مسلمان عوام اپنی منزل کے شعور اور جوش و جذبے سے مالامال ہو کر ہرقسم کی قربانی اور ایثار کے لئے تیار ہوگئے۔ اندھیرے چھٹ گئے۔ امید کے چراغ جلنے لگے۔ یہ چراغ تیقن کے تھے اور اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ پر پختہ یقین کی غمازی کرتے تھے۔
ہم ظاہر بیں لوگ صرف ظاہر کو دیکھتے ہیں۔ قدرت کا کھیل اس وقت تک نظر نہیں آتا جب تک پردہ نہ اُٹھے۔ جب پردہ اُٹھ بھی جائے تو بہت سے دیکھنے والوں کی نظروں پر پردہ پڑارہتا ہے اوروہ اپنی اپنی ہانکتے اور ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں کیونکہ وہ خدائی فیکٹر پر دل سے یقین نہیں رکھتے۔ ان کا خیال ہے ملک اور قومیں صرف ظاہری اور مادی عوامل سے چلتی ہیں جبکہ ہمارا مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ ان عوامل میں اہم ترین فیکٹر قدرت کا ہوتا ہے جسے سمجھنے کے لئے تدبر، تیقن اور باطن کی صفائی ضروری ہے۔ دولت، بھاری معاوضوں، اقتدارکی قربت، دنیاوی علم اور انفارمیشن کے نشے میں مست اور سو فیصد اپنی ذہانت پر بھروسہ کرنے والے عام طور پر باطن کی روشنی اور تیقن سے محروم ہوتے ہیں۔ دراصل یہ سارے نشے انسان کی آنکھوں پر پردے ڈال کر اسےعقل کل کے فریب اور وہم میں مبتلا کردیتے ہیں چنانچہ وہ قدرت کے فیکٹر سے انکاری ہو جاتے ہیں حالانکہ ہر منصوبے، انتظام اور ارادے کی کامیابی قدرت کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور وسائل بکھرجاتے ہیں جب انہیں آسمانی حمایت حاصل نہ ہو۔ اسی طرح بظاہر بے وسیلہ، کمزور اور ادھورے منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہو جاتے ہیں جب انہیں قدرت کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ قدرت کی حمایت حاصل کرنے کے لئے خلوص نیت ضروری ہے کیونکہ قرآن مجید کا فرمان ہے انسان کو اپنی نیتوں کا پھل ملتا ہے چنانچہ نیت کامیابی کی کنجی ہے اور اللہ پاک نیت کو بہترین جانتے ہیں۔ قدرت جب انقلاب، تبدیلی اور بہتری لانا چاہتی ہے تو بظاہر ایک گنہگار اور گناہوں میں لتھڑے انسان سے بھی کام لے لیتی ہے بشرطیکہ اس کی نیت میں خلوص ہو۔ قدرت جب چاہتی ہے تو نااہل کو اہل بنا دیتی ہے اور خام منصوبوں کو کامیابی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اس لئے امید کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اللہ پاک سے بہتری مانگتے رہو اور اپنی دعا پر یقین رکھو۔ پختہ یقین کے ساتھ کوشش اورجدوجہد جاری رکھوکہ حرکت کے بغیر برکت پیدا نہیں ہوتی۔
انتخابات ہوچکے۔ قوم اپنا فیصلہ سنا چکی۔ فیصلہ قبول اور مسترد کرنے والے محاذ آرائی کے محاذ کھول رہے ہیں۔ ملک شدید مالی بحران میں مبتلا ہے۔ معاشی صورتحال کبھی بھی اتنی مایوس کن نہیں تھی لیکن آپ دیکھیں گےکہ اسی مایوس کن صورت کی زمین میں امید کے پھول کھلیں گے۔ جب حکومت کرپشن سے پاک ہوگی تو نہ صرف بیرون وطن پاکستانی وطن میں سرمایہ کاری کے لئے آئیں گے بلکہ بہت سے ممالک صنعت کاری اورسرمایہ کاری کے ارادے سے یہاں آئیں گے۔ سعودی عرب، چین اور کئی دوست ممالک مدد کے لئے لپکیں گے۔ ارادے نیک ہوں اور نیت عمل سے ظاہر ہو رہی ہو تو قدرت بھی مہربان ہو جاتی ہے۔ اگر مستقبل کے حکمرانوں نے نیک نیتی سے ملک و قوم کی خدمت نہ کی تو وہ بھی کوڑے دان کا کوڑا بن جائیں گے۔ میرے اس حسن ظن کی بنیاد تیقن پرہے اور مجھے ذات ِباری تعالیٰ کے انصاف پر پختہ یقین ہے۔ رسی دراز ہوتی ہے اور دیر ضرور ہوتی ہے لیکن یہ دیر اندھیر نہیں بلکہ روشنی کا چراغ جلاتی ہے۔
ذرا تدبر کی آنکھ کھولو، غور کرو اور واقعات کے طویل سلسلے پر نگاہ ڈالو۔ آپ کو قدم قدم پر عبرت کا سامان نظر آئے گا اور حالات کے پس پردہ قدرت کا فیکٹر کام کرتا دکھائی دے گا۔ خوش گمانی میرے رب کو پسند ہے۔ قرآن حکیم کا فرمان ہے کہ اللہ پاک سےہمیشہ خوش گماں رہو۔ جو اپنے رب سےاچھا گمان رکھتے ہیں انہیں اس کا صلہ ملتا ہے اور جو اچھا گمان نہیں رکھتے وہ محروم رہتے ہیں۔ امید کا دامن مضبوطی سے پکڑے رکھو کہ امید روشنی ہے..... امید روشنی ہے شیطان مایوسی پھیلاتا ہے رحمٰن روشنی دکھاتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)