”بڑے آدمی“ کی عید ملن

November 17, 2012

پچاس برس پہلے جس شہر منڈی بہاؤ الدین کو چھوڑ کے میں لاہور آیا، 14نومبر کے دن صدر اس شہر میں آراستہ عید ملن کی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ صدر نے حسب توقع خطاب کیا اور صدر کا خطاب دریچے پر برستی ہوئی بارش کی گنگناہٹ سے مشابہ تھا، جیسے شام کے خاموش سمے کسی پہاڑ کی اوٹ سے نفیری کی لے پر تاریخی شعور اور صداقت کا کوئی نغمہ چھیڑ دیا گیا ہو۔ صدر نے کلام کیا ”ہم غصہ نہیں کرتے، سیاست کو سیاست سمجھتے ہیں دشمنی نہیں، یہ ہماری عبادت ہے، ہم تاریخ کے لئے کام کرتے اور تاریخ بناتے ہیں۔ مارنے والا نہیں درد سہنے والا بہادر ہے“۔
میں نے صدر کی قیادت میں موجودہ منتخب جمہوری دور یاد کیا جس کی آئینی تکمیل میں چار ماہ کے قریب باقی رہ گئے ہیں۔ ساتھ ہی کوئی ہفتہ قبل ایبٹ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریر میں چیف جسٹس آف پاکستان کے یہ الفاظ میرے ذہن میں ابھرے ”چار برسوں میں بہت کچھ ہوا، اب سسٹم کو چلنے دیا جائے۔ تنگ نظری کا مظاہرہ نہ کریں، ہم سب آئین کے پابند ہیں۔ ماورائے آئین کوئی بھی اقدام عوامی مزاج کے خلاف ہوگا“۔
جمہوری پارلیمانی نظام کے ان چار برسوں کی کہانی سے ہم سب آگا ہ ہیں۔ یہ پارلیمینٹ کے در و دیوار پر تو ثبت رہے گی ہی ہم سب پر بھی بیتی ہے، اس جمہوری دور کی ہر شب اس کے خاتمہ کی خبر سے شروع ہو کر اس کے دفن کی صبح امید پر ختم ہوتی رہی۔ آگ اور خون کے دریاؤں کی بھپرتی موجوں اور میڈیا کے ایک بہت بڑے حصے کی تاریک سچائیوں کے درمیان یہ داستان رقم ہوئی۔ کس کس پیرائیہ اظہا ر کا ذکر کروں؟ کون کون سے کردار زیر بحث لاؤں؟ علم، دانش اور توازن کو کیسے کیسے اپنی اپنی ذات میں قیام پذیر”روز محشر“ کی شکار گاہ کا نخچیرکیا گیا؟ کن کن جذبات فروشیوں اور سیلابی نفرت آمیزیوں کا ریکارڈ کھنگالوں؟ ظالم مخلص ہو، جاہل ہو یا مکار انسانی نسل کے ارتقاء کا تینوں کھلواڑ کرتے ہیں۔ پاکستان کے گزرے 60برسوں کی طرح ان چار برسوں میں بھی یہ تینوں بے اعتدالیاں اور وحشتیں عروج پر رہیں۔ پتہ نہیں کتنی بار ”72گھنٹے انتہائی اہم ہیں“ جیسے پیغام اور مفہوم کی اخباری نعرہ بازیوں کا بے مغز کاروبار کیا گیا؟ پاکستانیوں کے ووٹ کی لرزتی ترستی جمہوری عمارت کو منہدم کرنے کی خواہش ایمان و یقین کا تقاضا بنا کے پیش کی گئی؟ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کا منصفانہ اعتراف اور خراج تحسین صدر کے اس انسانی اور قومی ادراک کا احترام بھی ہے کہ ”مارنے والا نہیں، درد سہنے والا بہادر ہے“ ۔
چار برسوں کی اس لخت لخت جمہوریت کے سفر میں عدالتی ایوانوں کی آزمائشیں نازک ترین آبگینے تھے، شمّہ برابر بے احتیاطی بھی جان لیوا تھی۔ اک عالم میں محترم و مدبر مولانا ابوالکلام آزاد کے عدالت میں حریت پسندانہ بیان صفائی ”خول فیصل“ میں مقام ابدیت کے حامل جملے، خوف کا پرندہ بن کے مجھے دبوچتے رہے۔ صاحب عبقریت نے کہا تھا ”تاریخ عالم کی سب سے بڑی بے انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں ہی میں ہوئی ہیں…
عدالت کی ناانصافیوں کی فہرست بڑی ہی طولانی ہے۔ تاریخ آج تک اس کے ماتم سے فارغ نہ ہوسکی“۔میرے یہ واہمے آج بھی میرا تعاقب کرتے رہتے ہیں!
صدر نے اپنی ذات اور جمہوری سفر کے ساتھ برہنہ تحریری زیادتیوں کا دور ٹھہراؤ، دھیرج اور شجاعت کے ساتھ سہا ہے۔ موت کے تختے پر کھڑے ہوکے انہوں نے اپنی زندگی، اپنے نظریات اور اپنی کمٹ منٹس کی تاریخ تشکیل دی۔ جب سے 1990ء کے عام قومی انتخابات پر گرائی جانے والی برق کی راکھ کے ذرے اڑے ہیں، ایک خیال نے مجھے جکڑ سا لیا ہے کیا 1990ء کے نقش قدم پر کوئی ایسا دوسرا بابرکت سویرا بھی اتر سکتا ہے جس میں تاریخی زمین صدر کے بارے میں ہرزہ سرائیوں، یاوہ گوئیوں، باطل رنگ آمیزیوں کی بیسیوں کہانیوں، واقعات اور مقدمات کے راز اگل دے؟ لگتا ہے صدر تاریخ کے ایوان میں سرخرو اور حریف سرنگوں ہونے جا رہے ہیں!
عجیب بات ہے تقریب میں صدر حسب معمول خوشگوار، ترو تازہ اور توانا تھے۔ کارزار سیاست کی تلخیوں اور اندوہ نے ان کی شخصی مقناطسیت اور سرشاری و سرمستی کو قطعاً متاثر نہیں کیا۔ میں بھول نہیں سکتا جب جب صدر کے حوالے سے ان کی بیماریوں کے داستان گووؤں نے ذہنی درندگی کو بھی شرمسار کر دیا تھا۔ صدر زندگی کے امرت اور زہر سے بہت ہی مبالغے کی حد تک آگاہ ہیں، انہیں صعوبتوں اور آزمائشوں کے ایسے ہی سرد مہر اور موت آسا مراحل سے گزارا گیا۔ کیا برصغیر کے رہنماؤں کی اولین صف میں صدر کے نام کا اندراج ہو سکے گا؟ صدر میں وفا کی سرشت، بسالت و تہور، صبر و حکمت، بصیرت و استقامت کی کیفیتوں کے معیار اور مقدار کا جس قدر مشاہدہ کیا جاسکا ہے، اس ترازو میں اس سوا ل کا جواب کم از کم نفی میں نہیں!
چار برسوں کی اس جمہوری مسافت کی تکمیل و کامیابی کے لئے صدر کی آبلہ پائی کے مخالفین کی برگشتہ مزاجیوں، نظریاتی افراتفریوں اور مغالطوں کی یاددہانی کے لئے محض ایک مثال،بمبئی دھماکے نومبر 2008ء میں وقوع پذیر ہوئے۔ جس پر دسمبر2008ء کے آخری حصے میں تحریری انانیت کی مشق فرماتے ہوئے لکھا گیا ”میں پچھلے پانچ دنوں سے سفارتی حلقوں میں گھوم رہا ہوں۔ مجھے ہر سفارتکار کے چہرے پر ایک سوال لکھا ہوا دکھائی دے رہا ہے ”اب کیا ہوگا؟“ ان تمام لوگوں کا خیال ہے صورتحال اتنی سادہ نہیں جتنی پاکستانی حکام سمجھ رہے ہیں۔ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے علاقوں پر محدود فضائی کارروائی کرسکتا ہے۔ بھارت کو امریکہ اور یورپ کی پوری حمایت حاصل ہوگی اور ان کارروائیوں کے بعد پاکستان کے پاس خاموش رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کیونکہ اگر پاکستان نے جواب دیا تو برطانیہ اور امریکہ بھارت کے ساتھ شریک ہو جائیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اگر پاکستان نے افغان بارڈر سے اپنی فوجیں واپس بلائیں تو نیٹو فورسز فاٹا میں داخل ہو جائیں گی اور اگر ہم نے نیوکلیئر کا آپشن استعمال کیا تو اسرائیل کے طیارے ہمارے جوہری اثاثوں پر حملے کر دیں گے“۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا، بمبئی دھماکوں کا واقعہ نومبر 2008ء کا ہے، پاکستانی قوم کو یہ تجزیہ اور پیش گوئی تحفتاً دسمبر 2008ء میں پیش کی گئی۔ آج 2012ہے، تین سوا تین برس ہو چکے۔ نومبر2008ء کے بعد نہ ہندوستان نے محدود فضائی کارروائی کی، نہ ہندوستان کے کسی اور علاقے میں ایسا کوئی حادثہ رونما ہوا، چنانچہ بھارت کے ہلہ بولنے کی نوبت ہی نہیں آسکی، نہ پاک بھارت کشیدگی کے باوجود نیٹو فورسز فاٹامیں داخل ہوئیں، نہ اسرائیل کے طیاروں کو ہمارے جوہری اثاثوں پر وارکرنے کی زحمت اٹھانا پڑی۔
الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں صدر کے ان تقریباً آٹھ دس جان توڑ ٹاپ مخالفین اور ناقدین کے تجزیاتی لکھے کا ایک لفظ تو درکنار، ایک شوشہ بھی درست ثابت نہیں ہو سکا۔ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لئے ہے کہ یہ پیر و جواں دنیا کی چکا چوند روشنیوں سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے۔ زندگی کے رازوں کی مانند، ملکوں، قوموں اور ریاستوں کے سلسلے میں ان کی اپروچ سو فیصد یتیم ہے۔ بس انہوں نے صدر کے سلسلے میں ہاتھی جیسا کینہ پال رکھا ہے، یہی ان کا اثاثہ ہے! ابھی میں نے آپ کو”مائنس ون، مائنس ٹو اور مائنس12“ کی کہانیاں نہیں سنائیں، کسی کسی لمحے یہ آٹھ دس مجھے”مظلومین“ بھی محسوس ہوتے ہیں، ”صدر جا رہے ہیں، صدر جا رہے ہیں، کہتے کہتے ان کے گلے رندھ گئے، قلم گھس گئے، حتیٰ کہ اب عوام باقاعدہ مذاق اڑاتے اور حظ اٹھاتے ہیں!
نیت کی پاکیزگی صدر کو مکمل طور پر آسودہ رکھتی ہے۔ ایک روایت کے مطابق صدر نے اپنی تصویر اجالنے Image Buildingکے ایک تجویز کنندہ وفد کو نہایت رسان سے جواب دیا ”یار! میں ایک برا آدمی ہوں، مجھے برا ہی رہنے دو، بھائی تم اپنا کام کرو مجھے اپنا کام کرنے دو“۔ صدر کی شخصیت، فکر، کردار، اور قومی کردار پر اب تک کوئی ”معتبر کتاب“ سامنے نہیں آئی، ہم اپنے عہد کے ایک بڑے انسان کا جائز تعین نہیں کر پا رہے، محرومیوں کے عادی ہمارے لوگوں کا یہ ایک اور بڑا نقصان ہوگا۔