فعال سفارتکاری۔قومی وملّی ضرورت!

August 29, 2018

پیر کے روز پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں متفقہ طور پر منظور کی گئی قرارداد کے ذریعے توہین رسالت پر مبنی خاکوں کا سلسلہ رکوانے کے اقدامات کی جو ضرورت ایک بار پھر اجاگر کی گئی اور وزیراعظم عمران خان نے اس پر اپنے خطاب میں جو باتیں کہیں ان کا تجزیہ نشان دہی کرتا ہے کہ پاکستان سمیت بیشتر مسلم ممالک مغربی دنیا کو حساس معاملات سمیت کئی امور پر اپنا نقطہ نظر سمجھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ وزیراعظم عمران خان نے جہاں گستاخانہ خاکوں کا معاملہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں اٹھانے کی یقین دہانی کرائی وہاں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس قسم کی حرکت کا بار بار ہونا مسلمانوں کی اجتماعی ناکامی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مغربی معاشرے میں آزادی اظہار کے نام پر اس نوع کی حرکات کی جاتی ہیں جبکہ اکثریت اس بات کو نہیں سمجھتی کہ مسلمان اپنے نبیؐ سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ تھا کہ تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) کو اس باب میں متفقہ حکمت عملی بنانی چاہئے۔ یقیناً ایسا ہی کیا جانا چاہئے مگر جب بات مسلم ممالک کو او آئی سی کی مشترکہ حکمت عملی پر آمادہ کرنے کی ہو یا مغربی دنیا تک تاریخ کا یہ پیغام پہنچانے کی ہو کہ دل آزاری پر مبنی جذبات کی پرورش متعلقہ معاشروں کے لئے ضرر رساں ہوتی ہے تو ہمیں لامحالہ سفارتکاری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ یقیناً سفارت کاری کا ایک طریقہ اپنے نمائندوں یا دوست ملکوں کے دستیاب بارسوخ حوالوں یا مواصلاتی ذرائع کو بروئے کار لانا ہے۔ مگر آج کے دور کی سفارتکاری میں نامہ و پیام کے پرانے طریقے کافی نہیں رہے۔ ہمیں ایسی فعال، متحرک اور تخلیقی صلاحیت کی حامل سفارت کاری اپنانا ہوگی جو مخاطب کے دل میں جگہ بناسکے۔ تنظیم اسلامی کانفرنس بلاشبہ ایک وقت میں مسلم امہ کی مؤثر آواز بن کر ابھری اور دنیا بھر کے مسلم ممالک کے اس اتحاد نے باہمی اشتراک و تعاون سے ترقی و خوشحالی کے نئے در بھی کھولے۔ آج بھی او آئی سی کو ویسا ہی فعال اور موثر ادارہ بنایا جاسکتا ہے مگر اس کے لئے بدگمانیوں کے شکار بھائیوں کے دلوں کو پھر سے ملانے کی تدبیر کرنا ہوگی اور دنیا کو بھی بتانا ہوگا کہ تمام مذاہب اور منشوروں کا مقصد بنی نوع آدم کے حالات بہتر بنانا اور انہیں خوشی دینا ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور انسانی حقوق کی متعدد دفعات بھی انہی مقاصدکی حامل نظر آتی ہیں۔ جبکہ مختلف ممالک میں بنائے گئے قوانین کی رو سے بعض ایسی چیزوں پر نکتہ چینی بھی جرم ہے۔ جنہیں کئی حلقے تاریخی اعتبار سے قابل اعتبار نہیں جانتے ۔ہمیں اپنی سفارت کاری سے پوری دنیا کو آگاہ کرنا ہے کہ جس طرح آپ کے انبیا اور بزرگ آپ کے لئے قابل احترام ہیں، اسی طرح ہر مسلمان بھی سابقہ انبیاءکی بشارت کے مطابق آنے والے نبیؐ آخرالزماں کے پیروکار کی حیثیت سے ان سب پر ایمان رکھتا ہے۔ جس نبیؐ نے بتایا کہ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں سے محبت جز ایمان ہے ، اس سے مسلمانوں کی محبت کی انتہا تصور سے بالاتر ہے۔ اس کی توہین درحقیقت تمام ادیان کی توہین ہے اس لئے اقوام متحدہ سمیت تمام عالمی اداروں کو یہ سمجھنا اور عالمی سطح پر تسلیم کرانا چاہئے کہ اظہار رائے سمیت کوئی بھی آزادی غیر محدود نہیں ہوتی۔ اسے اپنی حدوں میں رہنا چاہئے۔ پاکستان کی موجودہ حکومت کو او آئی سی کے رکن ممالک سے مسلسل رابطوں کے ذریعے اس ادارے کو زیادہ مؤثر بنانے کی تدابیر کرنی چاہئیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نئے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں ملکی اور علاقائی امن کو مستحکم کرنے کے جس عزم کو دہرایا گیا اس کی تکمیل کے لئے چین جیسے دوست، امریکہ جیسے پرانے پارٹنر اور قرب و جوار کے تمام ممالک سے دوستانہ سطح پر اس اہتمام کے ساتھ رابطے جاری رہنے چاہئیں کہ ہر نوع کے رابطے میں دفتر خارجہ کے ماہرین کی معاونت حاصل رہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ اور وفود سے ہونے والی تازہ ملاقاتیں باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے اور عالمی فضا کو امن کے لئے زیادہ سازگار بنانے میں معاون ہوں گی۔