مہم جوئی کے جنون میں . . .

September 16, 2018

یہ بہ ظاہر ایک چھوٹا سا واقعہ ہے، لیکن میں اسے تازیست نہیں بھلا سکوں گا۔ مجھے بچپن ہی سے ایڈونچر سے گہری دل چسپی تھی، خاص طور پر سیر وسیّاحت کا خصوصی شوق رکھتا تھا۔ کالج کی چھٹیوں میں اپنے جیسے مہم جُو اور پُرجوش نوجوان دوستوں کے ساتھ کشمیر کی برف پوش چوٹیوں کی ایسی پُرخطر جگہوں پر بھی چلا جاتا تھا،جہاں اکثر لوگ جانے کی ہمّت نہیںکرپاتے۔ ہمارے آبائو اجداد کا یہ علاقہ میرا دیکھا بھالاتھا، اس لیے اکثر اَن جانی جگہوں پر جاکر اپنا سیّاحتی شوق پورا کرتا۔ بڑے ہونے پر ہم پنجاب کے شہر، چکوال منتقل ہوگئے، وہاں بھی بہت سے علاقے چھان مارے، مگر سیرو سیّاحت کی پیاس بجھتی ہی نہ تھی۔

تین سال قبل ہم آٹھ دوستوں نے مَری جانے کا پروگرام بنایا۔ میں پہلے بھی کئی بار وہاں جا چکا تھا، مَری کے ایسے بہت سے علاقے ہیں، جو عام سیّاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، جن میں ایوبیہ سے لے کر ڈونگا گلی کا ٹریک اور نتھیا گلی میں پہاڑی مشک پوری، جسے لالہ زار بھی کہتے ہیں، وہاں جانے کے لیے انتہائی پرخطر راستوں سے گزرتا پڑتا ہے۔ قبل ازیں، 1998ء میں بیس افراد پر مشتمل ہمارے سیّاحتی گروپ نے اس ٹریک کو عبور کرنا چاہا، لیکن ان میں مجھ سمیت صرف چار افراد ہی چوٹی تک پہنچ پائے تھے۔ اس کے بعد دوبارہ وہاں جانا نہیں ہوا۔ تین برس بعد پھر ہم نے مشک پوری چوٹی سر کرنے کا پروگرام بنایا اور 25دسمبر2001ء کو ایک بار پھر مشک پوری چوٹی سر کرنے پہنچ گئے۔ دسمبر کے مہینے میںسردی اپنے پورے عروج پر تھی اور راستے برف باری کی وجہ سے برف سے اَٹے ہوئے تھے۔ یہاں جا بہ جا جنگلی درندوں کا مسکن ہونے کی وجہ سے محکمہ جنگلات نے سیّاحوں کے تحفظ کے لیے مخصوص علاقوں میں جنگلے بھی لگادیئے ہیں۔ شام چار بجے کے بعد گیٹ بند کردیئے جاتے ہیں، اور آگے جانے کی اجازت نہیں ملتی۔ ہم جب اس جگہ پہنچے، تو چار بجنے میں صرف دس منٹ باقی تھے اور گیٹ بند ہونا شروع ہوگئے تھے۔ ہماری خصوصی درخواست پر محکمہ جنگلات کے گارڈ نے بڑی ردّوکد کے بعد اجازت دی، تو صرف میرے دوست، عبداللہ نے میرے ساتھ اس ایڈونچر کے لیے ہامی بھری، باقی چھے وہیں رہ گئے۔ ہم دونوں دوست جنگلا عبور کرکے آگے چل پڑے۔ تاحدِ نظرگھنے درختوں کی بہتات کی وجہ سے تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ تاہم، بلندو بالا درختوں سے آنے والی سورج کی روشنی دل فریب منظر پیش کررہی تھی اور ہر طرف سبزے، ہریالی اور پرندوں کی چہکار نے اس فطری حسن کوسحر انگیز ساکردیا تھا۔ ہم بےخودی کے عالم میں ان مناظر سے لطف اٹھاتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ عبداللہ تصویریں کھینچ رہا تھا، اس لیے کچھ دیر کے لیے کہیں کہیںرک جاتااور مَیں اس سے چند قدم آگے نکل جاتا۔ میرا دھیان درختوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی کرنوں پر تھا۔ ایک انتہائی دل فریب منظر دیکھ کر میں نے عبداللہ سے اسے کیمرے میں قید کرنے کوکہا، لیکن وہ مجھ سے دو چار قدم پیچھے تھا، اس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا، تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، وہ تیزی سے گیٹ کی طرف بھاگا جارہا تھا۔ مجھے اس طرح اس کے سرپٹ بھاگنے پر حیرت ہوئی، اسی شش و پنج میں آگے بڑھا، تو اچانک میرے قدم جم کر رہ گئے اور سانسیں رکنے لگیں، چند قدم کے فاصلے پر ایک طویل قامت برفانی چیتا کھڑا تھا، میری تو سِٹّی گم ہوگئی، یقیناً عبداللہ نے اسے ہی دیکھ کر شور مچائے بغیر دوڑ لگائی ہوگی۔ بہرحال، اب وہ چیتا تھا اور میں۔ اس سے میرا فاصلہ زیادہ نہیں تھا، مگر خوش قسمتی سے اس کا منہ مخالف سمت میںتھا۔ اسی لیے اس نے عبداللہ کوبھاگتے ہوئےدیکھا، نہ مجھے۔ ورنہ اسی وقت چھلانگ لگا کر مجھے دبوچ لیتا۔ اسے دیکھ کر مجھے سانپ سا سونگھ گیا تھا۔ میرے قدم زمین میں گڑ کر رہ گئے تھے اور میں بالکل ساکت کھڑا تھا۔ پھر اچانک اس نے اپنا رُخ بدلا اور عین میرے مقابل آگیا۔ یعنی اب ہم دونوں کچھ فاصلے سے آمنے سامنے کھڑے تھے۔ اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرمجھے سخت خوف زدہ کردیا تھا۔مجھے یقین ہوگیا تھا کہ وہ کسی بھی لمحے لمبی زقند بھر کر دبوچ لےگا۔ اس کی خرخراہٹ نے میرے رہے سہے اوسان بھی خطا کر دیئے۔ میں نے موت کو اتنا قریب دیکھ کر کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ بس، شاید چند لمحوں کی بات رہ گئی تھی کہ مَیں اس کے پنجوں کی گرفت میں ہوتا کہ اچانک ایک کرامت ہوگئی۔ جہاں چیتا کھڑا تھا، وہیں قریبی ایک درخت کی شاخ سے ایک بندر نے اچانک نیچے چھلانگ لگادی۔ وہ غالباً اتفاق سے اس شاخ سے پھسل گیا ہوگا۔ بہرحال، جو کچھ بھی تھا، چیتے کی توجّہ میری طرف سے ہٹ گئی،اور وہ یک لخت بندر کے پیچھے لپکا، اس کے زقند بھرتے ہی میںنےبھی پلٹ کر دوڑ لگائی اور اُس وقت تک سَرپٹ بھاگتا رہا، جب تک محکمۂ جنگلات کا آفس نظر نہیں آگیا۔ چیتے کا دھیان بندر کی طرف لگا، اورکرشماتی طور پر میری جان بچ گئی، ورنہ آج میری ہڈیاں بھی چیتے کے کسی گم نام غار میں پڑی گل سڑچکی ہوتیں۔

میں نے اپنے دوست عبداللہ کو معاف کردیا کہ جو ایسی سچویشن میں مجھے باخبر کیے بغیر چھوڑ کر بھاگ گیا۔ شاید اس کی جگہ اگر میں بھی ہوتا، تو اسی خود غرضی کا مظاہرہ کرتا۔ بہرحال، اس واقعے نے میرے ایڈونچر کے جنون پر ایسی ضرب لگائی کہ اب بے خطر آگ میں کودنے کا حوصلہ کبھی نہیں کرتا اور اپنی عمر کے نوجوانوں کو بھی ہمیشہ احتیاط کا درس دیتا ہوں۔

(محمد شکیل بٹ، فیصل آباد)