بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کے یومِ وفات پر خصوصی مضمون

September 11, 2018

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح ایک عہدآفرین شخصیت ، عظیم قانون داں، بااصول سیاست داں اور بلند پایہ مدبر تھے۔ ان میں غیر معمولی قوت عمل ، غیر متزلزل عزم، ارادے کی پختگی کے علاوہ بے پناہ صبر و تحمل اور استقامت و استقلال تھا۔ انہوں نے اپنی اٹل قوت ارادی، دانش ورانہ صلاحیتوں ، فہم و ادراک اور فولادی اعصاب کی مدد اور مسلسل انتھک محنت سے مسلمانان پاک و ہند کے گلے سے صدیوں کی غلامی کا طوق اتار ااور پاکستان جیسی اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔قائد کو پختہ یقین تھا کہ اسلام بنیادی طورپر ایک مکمل جمہوری ضابطہ حیات ہے اور جمہوریت مسلمانوں کے خون اور رگ و پے میں موجود ہے، گو اس خون کی روانی صدیوں سے جمود کا شکار رہی۔ ان کو امید تھی کہ پاکستان کے دستور کی بنیاد اسلام کے نظام عدل اور جمہوری اقدار پر ہوگی۔ وہ اسلام کو ایک متحرک قوت اور قرآنی احکامات کوزندگی کے ہر شعبے کے لئے مشعل راہ سمجھتے تھے۔ قائد انتہائی اصول پرست تھے انھوں نے کبھی اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ آج بانیٔ پاکستان کا یوم وفات ہے۔ زیر نظر مضمون میں قائد کی اصول پسندی اور بے داغ سیاست کا ہلکا سا جائزہ نذرِقارئین ہے۔

محمد علی جناح نے بیسویں صدی کے آغاز میں سیاست کےمیدان میں قدم رکھا۔ 1948میں اپنی وفات تک وہ انتہائی جرأت مندی اور تن دہی کے ساتھ قوم کے سیاسی اور معاشی مقاصد کے حصول کے لئے بلاخوف و خطر جدو جہد کرتے رہے۔قائد کو ابتدا ہی سے مسلمانوں کے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سے گہری دلچسپی تھی۔ وہ مسلم لیگ میں شمولیت خاص طورپر کانگریس سے علیحدگی کے بعد مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے لئے سرگرم عمل ہوگئے۔ تھوڑے ہی عرصےمیں ان کا شمار مسلمانوں کے صف اول کے رہنمائوں میں ہونے لگا۔

قائد نے مسلم لیگ کی منتشر صفوں کو متحد اور منظم کرکے ایک جاندار عوامی تحریک میں تبدیل کردیا۔ اسے ایک قومی حکمت عملی اور ایک علیحدہ ریاست کا نصب العین دیا۔ قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت، عزم صمیم اور جہد مسلسل کے جذبے نے ایک مردہ قوم کو اس طرح جگایا کہ مختصر عرصے میں دنیا میں سب سے بڑی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔

قائد نے ہندوستانی مسلمانوںمیں اتحاد کی روح پھونکی، ایک انبوہ کو منظم قوم کی شکل دی اور تاریخ میں ان کامقدمہ تندہی سے لڑا اور شاندار طریقے سے جیتاوہ زندگی کی آخری سانس تک پاکستان کو مضبوط و مستحکم کرنے اور اس کی ترقی و سربلندی کے لئےجدوجہد کرتےرہے۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ پاکستان کے لئے قائداعظم کی جدوجہد کا مقصد محض قطعہء زمین کا حصول نہیں تھا۔ جب پاکستان قائم ہوا تو دنیا میں مسلمان حکومتوں کی خاصی تعداد موجود تھی۔ ان بیسیوں ملکوں میں مزید ایک ریاست کے اضافے کی کوئی غیر معمولی اہمیت نہ تھی۔ درحقیقت قیام پاکستان سے قائد کا مقصد ایک ملک کا قیام نہیں ایک قوم کی تعمیر تھی۔ ایک ایسی قوم جو سچی، کھری، نڈر، جراتمند، بلند حوصلہ، روادار، غیرت مند، کشادہ دل، وسیع النظر غرض انسانیت اور اخلاق کی تمام اعلیٰ اقدار کی علمبردار ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ برصغیر میں ایسا خطہ قائم ہوجائے جہاں انکی متصورہ قوم پرورش پاسکے جو اس زمین پر بوجھ بننے کے بجائے باعث افتخار ہو۔ قائد کاکہنا تھا کہ’’ لوگوںکومحض گوشت پوست کے اعتبار سے زندہ رکھنا کسی ریاست کے وجود کا معقول جواز نہیں، اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ ہر شہری کے لئے خوشحال اور بھرپور زندگی کی ضامن بنے۔‘‘

قائد کا سیاسی نظریہ تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہو جہاں عوام کی حکومت ہو، جہاں حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں کواپنے خیالات و نظریات کے اظہار کا پورا حق حاصل ہو۔ قائد، حزب اختلاف کو جمہوریت پنپنے کے لئے نہایت ضروری سمجھتے تھے تاکہ وہ حکومت کی من مانی کارروائیوں کے خلاف محتسب کا کام کرسکے۔

قائد نے کئی بار اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا قیام اس لئے لازم ہے کہ غیر منقسم ہندوستان میں، جس کے معاشرےکی بنیاد ذات پات کے امتیاز پر ہے، انسانی مساوات کی روح مکمل طورپر تباہ ہونےکا خطرہ تھا۔ حقائق نے قائد کے اس اندیشے کی تصدیق کی۔ خود پاکستان کے بارے میں قائد کا تصور تھا کہ’’ وہ ایک ایسی سرزمین ہوگی جو مذہب و مسلک، فرقہ و برادری، ذات پات کے امتیازات سے پاک ہوگی۔ ریاستی معاملات میں اس کے سارے باشندے آپس میں برابر ہوں گے۔ جہاں ہر شخص کو رزق حلال کمانے اور ترقی کرنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں گے۔‘‘

قائد اس نظام کے سخت خلاف تھے جس میں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو عوام کا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی ہو لیکن وہ صنعتی ترقی کے پرزور حامی تھے۔ اسی لئے پاکستان کے باقاعدہ قیام سے پہلے انہوں نے پاکستان کی معیشت بہتر بنانے اور مختلف علاقوں میں کارخانے لگانے کے سلسلے میں 1943 ہی میں ایک معاشی کمیٹی (Ecconomic Committee)قائم کردی تھی۔ قیام پاکستان کے بعد 26ستمبر 1947کو کراچی میں ایک ٹیکسٹائل مل کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر انہوں نے اس حقیقت کو واضح کرتے ہوئے کہا،

’’اگر پاکستان کو اپنے رقبے، افرادی قوت اور وسائل کے مطابق دنیا میں وہ کردار ادا کرنا ہے جس کا وہ مستحق ہے تو اسے زراعت کے ساتھ ساتھ صنعت میں اپنی امکانی صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوگی۔ اسے نئی صنعتیں قائم کرنی ہوں گی تاکہ ہم ضروریات زندگی کے سلسلے میں بیرونی دنیا پر انحصار کم کرسکیں اور عوام کوزیادہ روزگار کےمواقع فراہم ہوں ۔ قدرت نے ہمیں صنعتوں میں کام آنے والی بہت سی خام اشیاء سےنوازا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے پورا استفادہ کریں۔‘‘ قائد نے اس موقع پر مزدوروں کی رہائش اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے تمام ممکن سہولتیں بہم پہنچانے پر زور دیا تاکہ صنعتی ترقی سے وہ بھی مستفید ہوں۔ انہوں نے فرمایا ’’کوئی بھی صنعت اس وقت ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے جب اس کےمزدوروں کے اطمینان کو یقینی بنایا جائے۔‘‘وہ پاکستان کو سرسبز و خوشحال، مضبوط و مستحکم اور سربلند و سرفراز بنا کر اقوام عالم کی اگلی صف میں کھڑا دیکھنا چاہتے تھے۔ان کے اوقات کار میں مشینی جیسی باقاعدگی تھی۔ وہ ہر بات کا خوب سوچ سمجھ کر فیصلہ کرتے اور جب ایک بار کوئی فیصلہ کرلیتے تو پہاڑ کی طرح اٹل رہتے۔ بڑی سے بڑی مشکل یا مصلحت ان کے پائے استقامت کو ڈگمگانہ پاتی۔ اپنے بلند اصولوں سے مکمل وابستگی اور عمل پیرائی کے سبب انہیں زندگی بھر کسی موقع پر ندامت نہیں اٹھانا پڑی۔ اپنے اصولوں میں انہوں نے کبھی رعایت روا نہیں رکھی ،نہ دوسروں کے ساتھ نہ اپنے ساتھ۔قائد کے بقول ’’پاکستان دنیا . میں ایک نوزائیدہ بچے کی طرح ہے‘ابھی اُسے تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے۔ میں اپنی زندگی میں اس کو توانا دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ان تھک محنت، لگاتار کام اور مسلسل مصروفیت کے ہاتھوں ان کا دھان پان جسم روز بروز کمزور ہوتا گیا۔ انہوں نے جسم سے بساط سے کہیں زیادہ کام لیا جس کو وہ سہارنہ سکا اور پھر پاکستان بننے کے صرف ایک سال بعد ہی اس جہان ِ فانی سے رخصت ہوگئے۔

قائد کی غیر معمولی شخصیت اور کامیاب زندگی کی بنیادیں بچپن ہی میں پڑگئی تھیں۔ مثال کے طور پر خود اعتمادی اور آزادی فکر و عمل ان کی سیرت کے لازمی جزو تھے والد نے انہیں نصیحت کی تھی کہ زندگی میں آدمی دو طرح سے سیکھتا ہے… ایک دوسروں کے نقش ِ قدم پر چل کر، دوسرے اپنے تجربات سے۔ نوجوان محمد علی نے اپنا راستہ خود بنانے کو ترجیح دی۔ اگر چہ ابتدائی طور پر وہ کاروباری معاملات کی تربیت کے لیے لندن بھیجے گئے۔ لیکن انہوں نے جلد ہی کہا کہ وہ بیرسٹر بننا چاہیں گے۔ اس زمانے میں ان کے والد سخت مالی بحران سے دوچار تھے۔ انہوں نے بیٹے کو لکھا کہ وہ لندن میں ان کے اخراجات کے لیے رقم بینک میں جمع کراچکے ہیں‘اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ نوجوان محمد علی نے جواب میں تحریر کیا کہ وہ ان سے مزید رقم طلب نہیں کریں گے۔ قائد نے پھر لندن میں ہر طرح کی سختی سہی اور اخراجات پورے کرنے کے لیے جز وقتی کام بھی کیا لیکن والد سے مزید رقم نہیں منگوائی۔ انہوں نے انتھک محنت سے بیرسٹری کا تین سالہ کورس دو سال میں مکمل کرلیا۔ ان کی خود اعتمادی کی ایک اور مشہور مثال وہ ہے جب وہ بمبئی میں پریذیڈنسی مجسٹریٹ کی آسامی پر عارضی طور پر کام کررہے تھے۔ تب صوبہ بمبئی کے لاء ممبر او لیوان (Olivant)نے قائد کے کام سے خوش ہوکر کہا کہ وہ آئندہ زیادہ اچھے عہدے کے لیے خود کو تیار رکھیں جہاں ان کی تنخواہ ڈیڑھ ہزار روپے تک ہوجائے گی۔ نوجوان لیکن انتہائی اولوالعزم جناح نے اس پیشکش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جواب دیا کہ وہ وکالت کے پیشے میں مستحکم ہوکر اتنی رقم روز کمانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واقعی ایک دن ایسا آیا کہ وکالت میں انہیں اس سے کہیں زیادہ آمدنی ہونے لگی۔

قانون کے پیشے میں قائد نے جو بلند مقام حاصل کیا‘ اس میں ان کی قانونی لیاقت ، مقدمے کی مکمل تیاری اور پھر عدالت میں اُسے پیش کرنے کے منفرد اندازکا بھی زبردست دخل ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس میں اصول پرستی کا ایسا اعلیٰ معیار قائم کیا جو قانون پیشہ حلقوں میں ایک مثال بن گیا۔ سوائے ایک دو مواقع کے انہوں نے کبھی کسی مقدمے کی مفت پیروی نہیں کی اور اپنی مقررہ فیس سے کم پر کبھی رضا مند نہیں ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی رولز رائس گاڑی میں بیٹھنا چاہتا ہے تو وہ اس کی قیمت بھی اداکرے۔ ایسا بھی ہوا کہ کسی موکل نے احتیاطً زیادہ رقم ان کے پاس پیشگی جمع کروادی۔ انہوں نے مکمل دیانت کے ساتھ اس میں سے اپنی فیس منہا کرکے بقیہ رقم واپس کردی۔

قائد کی بے داغ سیاست کے زریں اصول

قائد انتہائی اصول پرست تھے۔ اس معاملے میں وہ کسی مصلحت کے قائد نہیں تھے۔ اکثر سیاسی لیڈر عام لوگوں کو خوش کرنے کی خاطر سچ بات کہنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن سستی شہرت اور مقبولیت قائد کے کردار سےکوسوں دور تھی۔ وہ کھری بات کہتے چاہے کسی کو کتنی ہی گراں گزرے۔ان کی بے داغ سیاست کے زریںاُصول ہماری نظروں سے محو ہوگئے ہیں۔زیل میں ان کے چند اُصول درج ہیںانہیں پڑہ کر سوچیےکہ ہمارے سیاست داںاپنے قائد جیسے کیوں نہیں بن سکے

اپنے ہی احکام پر خود عمل نہیں کروںگا تو دوسروں سے کیسےاس کی توقع کروںگا

قائد گاہے بگاہے گورنر جنرل ہائوس سے کار میں سیر کو جایا کرتے۔ اس موقع پر قائد کے اے ڈی سی کیپٹن گل حسن کے سوا کوئی حفاظتی گارڈ ساتھ نہیں ہوتا ۔ ایک روز ایسی ہی سیر کے موقع پر ریل کا پھاٹک بند تھا۔ اے ڈی سی نے پھاٹک والے سے جاکر کہا کہ اگر گاڑی آنے میں دیر ہوتو پھاٹک کھول دے کیونکہ کار میں قائد اعظم بیٹھے ہیں۔ اس نے پھاٹک کھول دیا۔ گل حسن نے واپس آکر ڈرائیور کو کار چلانے کا اشارہ کیا لیکن ڈرائیور نے کہا کہ صاحب نے حکم دیا ہے کہ کارنہ چلائو۔ قائد نے گل حسن سے کہا کہ وہ پھاٹک بند کرادیں۔ لیکن چوکیدار کہنے لگا کہ ریل دور ہے‘ آپ گزر جائیں گے۔ قائد نے ڈانٹ کر کہا کہ خیریت اسی میں ہے کہ وہ پھاٹک بند کردے اور اے ڈی سی سے کہا’’اگر اپنے ہی احکام پر میں خود عمل نہ کروں گاتو دوسروں سے کیسے اس کی توقع رکھوں گا؟‘‘

’’سر‘‘کاخطاب نہیں لیا

قائد اعظم کے بارے میں دوست‘دشمن‘سیاسی اور غیر سیاسی تمام حلقے اس بات پر متفق ہیں کہ بڑے سے بڑا لالچ بھی انہیں خرید نہیں سکتا تھا۔ بارہا حکومت کی طرف سے انہیں عہدوں اور اعزازات کی پیش کش کی گئی لیکن انہوں نے ان سے انکار کردیا۔ وائسرائے لارڈ ریڈنگ نے جو قائد کی قابلیت سے بہت متاثر تھا‘ایک دفعہ انہیں جج نے اور دوسرے موقع پر اپنی کابینہ میں لاء ممبر بننے کی پیش کش کی۔ قائد نے دونوں کو ٹھکرادیا۔ جب اس نے سر کا خطاب دینے کا عندیہ ظاہر کیا تو قائد نے کہا’’وہ سر محمد علی جناح کے مقابلے میں صرف مسٹر محمد علی جناح کہلانا پسند کریں گے۔ قائد سے مایوس ہوکر وائسرائے نے بیگم جناح سے کہا’’کیا آپ یہ پسند نہیں کریں گی کہ لوگ آپ کو لیڈی جناح کہیں؟‘‘بیگم جناح نے جواب دیا۔’’اگر جناح نے سرکا خطاب قبول کیا تو میں ان سے علیحدہ ہوجائوں گی۔‘‘

جب ۱۹۴۷ء میں وائسرائے نے سر کے خطاب کے لیے قائد کا نام شہنشاہِ برطانیہ کو بھجوانے کی پیش کش کی تو قائد نے کہا ’’حال ہی میں مسلم لیگ نے اپنی ایک قرارداد میں تمام برطانوی اعزازات مسترد کردیے ہیں، لہذا ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ کسی برطانوی اعزاز کو قبول کریں۔‘‘

میں اپنے سفر پر قومی دولت نہیں اپنا ذاتی پیسہ صرف کرتا ہوں

گاندھی ریل گاڑی کے تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتے تھے لیکن ان کے ساتھیوں اور پرستاروں کا ایک پورا انبوہ ساتھ ہوتا۔ پورا ڈبا گاندھی کے لیے مخصوص ہوتا اور ان کی سہولت کے مطابق ڈبے میں ضروری تبدیلیاں بھی کردی جاتیں۔ بیگم سروجنی نائیڈو نے اسی لیے کہا تھا’’گاندھی جی کو غریب رکھنے پر قوم کو بہت خرچ کرنا پڑتا ہے۔‘‘ ایک بار مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے بعض ممبروں نے تجویز کیا کہ قائد بھی گاندھی جی کی طرح تیسرے درجے میں سفر کیا کریں۔ اس پر قائد نے کہا ’’یہ ریاکاری ہوگی ۔ میں اپنے سفر پر قومی دولت نہیں اپنا ذاتی پیسہ صرف کرتا ہوں۔ مجھے اپنا طرزِ زندگی تعیّن کرنے کا پورا اختیار ہے۔‘‘

میں شکم کے راستے عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرنا چاہتا

ایک بار قائد کے سیکریٹری نے روزنامہ ’احسان‘لاہور میں چھپنے والے ایک مضمون کی طرف ان کی توجہ مبذول کرائی۔ اس میں قائد پر الزام لگایا تھا کہ وہ عام لوگوں سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے اور اپنے گھر انہیں تقریبات میں مدعونہیں کرتے۔قائد نے یہ سن کر کہا’’میں شکم کے راستے عوام میں مقبولیت حاصل نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش ہے کہ لوگ میرے کردار کو دیکھیں۔ سیاسی دعوتیں دینا ایک قسم کی رشوت ہے۔ یہ طریقہ میرے مزاج کے خلاف ہے۔‘‘

جس تقریر کی خاطر قائد نے دو لاکھ کی رقم قربان کردی، وہ محض دس منٹ کی تھی

٭…منقولہ وغیرمنقولہ جائیداد کی صورت میں قائد نے جو پونجی جمع کی وہ خالصتاً اپنی قوت بازو سے کمائی ،اگر وہ چاہتے تووکالت کے پیشے میں اپنی غیر معمولی قابلیت اور محنت سے کہیں زیادہ کما لیتے۔ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ انہوں نے ذاتی فائدے پر قومی ضرورت کو ترجیح دی۔ جائیداد کےجھگڑے میں ایک فریق نے قائد کو اپنا وکیل مقرر کرنا چاہا لیکن انہوں نے پیروی کرنے سے معذرت کرلی۔ اس نے کہا کہ وہ ہر قیمت پر قائد ہی کووکیل کرنا چاہتا ہے اور یہ کہ اس کے لئے وہ دو لاکھ روپے تک فیس دینے کو تیار ہے۔ قائد نے کہا کہ فیس کی رقم دو لاکھ ہو یا اس سے زیادہ، بات یہ ہے کہ جس روزمقدمہ ہے اسی روز انہیں اسمبلی میں ایک بحث میں حصہ لینا ہے۔ اس واقعے کے راوی مسٹر کے ایل گابا کے بیان کے مطابق، جس تقریر کی خاطر قائد نے دو لاکھ کی رقم قربان کردی، وہ محض دس منٹ کی تھی۔

تلاش اور زیارت لانے پر جو روپیہ صرف ہوا ہے، وہ میرے ذاتی حساب سے ادا کیا جائے‘‘

٭…زیارت قیام کے دوران علالت کے آخری دنوں میں قائد کی خوراک بہت کم ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اگر کھانا ان کی پسند کا ہو، تو وہ غالباً رغبت سے کھائیں گے۔ محترمہ جناح نے بتایا کہ کراچی میں ایک باورچی کے ہاتھ کا کھانا قائد بہت شوق سے کھاتے ہیں۔ وہ پنجاب کے کسی علاقے کا ہے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے لاہور خط لکھا اور تلاش بسیار کے بعد باورچی مل گیا۔ اسے زیارت بھجوایا گیا۔ جب قائد نے اس کے ہاتھ کا پکا کھانا کھایا تو کہا،’’ آج کا کھانا بہت لذیز ہے‘‘۔ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ ان کے پرانےباورچی نے پکایا ہے جسے بہت تلاش کے بعد بطور خاص بلوایا گیا تو قائد بہت خفا ہوئے اور کہا ’’اس کی تلاش اور زیارت لانے پر جو روپیہ صرف ہوا ہے، وہ میرے ذاتی حساب سے ادا کیا جائے۔‘‘

’’غیرت کے ساتھ شکست قبول کرنا ایسے سمجھوتے سے بہتر ہے جو مسلمہ آئینی اصولوں اور روایات کے منافی ہو‘‘

٭… قائد سرکاری امور بذریعہ آرڈیننس چلانے کے بہت خلاف تھے۔ ان کے نزدیک یہ طریقہ کار جمہوریت کے مسلمہ اصولوں اور آئینی روایات کے منافی تھا۔ قائد کے مطابق آرڈیننس خصوصی ہنگامی اقدام ہے۔ وہ اس وقت نافذ کیا جاتا ہے جب اسمبلی کا اجلاس نہ ہورہا ہو۔ حکومت پر لازم ہے کہ ایسے آرڈیننس کو اسمبلی کے اولین اجلاس میں پیش کرے۔ قائد نے 1947 میں پبلک سیفٹی آرڈیننس 1946کے خلاف مسلم لیگ کی تحریک نافرمانی کے بارےمیں نواب ممدوٹ کو ہدایت کی کہ، وہ اس مطالبے پر ڈٹےرہیں کہ آرڈیننس کو فی الفور اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ قائد نے تاکیداً لکھا ’’غیرت کے ساتھ شکست قبول کرنا ایسے سمجھوتے سے بہتر ہے جو مسلمہ آئینی اصولوں اور روایات کے منافی ہو۔‘‘

اصولوں پر ڈٹے رہنا اور سمجھوتے بازی سے نفرت قائد کے کردار کے لازمی اجزاء تھے

٭…قائد سیاسی مصلحتوں کی خاطر جوڑ توڑ کے سخت خلاف تھے۔ اقتدار کی ہوس انہیں اپنے اصولوں سے منحرف نہیں کرسکتی تھی۔ 1945-46 کے انتخابات سے پہلے خواجہ ناظم الدین نے اندازہ لگایا کہ اگر ضمیر فروش عناصر سے اتحاد کرلیاجائے تو بنگال الیکشن میں مسلم لیگ کی کامیابی آسان ہوجائے گی، لہٰذا نہوں نے قائد کو لکھا ’’مجھے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ میرےسامنے دومتبادل راستے ہیں یا توبے ایمان عناصر سے مل کر وزارت بنائی جائے یا ایک ہندو جماعت سے اتحاد کرلیا جائے۔‘‘اصولوں پر ڈٹے رہنا اور سمجھوتے بازی سے نفرت قائد کے کردار کے لازمی اجزاء تھے۔ انہوں نے جواب دیا’’میں کسی حال میں ضمیر فروش عناصر سے کوئی واسطہ رکھنا نہیں چاہتا، ہاں ہندوئوں سے باعزت شرائط پر اشتراک ممکن ہے۔ میں ایک ڈانوں ڈول حکومت کے بجائے باعزت حزب اختلاف میں رہنا زیادہ پسند کروں گا۔ اگر آپ پختہ ارادے کے ساتھ سرگرم عمل رہیں تومجھے یقین ہے بنگال میں مسلم لیگ کے بغیر کوئی مستحکم اور دیرپا وزارت نہیں بن سکتی۔ میں آپ کی جگہ ہوتا تو یقیناً دفعہ 93سے خوفزدہ نہ ہوتا۔ اگر یہ دفعہ لاگو ہوتی ہے تو ہونےدیجئے۔‘‘

قائد ہر سال لیگ میں اپنی رکنیت کی باقاعدہ تجدید کراتے

٭…1941میں مدراس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہوا جس میں قائد کو مسلم لیگ کا تاحیات صدر بنانے کی درخواست کی گئی۔ قائد نے اس قرارداد کی سخت مخالفت کی اور کہا، ’’وہ پارٹی میں جمہوری طریقہ کار پر ایمان رکھتے ہیں اور ہر سال کھلے اجلاس میں پارٹی کی رضامندی حاصل کرنا پسند کریں گے۔‘‘ انہیں تاحیات صدر منتخب ہونا پسند نہیں۔ قائد ہر سال لیگ میں اپنی رکنیت کی باقاعدہ تجدید کراتے۔ وہ پہلے پرائمری مسلم لیگ کا فارم بھرتے، وہاں سے ان کا نام ڈسٹرکٹ مسلم لیگ پھر صوبائی اور آخر میں مرکزی مسلم لیگ کو جاتا۔ تب جاکر وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے کونسلر منتخب ہوتے۔

ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ہندوستان کے مکمل وفادار رہیں

٭…قائد حد درجہ حقیقت پسند، غیر فرقہ پرست اور روادار انسان تھے۔ پاکستان اور ہندوستان کی دو آزاد مملکتیں باقاعدہ وجود میں آگئیں تو ان دنوں کانگریس کے صدر آچاریہ کرپلانی نے پاکستان میں آباد اقلیتوں کو نصیحت کی کہ وہ 14اگست کو ہونے والی تقریبات آزادی میں حصہ نہ لیں، نہ صرف یہ بلکہ سندھ کے ہندوئوں کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستان سے ہندوستان منتقل ہوجائیں۔ کرپلانی کی اس شرانگیز تلقین کا موازنہ آپ قائد کے اس پیغام سے کریں جو انہوں نے اس موقع پر ہندوستان میں آباد مسلمانوں کو دیا۔ ’’ اپنے ملک (ہندوستان) کا وفادار ہونا ہی آپ کو زیب دیتا ہے۔ جس طرح میں پاکستان میں مقیم ہندوئوں سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ پاکستان کے وفادار رہیں، ٹھیک اسی طرح میں چاہوں گا کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان ہندوستان کے مکمل وفادار رہیں۔‘‘ خود قائد نے ہرممکن کوشش کی کہ سندھ کے ہندو پاکستان ہی میں بدستور رہیں۔

دور جدید میں شاید ہی کوئی دوسری قوم کسی فردواحدکی اتنی مرحون منت ہو جتنی پاکستانی قوم قائداعظم کی ممنون کرم ہے۔ مشہور امریکی مورخ اسٹینلی والپرٹ نےکیا خوب کہا ہے۔ ’’بہت کم افراد تاریخ کا رخ موڑ سکے ہیں۔ ان سے بھی کم لوگوں کودنیا کے نقشے بدلنا نصیب ہوا اور پھر ایسے لوگ تو شاید انگلیوں پر گنے جاسکیں جنہیں ایک قومی ریاست کی تشکیل کا شرف حاصل ہوا ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں معرے اکیلے انجام دیئے۔‘‘