داستانِ کربلا کے ادبی اور ثقافتی پہلو

September 19, 2018

ڈاکٹر فہیم اعظمی

تاریخ اور تصور پر مبنی کہانیاں، جب کسی قوم میں ایسا تاثر پیدا کرتی ہیںکہ وہ پشت در پشت کسی نہ کسی شکل میںظاہر ہوتی ہیں تو ایسی کہانیاں اُن اقوام کی تہذیب اور کلچر کا جُز بن جاتی ہیں، اسی لیے دنیا میںبہت سی لوک کہانیاںاور بہت سے لوک گیت، ایسی شخصیتوں کے حالات بیان کرتے ہیں، جنہوں نے اپنی کسی نہ کسی صفت کی وجہ سے قوم میںایک دائمی اثر چھوڑا ہے۔ ایسے لوگوںکا اور اُن کے کارناموں کا ذکر بار بار ہوتا ہے، اُن کی یادگاریں منائی جاتی ہیں، اُن کی زندگی، لوگوںکے لیے مثال ہوتی ہے۔ ایسی یادگاریں ادب کا حصہ بن جاتی ہیں۔ ادیب اور شعرا انہیں اپنے الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جن میںصنعتوں کا ہونا لازمی ہے اور ان میں ایک صنعتِ مبالغہ بھی ہے، جو قوم کے کلچر اور ادب کے فروغ میںمددگار ثابت ہوتی ہے، جیسا کہ ونڈل ہیرس نے اپنی کتاب ’’برطانیہ میں انیسویں صدی کا مختصر فکشن‘‘ لکھا ہےکہ

’’کہانی ایک ادبی فارم ہے، جو مبالغے کی سمت مائل رہتا ہے اور ماضی کی بار بار تخلیق کے عمل میں وقت کا ایجنٹ ہوتا ہے۔‘‘

ایسی کہانیوں اور ان سے منسلک شخصیتوں اور یادگاروں کو مٹا دینے کی کوشش کرنا یا انہیں بھلا دینا، محض اس لیے کہ ان میںحُسنِ تحریر و تقریر اور صنعتِ مبالغہ شامل ہے۔ قوم کا کلچر اور اس کے ادب کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔

63ھ میںکربلا کے میدان میںجو سانحہ پیش آیا اور اس سانحے کا سیاق و سباق عرب قوم پر صدیوں تک اس طرححاوی رہا کہ عرب اور زیرِ عرب ملکوں میں اس نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔ سیاسیات، نظریات اور علم و ادب میںاس نے ایسی جگہ بنائی کہ جس کی مثال ہماری تاریخ میں نہیںملتی۔ اس سانحے کو سیاسی مقصد کے لیے بھی استعمال کیا گیا اور اسی کو بنیاد بنا کر قتل و غارت گری بھی ہوئی۔ استحصال کرنے والوںنے اس کا جی بھر کر استحصال کیا اور عارضی فوائد بھی حاصل کیے۔ عالموں اور ادیبوں نے اس سانحے کے مختلف پہلوئوں پر تحقیق کی اور اسے مذہبی ، علمی اور فقہی رنگ دیا۔ دماغ والوں نے اس کے منطقی اور ارضی پہلو کو اجاگر کیا اور دل والوں نے اس کے روحانی اورجذباتی اثرات کو کریدا۔ غرض کہ کوئی طبقہ ایسا نہیںتھا، جس نے اس واقعے کے کسی نہ کسی پہلو سے اثر نہ قبول کیا ہو۔ ایسے طبقے بھی تھے، جنہوں نے اس سانحے کو معمولی قبائلی خصوصیت اور قرابت داروںکے جھگڑے سے تعبیر کیا اور اسے بھلانے کی کوشش کی، لیکن چونکہ یہ داستان، مظلوموں اور ظالموں کے باب میںمظلوموں کی بہادری اور حق پرستی پر مبنی تھی، اس لیے اسے بھلانے کے یا اس کے اثر کو زائل کرنے کے لیے، انہیں ظالموں کی صف میں کھڑا ہونا پڑا اور ان کی زیادتیوں کے مروّج ،مقولوں قصوں پر پردہ ڈالنا پڑا۔ اس طرحبہت سے دلائل پیش کئے گئے، مثلاً اجتہادی غلطی، شام میںکوفے کے واقعات سے لاعلمی اور افسوس۔ ظالم کے لیے جنت کی پیشن گوئی وغیرہ، لیکن ان سب میںایک عمل شامل تھا وہ تھا ظلم اور ظالموں کا دفاع۔انسان، انفرادی اور اجتماعی طور پر کتنا بھی ظالم اور سفاک کیوںنہ ہو، وہ ظلم سے نفرت کرتا ہے اور منافقت کو اخلاقی برائی سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے دفاع میںکبھی کامیاب نہیںہوتا۔ لوگوںکا منہ بند کرنے کے لیے خزانے کا منہ کھولا جا سکتا ہے، وظائف دیئے جاسکتے ہیں، مطلب کے مفسرِ اور مورّخ مقرر کئے جاسکتے ہیں، مگر ملامتی ضمیر، خود یقینی کو قریب نہیںآنے دیتا، اگر خود یقینی نہ ہو تو دوسروںکو قائل کیا جاسکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ تمام کوششوںکے باوجود، کربلا کی کہانی اور حسینؓ کا نام عرب، ایران، ہندوستان، اور پاکستان میںلوگوںکے کلچر کے ساتھ اس طرحمنسلک ہوگیا کہ وہ کسی ایک فرقے تک محدود نہ رہا۔ کہیں وہ عیسائیوں کے قلم سے ’’جافعۂ کربلا کی داستان بن کر نکلا‘‘ کہیںعلی زین العابدین کی شان میںبنی اُمیہ کے درباری شاعر، فرزدق قصیدے کی شکل میں ادبی کتابوں کا حصہ بنا، کہیںتصوراتی آرٹ کی شکل میں گھروں، ہوٹلوں اور خانقاہوں کی زینت بنا، کہیں سماع کی محفلوں نے اسے تقدیسی آرٹ کی شکل میں پیش کیا، کہیںچمٹوں کی آواز پر ملنگوں نے اسے اللہ کے نام کے ساتھ منسلک کیا، کہیں درویشوں نے اسے تقدیسی رقص کی بنیاد بنایا، کہیں لوگوں نے نوحے اور ماتم کے ذریعے سوگ منایا، کہیں شبیہیں بنائی گئیں، جن پر غیر مسلموں نے بھی خراجِ عقیدت پیش کیا اور کہیں ہندو عورتوں نے غم ناک دوہے گا کر اپنی آواز کے ذریعے اس کہانی اور اس کے ہیرو کے نام کو اجاگر کیا۔ نتیجتاً یہ ہمارے کلچر کا حصہ بن گئے اور ہمارے قومی ادب میںبلاتفریقِ مذہب و ملت داخل ہوئے، پھر یہ واقعہ اور یہ نام یورپ میں گین جیسے کئی عیسائی مورخین اور محققین کی توجہ کا باعث بنا، انہوںنے اپنی تحریروں میںلاکر خوب صورت الفاظ میں اس واقعے کو اس طرح بیان کیا کہ جیسے ان کی تحریر کی بلند آہنگی اسی نام اور اسی سانحے کی مرہونِ منت ہو۔ اس طرح کربلا کے تھوڑے سے لوگوںکی اصول پرستی، بہادری اور استقلال و اعتماد کی کہانی اور ظالموں کے ظلم و جور کی داستان سیف الملوک، عنتر اور رستم کے قصوں کو بہت پیچھے چھوڑ گئی۔

لبنان ایک ایسا عرب ملک ہے، جہاں عیسائیوں اور مسلمانوںنے عرب کی تاریخ اور ادب پر تحقیق و تنقید کی اور ان کو اپنے مضامین، کہانیوں اور ناولوںمیںبڑی خوبی سے بیان کیا۔ ان کی کتابوں میں واقعۂ کربلا، حضرت امام حسینؓ اور ان کے اہلِ بیت کی داستان، اُن کی حق گوئی اور سرفروشی۔ حضرت زینبؓ کا دربارِ یزید میں خطبہ، یزید اور اس کے درباریوں کی بدگوئی کے جواب میں حضرت علی زین العابدینؓ کے ارشادات وغیرہ، ادب کا حصہ بن چکے ہیں۔ مرثیے، نوحے، قصیدے اور مثنوی، غرض کہ ہر صنفِ شاعری اور ادب میں ہند و پاکستان کے لوگوںنے اس واقعے سے فیض حاصل کیا۔ عراق اور ایران میں جہاںشدید عقائد، آرٹ اور فن کو مٹانے میںہمیشہ ناکام رہے، لوگوںنے تصویریںاور خاکے بنائے، جس میں کربلا کے واقعے کی تمثیل پیش کی گئی۔

میں اس امر پر بحث کرنے کا اہل نہیںہوںکہ یہ تمام باتیںہمارے عقیدے اور مذہب کو کس طرحتقویت یا ٹھیس پہنچاتی ہیں۔ میرا موضوع صرف یہ ہے کہ امام حسینؓ کی شخصیت اور اُن کی قربانی نے کس طرحعمومی تاریخی واقعے سے بالا تر ہوکر ہمارے ادب اور ہمارے کلچر میں ایک کنسپٹ کو جنم دیا۔

حضرت امام حسینؓکی شہادت کے بعد کئی مسئلے سامنے آئے۔ یزید محض ایک نامناسب ہی نہیں، بلکہ ظالم اوردشمنِ اسلام کے طورپر اُبھرا۔ اس موقعے پر فلسفۂ اجتہاد کو مورخین اور محققین نے ایک نیا رُخ دیا۔ ابنِ خلدون نے یزید کو برا بھلا کہتے ہوئے، اُس دور کے اور اس کے بعد کے نظریے کی ترجمانی اپنے ’’مقدمہ‘‘ میںکی ہے۔امام حسینؓ نے حق پرستی اور خدا کی مرضی اور اصول کی بنا پر صحیح فیصلہ کیا تھا اور وہ شہید ہیں۔ اس طرح ابنِ خلدون نے ’’ججمینٹ‘‘ یا اجتہاد کے کنسپٹ کی طرف اشارہ کیا اور کسی کو بھی موردِ الزام ٹھہرانے سے احتراز کیا۔ابنِ خلدون سے یا اس کے پیش رو مورخین اور مفکرین سے، جو اس قسم کے نظریے کے بانی تھے، ہم اتفاق کریںیا نہ کریں۔ ججمینٹ کے اس رویے کو ڈپلومیسی، منافقت یا اجتہاد تصور کریں۔ بہر حال واقعۂ کربلا نے ہماری تاریخ، ہمارے فلسفے اور ادب کوبڑی حد تک متاثر کیا۔ واقعۂ کربلا کے بعد، یزیدی فوج نے امام حسینؓ کی حمایت میں ہونے والے مدینے کے بلوے کو جس بے دردی سے دبایا اور حصین بن نمیر کے تحت فوج نے جو قتل عام کیا، وہ بلادِ اسلامیہ پر کسی کافر کے حملے سے کم نہ تھا، لیکن تعجب یہ ہے کہ یزید اوراس کے رفقائے کار کا یہ ظالمانہ عمل صرف تاریخ کی کتابوںمیں محفوظ ہے اور اسے وہ اہمیت نہ مل سکی، جو واقعۂ کربلا کو ملی۔ یہ ضرور ہے کہ اس واقعے نے شہادت حسینؓ میںملوث ظالموں کے دفاع اور اُن کے کردار کے ریشنلائزیشن کی راہیں مسدود کردیں۔ واقعۂ کربلا تاریخ کے صفحات سے نکل کر ایک درد ناک کہانی کے روپ میںہماری آنے والی نسلوں کے لیے روایت بن گیا۔ یہی ایک واقعہ ہے، جو ہزار کوششوں کے باوجود، ہمارے ادب سے الگ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہم اس حدِ فاصل کو مٹا سکے، جو اس واقعے نے ظالموں اور مظلوموں کے درمیان قائم کر رکھی ہے۔ہمارے لیے اب یہ بحث بے کار ہے کہ واقعۂ کربلا کو ہم کس طرح دیکھتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی طرحکی بھی تحریک یا عقیدہ، اس واقعے کی اہمیت کو کم نہیں کرسکتا۔ اُن کی یاد منانے کی طریقے میںاختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اسے بھلانا ناممکن ہے، کیوں کہ یہ ہمارے کلچر اور ہمارے ادب کا حصہ بن چکا ہے، جب تک ہماری ثقافت، ہمارے علوم اور ہمارا ادب زندہ ہے، کربلا کی کہانی، الفاظ کے نئے نئے روپ دھار کر جنم لیتی رہے گی۔