نئی حکومت کو درپیش چیلنجز اور پاکستانی عوام!

September 21, 2018

وفاقی حکومت نے منی بجٹ میں نئے ٹیکس لگا کر تبدیلی کی خواہشمند قوم کو شدید مایوس کیا ہے۔ تشویش ناک امر یہ ہے کہ بیرونی قرضہ60ارب ڈالر سے بڑھ کر 95ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے پنجاب سمیت ملک بھر میں لاکھوں مزدور بے روزگار ہوچکے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے جتنا نقصان ملک وقوم کو پہنچایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کیلئے ایکسپورٹرز کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ بجلی سیکٹر اس وقت ساڑھے چار سو ارب اور گیس سیکٹر100ارب روپے کے خسارے میں ہے۔ بیرونی بینکوں میں موجود375ارب ڈالر کا خطیر سرمایہ ملک میں واپس لایا جانا چاہئے۔ ٹیکس چوری کے خاتمے کیلئے اصلاحات ناگزیر ہیں۔ جب تک اربوں روپے لوٹ کر بیرون ملک منتقل کرنے والوں کے گرد گھیرا تنگ نہیں کرلیا جاتا تب تک ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت کی طرف سے گیس کے نرخوں میں حالیہ 143فیصد تک اضافے سے غریب عوام کیلئے کئی نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی زندگی پہلے ہی اجیرن ہوچکی ہے۔ منی بجٹ میں178ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں۔ اب غریب اور متوسط طبقے کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ نئی حکومت عوام کی فلاح وبہبود کیلئے کام کرنے اور ان کو ریلیف دینے کے بجائے سابقہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی سے ملک میں جاری میگا پروجیکٹس بری طرح متاثر ہوں گے۔ وفاقی حکومت کو ایسی معاشی پالیسی بنانی چاہئے کہ جس سے حقیقی معنوں میں عوام کو ریلیف میسر ہو۔ اس وقت ملکی معیشت انتہائی دگرگوں حالت میں ہے۔ جب تک معاشی صورتحال میں بہتری نہیں آتی تب تک ملک میں ترقی اور پاکستانی عوام کی زندگی میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ گیس، پٹرولیم اور بجلی کے نرخوں میں بھی مسلسل اضافہ تشویش ناک اور لمحہ فکریہ ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کی جانب سے مستقبل میں پٹرول20روپے تک مزید مہنگا ہونے کے اعلان نے عوام کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نئی حکومت کے پاس بھی غریب عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کیلئے کوئی وژن نہیں ہے۔

ملک میں حقیقی تبدیلی عوامی ایجنڈے کے مطابق کام کرنے سے آئے گی۔ محض کھوکھلے نعروں اور چہروں کی تبدیلی سے نظام بدلنے والا نہیں۔ ملکی حالات بہتر کرنے کیلئے اقربا پروری اور موروثیت کا خاتمہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ میرٹ پر فیصلہ سازی سے ہی اصل تبدیلی رونما ہوگی۔ پنجاب میں 8ہزار975کنال پر403ارب روپے کی سرکاری عمارتیں خزانے پر بوجھ ہیں۔ ان عمارتوں کی دیکھ بھال پر سالانہ10ارب روپے سے زائد کی رقم خرچ ہوتی ہے جبکہ ان عمارتوں میں19ہزارملازمین تعینات ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو صرف لاہور شہر کے جی او آر ون میں 5 سے 56کنال کی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ نئی حکومت نے اگر تو واقعی پریشان حال لوگوں کو ریلیف فراہم کرنا ہے تو اسے سرکاری افسروں کے شاہانہ انداز ختم کرنا ہوں گے۔ ماضی کے حکمرانوں کی عاقبت نااندیش پالیسیوں کی بدولت ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس وقت روزانہ 6ارب روپے غیر ملکی قرضوں پر لگنے والے سود کی مد میں جارہے ہیں۔ اگر اتنی بڑی رقم کو بچا لیا جائے تو ملکی معیشت میں بہتری آسکتی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں مگر انہیں نوکریاں نہیں مل رہیں۔ الیکشن سے قبل اپنی انتخابی مہم میں وزیراعظم عمران خان نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کاوعدہ کیا تھا اب اس پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ سیاسی تقرریوں سے اداروں کا بیڑا غرق ہوچکا ہے۔ اگرچہ تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیٹی کے قیام کا اعلان خوش آئند ہے۔ اس فیصلے سے انتخابات کے نتائج بارے پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اتفاق رائے سے ٹی او آرز تیار کیے جائیں اور مستقبل میں دھاندلی کی روک تھام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ٹھوس اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ آئندہ صاف شفاف اور غیر متنازع انتخابات کا انعقاد کر کے ہی ملک میں مثبت تبدیلی کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی نئی حکومت کو اس وقت کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملک میں دیگر شعبوں کی طرح صحت کے شعبے پر بھی حکومت کو خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور پرائیویٹ اسپتال مجبور اور بے بس عوام سے لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں مگر انہیں علاج معالجے کی بہتر سہولتیں فراہم نہیں کی جا رہیں۔ ان حالات میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے پرائیویٹ اسپتالوں کو علاج سستا کرنے کیلئے پندرہ دن کی ڈیڈ لائن ایک قابل تحسین اقدام ہے۔ نجی اسپتال علاج معالجے کے نام پر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں اور ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کو سستا علاج فراہم کرنے کی ہدایت کو پوری قوم سراہتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو عوام کیلئے مفت طبی سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ سرکاری اسپتالوں کی صورتحال کو بھی بہتر کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں کا عملہ غیر اخلاقی طرزعمل کے باعث مریضوں اور لواحقین کے ساتھ لڑتا جھگڑتا نظر آتا ہے۔ رہی سہی کسر سینئر ڈاکٹرز کی عدم توجہی اور اپنے پرائیویٹ کلینک کو ترجیح دینے نے پوری کردی ہے، کسی بھی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں مریض سینئر ڈاکٹرز کی بجائے جونیئر ڈاکٹرز کے رحم و کرم پر نظر آتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں عملے کی ملی بھگت سے کرپشن کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں۔ لوگوں کو مفت ادویات فراہم کرنے کی بجائے مجبوراً پرائیویٹ میڈیکل اسٹورز سے ادویات لینی پڑتی ہیں۔ مقام افسوس یہ ہے کہ عوام خون پسینے کی کمائی سے حکومت کو امور سلطنت چلانے کیلئے ٹیکس دیتے ہیں مگر اس کے بدلے میں لوگوں کو کسی قسم کی کوئی سہولت میسر نہیں ہے۔ پیرامیڈیکل اسٹاف کو بھی مریضوں اور ان کے لواحقین کے ساتھ رویہ اچھا کرنا چاہئے۔ ڈاکٹر ایک مسیحا ہوتا ہے جس کا کام لوٹ مار نہیں بلکہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنا ہوتا ہے، اس مقدس پیشے کو بدنام ہونے سے بچانا ہوگا۔ مسلم لیگ(ن) کی سابقہ حکومت نے بھی ماضی میں سنگین غلطیاں کیں تھیں۔ گزشتہ دور حکومت میں سڑکوں اور پل بنانے کی طرف تو توجہ دی گئی مگر غربت، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کیلئے کچھ نہیں کیا گیا۔ اب پاکستانی قوم یہ توقع کررہی تھی کہ وزیراعظم عمران خان اپنے انتخابی دعوؤں اور نعروں کے عین مطابق غریب عوام کو ریلیف فراہم کریں گے لیکن ایک ماہ کے دوران نئی حکومت یہ کام نہیں کرسکی۔ وزیراعظم عمران خان نے 100روزہ پلان دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ آئندہ مہنگائی کو روک پاتے ہیں یا پھرغریب عوام یونہی پستے رہیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)