سعودی عرب اور پاکستان کی لازوال دوستی

September 23, 2018

حافظ محمد علی یزدانی
(سعودی عرب کے قومی دن کی مناسبت سے خصوصی تحریر)
سعودی عرب کا قومی دن ہر سال 23ستمبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب 1932ء میں مملکت سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعودنے ایک بکھرے ہوئے ملک کو متحد کیا اور اسلامی اصولوں پر مبنی ایک متحدہ مملکت کے قیام کا اعلان کیا۔سعودی عرب کیلئے شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود نے ان تھک محنت کی اور اس کیلئے ایک طویل لڑائی لڑی۔ 1902میں شاہ عبدالعزیز نے ریاض کو واگزار کروایا اور ایک عظیم ملک کو قائم کرنے کی بنیاد رکھی۔ شاہ عبدالعزیز نے آئندہ 31سال پوری یکسوئی کے ساتھ منتشر و شورش زدہ مملکت کو متحد کرنے میں صرف کر دیئے۔ شاہ عبدالعزیز 1953ء میں دنیا سے رخصت ہو گئے،ان کے بعد آنے والے ان کے جانشینوں نے ان کے قائم کردہ اصولوں پر اس مملکت کو چلانے کیلئے دن رات محنت کی تاکہ ملک کو ترقی یافتہ بنایا جائے۔ ان کے بعد شاہ سعود نے سب سے پہلے 1953ء سے 1964ء تک سعودی عرب پر حکمرانی کی۔ ان کے بعد شاہ فیصل شہید 1964ء سے 1975ء تک برسراقتدار رہے جن کے بعد شاہ خالد آئے جو 1982ء میں وفات پا گئے۔ ان کے دور میں ہی تیل کی دریافت اور اس کی آمدنی سعودی عرب میں آنا شروع ہوئی اور اس طرح سعودی عرب دنیا بھر میں ایک مضبوط معاشی ملک کے طور پر ابھرنے لگا۔ 1982ء سے لے کر 2005ء تک اقتدار کی مسند پر شاہ فہد بن عبدالعزیز سعودی عرب کی فلاح و بہبود کیلئے براجمان رہے ۔ یکم اگست 2005ء کو شاہ فہد کی وفات کے بعد ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز کو سعودی عرب کا چھٹا بادشاہ بننا نصیب ہوا۔23جنوری 2015 شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد موجودہ بادشاہ شاہ سلمان بن عبدلعزیز نے حکومت کی زمام کار سنبھالی۔ سعودی عرب میں جو بھی حکمران آئے، خلیجی ممالک اور جزیرہ عرب کے ساتھ تعلقات کو مستحکم تر کرنا، عرب اور اسلامی ملکوں کے مفاد عامہ کی خاطر ان سے تعلقات کو مضبوط کرنا، غیر وابستگی کی پالیسی اپنانا، دوست ممالک کے ساتھ تعاون کے تعلقات قائم کرنا اور عالمی و علاقائی تنظیموں میں موثر کردار ادا کرنا ہر حکمراں کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔سرزمین حرمین شریفین کی وجہ سے سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا دینی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ مسجد الحرام، مدینہ منورہ میں مسجد نبوی اور حج کے مقدس مقامات کے خادم ہونے پر سعودی حکام کو یقینی طور پر فخر محسوس ہوتا ہے کیونکہ زائرین عمرہ اور حجاج کرام کی خدمت کرنا واقعتا ایک اعزاز ہے۔مقدس مقامات کی دیکھ بھال اور ترقی کے لئے مملکت کی کاوشیں شاہ عبدالعزیز کے دور سے اب تک کئی گنا ہو چکی ہیں۔ حرمین شریفین اور مقدس مقامات میں متعدد توسیعی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ سعودی حکومتوں نے مسجد الحرام، مسجد نبوی، منیٰ ، عرفات اور مزدلفہ میں توسیع اور ترقی کے کئی منصوبے مکمل کئے ہیں جن میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا 19اگست 2011ء سے شروع کیا گیا مسجد الحرام کا عظیم الشان تاریخی توسیعی منصوبہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔اس توسیع کے بعد یہاں 25لاکھ مزید نمازیوں کی گنجائش ہو گئی ہے۔اسی طرح شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کی جانب سے مسجدِ نبوی کی توسیع کے احکامات صادر فرمائے جس سے مسجد نبوی میں مزید 16لاکھ نمازیوں کی گنجائش پیدا ہوئی ہے ۔ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیزکی جانب سے شروع کئے گئے ان توسیعی منصوبوں پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں بہت کام ہوا اور یہ توسیعی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے ہیں۔ سعودی عرب کا دستور قرآن و سنت ہے‘ تمام آئینی قوانین انہی دو مصادر سے اخذ کئے گئے ہیں۔ یہاں نظام حکومت بادشاہت ہے جس میں بادشاہ اور وزراء کی کونسل انتظامی اور مقننہ کے اختیارات رکھتی ہے۔ مملکت شوریٰ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دے۔ برادر اسلامی ملک میں اسلام قانونی نظام اور حکومت کی بنیاد ہے۔ سعودی عرب کے پاکستان سے تعلقات ہمیشہ بہت مضبوط و مستحکم رہے ہیں جبکہ ان رشتوں میں کوئی کمزوری نہیں آئی بلکہ دن بدن ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ سعودی عرب کا قومی دن دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی انتہائی احترام سے منایا جاتا ہے۔ اس سال بھی اس دن کی مناسبت سے مسلم خطوں و ملکوں میں امن و سلامتی کے لئے خصوصی دعائیں کی جائیں گی۔ سفارت خانوں میں خاص طور پر ہر سال پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔پاکستان کے سعودی عرب سے تعلقات چونکہ شروع دن سے انتہائی مضبوط اور مستحکم رہے ہیں اس لئے وطن عزیز پاکستان کا ہر شہری چاہے وہ کسی بھی مکتبہ فکر اور شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کیوں نہ ہو سرزمین حرمین الشریفین کیلئے ہمیشہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے دعائیں کرتا ہے اور سعودی عرب کا نام سنتے ہی محبت، اخوت اور ایثارو قربانی کا جذبہ اس کے دل میں جاگزیں ہونے لگتا ہے۔