بلدیاتی اداروں کو ختم کیا تو بھرپور مزاحمت کریں گے

October 04, 2018

گزشتہ ہفتہ ملتان کا کئی حوالوں سے ذکر ہوتا رہا۔ ایک طرف مخدوم شاہ محمود قریشی کی اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس میں کی گئی تقریر اور اردو زبان کا استعمال ایک بڑی خبر بن کر سامنے آیا۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ انہوںنے اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر اردو میں تقریر کی اور اس میں ایسا بیانیہ اختیار کیا جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر جس طرح شاہ محمود قریشی نے بھارت کی جارحیت ، سرحدی خلاف ورزیوں اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا بھانڈا پھوڑا اس پر ہمیشہ مصلحتوں کی وجہ سے پردہ پڑا رہتا تھا۔ ملتان میں عموماً لوگوں نے شاہ محمود قریشی کی تقریر پر فخر کا اظہار کیا کہ انہوں نے ملتان کو نئی سیاسی شناخت دی ہے۔ اس طرح کا ایک دوسرا کام صوبائی اسمبلی کے رکن ندیم قریشی نے کیا اور پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ کرپشن میں ملوث افراد کو سزائے موت دی جائے اگرچہ یہ مطالبہ خاصا مبہم اور ا نتہا پسندانہ نظر آتا ہے کیونکہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرپشن نیچے سے لے کر اوپر تک موجود ہے۔

بلاتفریق سب کیلئے سزائے موت کا اعلان کردینا کسی بھی طرح دانشمندانہ عمل نظر نہیں آتا۔ اس قرارداد کی اتنی اہمیت ضرور ہے کہ کرپشن کے حوالے سے ہمارے ہاں جو بے پناہ لاقانونیت نظر آتی ہے اور اربوں روپے سے کم کے کیسز سامنے نہیں آتے اس کو دیکھتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ احتساب کے عمل کو سخت اور تیز رفتار بنایا جائے۔ گزشتہ دنوں مولانا فضل الرحمن اور ڈاکٹر اجمل قادری ملتان آئے۔ مولانا فضل الرحمن نے حسب دستور تحریک انصاف کی حکومت پر سخت تنقید کی اور اسے ایک جعلی اور مصنوعی حکومت قرار دیا۔ تاہم ڈاکٹر اجمل قادری نے ایک ایسی بات کی کہ جسے یہاں کے سیاسی حلقوں نے ناپسندیدگی سے سنا۔ انہوں نے پنجاب کی تقسیم کی مخالفت کی اور کہا کہ جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ انہوں نے وہی تجویز دہرائی کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ انتظامی سیکرٹریٹ قائم کردیا جائے جو یہاں کے لوگوں کے روزمرہ معاملات حل کرے اور انہیں لاہور نہ جانا پڑے۔ موقف تو نئے بلدیاتی نظام کے حوالے سے بھی اس کے مخالفین کا واضح طور پر سامنے آچکا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر موجودہ بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خلاف ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی۔

قانون کا سہارا بھی لیا جائے گا اور احتجاج کا راستہ بھی اختیار کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے تو واضح کردیا ہے کہ تحریک انصاف کو یک طرفہ طور پر ایسی کوئی ترمیم نہیں کرنے دی جائے گی جو موجودہ بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کا باعث بنے لیکن جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے اس نے نہ صرف نئے بلدیاتی نظام کے مسودے کو حتمی شکل دے دی ہے بلکہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس لئے نیا بلدیاتی نظام کسی وقت بھی نافذ ہوسکتا ہے اور اس کے نفاذ کے فوراً بعد موجودہ بلدیاتی اداروں کا خاتمہ یقینی ہے۔

اس سلسلے میں کسی بڑے احتجاج کی اس لئے امید نہیں کہ موجودہ بلدیاتی نظام نے عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا اور اس میں ایسے خلا موجود ہیں جس کی وجہ سے کونسلروں ، یونین چیئرمینوں اور تحصیل و ضلع کے عہدیداروں کے درمیان کوئی ایسا نظم و ضبط پیدا نہیں ہوسکا کہ اس نظام کے ثمرات عوام تک پہنچا سکے جبکہ دوسری طرف تحریک انصاف جو نظام لانا چاہتی ہے وہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس میں بلدیاتی نمائندوں کو بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ میئر کا عہدہ گویا ایک منی چیف منسٹر جیسا ہوگا جسے اپنے شہر میں ہر قسم کے اختیار حاصل ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق جو مسودہ پیش کیا گیا ہے اس میں لاہور اور ملتان سمیت 8 ایسے بڑے شہروں میں میئر کے براہ راست انتخاب کی تجویز دی گئی ہے اور یہ منتخب میئر قریباً 24 ایسے صوبائی محکموں کا انچارج ہوگا جو عوام کی روزمرہ زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔