پی پی کے رہنما اور کارکن چوہدری یٰسین کے تعاون کے طلب گار

December 04, 2012

پاکستان ہمارے آباؤ اجداد کا مدفن اور ہمارا مسکن وطن رہا ہے اور رہے گا۔ خواہش تو یہی ہے کہ قسمت میں خاک طیبہ نسیب ہو تو پھر اپنے بزرگوں کے قدموں میں پاکستان میں دفن ہونا نصیب ہوجائے۔ خطہٴ پاکستان بزرگوں صالحین متقین کی آمد کی وجہ سے اسلام کی دولت سے مالا مال ہوا۔ سب سے پہلے مسلمان سندھ کے ساحل پر اترے۔ یہ پہلی صدی ہجری کے آخری سالوں کی بات ہے۔ پھر سندھ سے ملتان تک آئے۔ تاریخ پڑھانے اور سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ اس وقت ملتان اور سندھ کے باہمی تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے۔ محمد بن قاسم اٹھارہ سال کا نوخیز نوجوان ملتان ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو ہندو رسم و رواج کے مطابق نوجوان لڑکیوں نے پھولوں کے ہار لے کر اس کے استقبال کے لئے قطاریں بنالیں لیکن نوجوان فاتح نے ایک نظر اٹھا کر نہ دیکھا اور لڑکیوں کی طرف توجہ نہ کی۔ لوگ حیران ہوئے تو اس نے کہا کہ میں نے جس آقا کا کلمہ پڑھا ہے ان پر اترنے والے قرآن میں لکھا ہے کہ مسلمان اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں، اس لئے شرم و حیا ہمارے ایمان کا لازمی حصہ ہے لوگ اس کے اس قدر گرویدہ ہوئے کہ اس کے بت بنا کر اس کو بھگوان کا اوتار سمجھنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد مسلمان حکمرانوں نے نوجوان محمد بن قاسم کو دمشق واپس بلا کر اس کے ساتھ جو سلوک کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پھر صدیاں گزر گئیں اور ایک دن لوگوں نے دیکھا کہ ایک ولی اللہ کا جنازہ اٹھ رہا ہے۔ اور دوسرا ولی اللہ لاہور شہر میں داخل ہورہا ہے۔ فوت ہونے والے حضرت حسین رنجانی تھے اور آنے والے افغانستان کے شہر غزنی کے علاقے ہجویر کے سید علی بن عثمان ہجویری تھے۔ جنہیں خواجہ معین الدین اجمیری نے گنج بخش فیض عالم کا مشہور زمانہ خطاب دے کر ان کے نام کا قیامت تک حصہ بنا دیا۔ اب کوئی اس نام سے پریشان ہوتا رہے لوگوں کو اس نام سے انہیں یاد کرنے سے روکتا رہے لیکن لوگوں کے دلوں پر یہی خطاب اور لقب نقش ہوچکا ہے۔ مجھے حیرانی ہوتی ہے داتا گنج بخش کے لقب پر اعتراض کرنے والے جب دنیا کے کسی عارضی بادشاہ کو ”جلالةُ الملک“ کہتے اور لکھتے ہیں تو انہیں اس سے توحید کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوتا حالانکہ قرآن حکیم واضح طور پر ارشاد فرماتا ہے ”قل اللھم مالک الملک“ معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ جو مالک الملک ہے اس کی بنائی ہوئی دنیا میں کوئی دنیاوی عارضی بادشاہ ہوسکتا ہے تو اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی عطا سے کوئی گنج بخش بھی ہوسکتا ہے۔ یہ حضرت داتا گنج بخش ہی تھے کہ جن کی آمد سے خاک پنجاب زندہ ہو سکی۔ اقبال کہتے ہیں:
سید ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیر سنجر را حرم
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح مااز مہراو تا بندہ گشت
ادھرلاہور میں حضرت علی ہجویری اور ادھر اجمیر میں خواجہ معین الدین حسن سنجری کی وجہ سے پورا ہندوستان نور اسلام سے منور ہوگیا اور ہر طرف اجالا ہوگیا کفر کے اندھیرے چھٹ گئے۔ قیام پاکستان کی تحریک چلی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی قیادت ایک ایسے شخص کے سپرد کی جو ظاہری طور پر تو اسلامی علوم کا ماہر اور عالم و فاضل نظر نہ آتا تھا لیکن اس کا دل اسلام کی حقانیت سے مالا مال اور لبریز تھا۔ محمد علی جناح نے جسے دنیا قائداعظم کے لقب سے جانتی اور مانتی ہے نے کہا تھا کہ پاکستان اس دن بن گیا تھا جب پہلا مسلمان اس دھرتی پر آیا تھا۔ ہم اپنی تاریخ، تہذیب تمدن لباس معاشرت غرض ہر معاملے میں ایک جدا اور منفرد قوم ہیں۔ قیام پاکستان کی تحریک سے پہلے مسلمانان ہند نے کئی معرکے لڑے۔ کئی مراحل پر اپنی شناخت کے لئے جدوجہد کی۔ سب سے پہلے مغلیہ سلطنت کے آخری مرحلہ پر انہوں نے 1857ء جنگ آزادی برپاکی اور تاریخ کا دھارا بدلنے کی کوشش کی لیکن منظم اور بھرپور اور مربوط جنگ نہ ہونے کی وجہ سے مار کھا گئے۔ برٹش ایمپائر قائم ہوئی تو مسلمانوں کو اپنی شناخت کا بہت احساس تھا انہیں خطرہ تھا کہ کہیں اغیار ہندوؤں کے ساتھ سازش کرکے انہیں ان کی مذہبی اقدار اور روایات سے محروم نہ کردیں اس لئے مدارس اسلامیہ قائم ہوئے۔ مسلم تہذیب کے تشخص اور اس کے احیاء کے لئے تحریکیں چلیں۔ مشائخ اور علماء ان تحریکوں میں شامل ہوئے لیکن وہ تحریک سے زیادہ تدریس پر توجہ دیتے رہے اور خانقاہوں میں بیٹھنے والے اولیائے کرام لوگوں کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہے۔ اس وقت حضرت پیر سید مہر علی شاہ رحمة اللہ کی سوانح حیات پر مشتمل کتاب ”مہر منیر“ کا عنوان سیاست سے پرہیز پیش نظر کتاب کے صفحہ ایک سو چوالیس پر لکھا ہے: ”آپ (پیر سید مہر علی شاہ رحمة اللہ علیہ) نے کبھی سیاست میں حصہ نہ لیا۔ بعض مخلصین نے اسمبلیوں کے انتخابات میں امداد حاصل کرنے کی کوشش کی مگر آپ نے ہمیشہ یہ کہہ کر انکار فرما دیا کہ اس وقت ان چیزوں کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا میں ان کاموں میں دخل دینا پسند نہیں کرتا، البتہ جس وقت جسٹس دلیپ سنگھ نے ملعون راجپال شاتم رسول کو اپیل پر ہائیکورٹ میں بری کیا اور مسلمانوں میں ہیجان پیدا ہوا تو آپ نے وائسرائے ہند کو بذریعہ تار شدید احتجاج فرماتے ہوئے لکھا کہ مسلمان قوم ہزار اختلافات کے باوجود ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محاذ پر یک جا ہوکر لڑے گی اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ ایک دفعہ راولپنڈی میں ایک تحریک کے سلسلے میں جلسہ ہوا تو حضرت پیر مہر علی شاہ کے صاحبزادے حضرت بابو جی مدظلہ کو بھی دعوت شرکت دی گئی۔ حضرت پیر مہر علی شاہ نے اپنے صاحبزادے سے مخاطب ہوکر فرمایا ”نہ تو لوگوں سے اس قدر علیحدگی اختیار کرنا کہ نشانہ بنالیں اور نہ ایسا اختلاط کرنا کہ اپنا شغل بھی ترک ہو جائے“۔ چنانچہ حضرت بابو جی شریک جلسہ نہ ہوئے۔ یہ تھا سلف صالحین کا طرز عمل، پاکستان بننے کے بعد اس کے اکثر علماء و مشائخ اپنے اپنے مدارس اور خانقاہوں کی طرف متوجہ ہوگئے۔ البتہ 1970ء کا الیکشن ایسا الیکشن تھا جس پر علماء کی کثیر تعداد نے حصہ لیا اور بہت سے کامیاب بھی ہوئے کیونکہ یہ عام اسمبلی نہیں تھی بلکہ دستور ساز اسمبلی تھی جس نے مملکت خداداد پاکستان کا اسلامی آئین بنایا تھا، حضرت مولانا شاہ احمد نورانی اور ان کے رفقاء کی کوششوں سے مسلمان کی متفقہ تعریف منظور ہوئی اور قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا۔ اس کے بعد نہ تو علماء کی قابل ذکر تعداد کامیاب ہوسکی اور نہ ہی کوئی انہوں نے بڑا کارنامہ سر انجام دیا۔ جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دے کر ایم ایم اے نے اپنی ساکھ کھو دی اور اب آئندہ الیکشن موجودہ حالات کے تحت علماء کو کوئی قابل ذکر کامیابی ملنا نظر نہیں آرہی چند ہی پہنچ پائیں گے۔