کوئی بھی ادارہ اسٹیٹ آف آرٹ نہ بن سکا۔۔۔

October 07, 2018

(گزشتہ سے پیوستہ )

ہر حکومت نے ہمیشہ سے کہاکہ اسپتالوں کی ایمرجنسیز کو بہتر کیا جائے گا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ تمام سرکاری اسپتالوں کی ایمرجنسی میں ادویات فراہم کر دی گئی ہیں بجٹ بھی بڑھا دیا گیا۔ نئی مشینیں بھی لگا دی گئی ہیں آج دو چار اسپتال چھوڑ کر کسی بھی اسپتال کے اندر ایمرجنسی میں سی ٹی اسکین، ایم آر آئی اور بے شمار کلینکل ٹیسٹوں کی سہولت میسر نہیں ہر ایمرجنسی میں تمام ضروری مشینیں جدید ترین تھیٹرز جدید ترین لیبارٹریز مہنگی سے مہنگی زندگی بچانے والی ادویات ہونی چاہئیں۔ آج کسی بھی اسپتال کی ایمرجنسی میں رجسٹرار یا سینئر رجسٹرار کے علاوہ کوئی سینئر ڈاکٹر موجود نہیں ہوتا مریض اور زخمی ایمرجنسی میں جونیئر ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں۔ کہا گیا تھا کہ ایمرجنسی میں باری باری اسسٹنٹ پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور پروفیسرز ڈیوٹی دیں گے رات کو کسی پروفیسر یا ایسوسی ایٹ پروفیسر کو آپ بلا نہیں سکتے یہ پروفیسرز ڈرامہ بازی کرتے ہیں اور اپنے ہائوس آفیسر کو انہوں نے سمجھایا ہوتا ہے کہ کب اور کس طرح بلانا ہے۔ مریضوں کے لواحقین ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں کہ رات کو کوئی پروفیسر آن کال نہیں آتا۔ اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ کوئی حکومت کا اعلیٰ عہدیدار آرہا ہے تو یہ پروفیسر نہ جانے کہاں سے آ دھمکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب ایمرجنسی کو چلانے کیلئے اعلیٰ ڈاکٹرز کی ضرورت ہے جو کہ آپ کے پاس نہیں۔ ایمرجنسی میں بہترین تجربہ کے حامل افراد کی ضرورت ہے جو کہ آپ کے پاس نہیں۔ کبھی موقع ملے تو کسی باہر کے ملک کے کسی اسپتال کی ایمرجنسی کا جائزہ ضرور لیجئے گا۔ ایمرجنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہاں دنیا جہان کی بہترین ادویات اور انتہائی تجربہ کار افراد موجود ہوں جبکہ ہمارے ہاں ایمرجنسی میں انتہائی جونیئر افراد موجود ہوتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ڈیفنس لاہور کے ایک نجی اسپتال کا اچانک دورہ کیا اور علاج معالجے کی سہولیات کا جائزہ لیا اس موقع پر انہوں نے مریضوں کی عیادت کی اور مریضوں کے لواحقین نے شکایات کے انبار لگا دیئے۔ انہوں نے کہا وہ کونسا کمرہ ہے جس کا کرایہ پچاس ہزار روپے ہے۔ ایک مریض کے کمرے میں جا کر انہوں نے کہا کیسے پھنس گئے ان کے پاس یہ تمہیں معاف نہیں کریں گے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج اس مقدس پیشے کو لوگوں نے کاروبار بنا لیا ہے یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر شعبہ صحت سے وابستہ کاروبار میں پانچ سو فیصد تک بلکہ اس سے بھی زیادہ منافع نہ ہوتا تو کبھی بھی پورے ملک میں ہر گلی محلے میں پرائیویٹ اسپتال قائم نہ ہوتے۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں مریضوں کو غیر ضروری کلینکل ٹیسٹ کروا کر لوٹا جاتا ہے صرف دو دن کا بل بھی لاکھوں روپے کا بن جاتا ہے۔ جس نجی اسپتال کا چیف جسٹس نے دورہ کیا وہاں پر ایک مریض کا بل ایک کروڑ تک پہنچا ہوا تھا۔ کوئی نجی اسپتال بھی کسی غریب کا مفت علاج نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی بھولا بسرا غریب آ بھی جائے تو اسے اتنا ذلیل کیا جاتا ہے کہ وہ علاج ہی نہیں کراتا۔ اس پرائیویٹ اسپتال کو چلانے والے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ یہاں پر دنیا کی بہترین مشینری اور آلات لا رہے ہیں۔ ارے بھائی یہ سب کچھ تو آپ امیروں کے لئے کر رہے ہیں۔ کیا ان مہنگی مشینوں، جدید آلات پر آپ نے غریبوں کو مفت علاج کی سہولتیں فراہم کر نی ہیں۔ پھر اگر آپ میڈیکل یونیورسٹی بنا رہے ہیں تو وہاں کون سا آپ نے غریبوں کو داخلہ دینا ہے جس کی جیب میں پچاس لاکھ روپے ہوں گے اس کو داخلہ ملے گا۔ کیا کسی پرائیویٹ میڈیکل کالج نےغریب اسٹوڈنٹس کیلئے پچاس فیصد نشستیں رکھی گئی ہیں؟ چیف جسٹس صاحب پرائیویٹ میڈیکل کالجوں ، یونیورسٹیوں میں غریبوں کے لئے پچاس فیصد کوٹہ مختص کرنے کا حکم صادر فرمائیں۔

بعض نجی اسپتال ڈالرز میں کمروں کا کرایہ لیتے ہیں جبکہ نجی اسپتال اپنے جونیئر ڈاکٹروں کو انتہائی کم معاوضے پر ملازمت دیتے ہیں اور ان سے بیگار لیتے ہیں ہمیں کئی نجی اسپتالوں کے ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہم سے مقررہ ٹائم سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے اور اگر ہم کوئی تقاضا کریں تو وہ ہمیں سہولت نہیں ملتی۔ لاہور کے ایک نجی اسپتال میں جب بعض نوجوان نشہ کی حالت میں آتے ہیں ان کا علاج ایمرجنسی میں نہیں بلکہ کسی علیحدہ کمرے میں کیا جاتا ہے اور ان سے زیادہ پیسے وصول کئے جاتے ہیں۔ اگر ماضی میں کسی بھی حکومت نے سرکاری اسپتالوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کی طرف توجہ دی ہوتی تو کبھی بھی اس ملک میں پرائیویٹ اسپتالوں کا کاروبار عروج نہ پاتا تلخ بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اسپتالوں کی بنیاد ہی سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے پروفیسروں نے ڈالی تھی اور یہ سلسلہ لاہور میں میو اسپتال اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے ان ڈاکٹروں نے پرائیویٹ اسپتالوں میں کام کرنا شروع کیا جو 1970ء کی دہائی کے بعد پروفیسر بنے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ پروفیسرز دوران ڈیوٹی سرکاری اسپتالوں سے بھاگ کر جیل روڈ کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں سرجری اور علاج کیا کرتے تھے۔ ماضی کی ایک اچھی بات یہ تھی کہ جو سرکاری ڈاکٹر پرائیویٹ پریکٹس کرتے تھے وہ غالباً اپنی فیس کا 25فیصد سرکار کو جمع کراتے تھے آج بھی سی ایم ایچ میں جو ڈاکٹرز شام میں پرائیویٹ پریکٹس کرتے ہیں وہ اپنی فیس کا 40فیصد جمع کراتے ہیں اور یہ بھی روایت رہی ہے کہ سرکاری ڈاکٹرز کو صرف اپنے گھر میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے کی اجازت ہوتی تھی وہ کسی دوسری جگہ جا کر پریکٹس نہیں کر سکتے تھے اور یہ بھی روایت رہی ہے کہ پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ کسی بھی سرکاری اسپتال میں کوئی پروفیسر 2بجے سے پہلے ڈیوٹی چھوڑ نہیں سکتا تھا اور شام کو بھی پروفیسرز اپنے وارڈز کا رائونڈ لگایا کرتے تھے اور تصور نہیں تھا کہ ڈاکٹروں کو گھر سے ایمرجنسی میں بلایا جائے اور وہ گھر سے نہ آئے۔

چیف جسٹس نے پرائیویٹ اسپتالوں میں اچانک دورے کر کے ایک اچھی روایت تو قائم کی ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پرائیویٹ اسپتال چیف جسٹس کے کہنے پر فیسیں کم کریں گے۔ کمروں کا کرایہ کم کریںگے۔ کیا ان کے اندر انسانیت پیدا ہو گی، کیا ان کے اندر درد دل پیدا ہو گا ۔ پرائیویٹ اسپتالوں کو نکیل ڈالنے کا کام کس کا تھا عدلیہ یا حکومت۔ حکومت کا کام عدلیہ نے کیا کیونکہ چیف جسٹس کے پاس پرائیویٹ اسپتالوں کے بارے بے شمار شکایات آ رہی تھیں۔ چیف جسٹس پرائیویٹ اسپتالوں کے بارے میں کھلی کچہری لگائیں تو یقین کریں کہ جس قدر پولیس کے بارے میں شکایات ہیں اس سے کہیں زیادہ پرائیویٹ اسپتالوں کے بارے میں ہوں گی اور ہم تو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے درخواست کریں گے کہ وہ پرائیویٹ اسپتالوں کے بارے میں لاہور رجسٹری میں، کراچی رجسٹری میں کھلی کچہری ضرور لگائیں۔ تو ان کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ پرائیویٹ اسپتال والے عوام اور مریضوں کے ساتھ کس قدر زیادتی کرتے ہیں۔ حکومت کی کوئی ایسی باڈی نہیں جو ان کے خلاف ایکشن لے سکے ان کے خلاف کارروائی کر سکے۔ اب تک کتنے پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف کارروائی ہوئی۔ کتنے پرائیویٹ اسپتالوں کو بند کیا گیا ان پرائیویٹ اسپتالوں میں کام کرنے والے نرسوں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تربیت انتہائی غیر معیاری ہے ان کا رویہ مریضوں کے ساتھ بہت ہتک آمیز ہے۔ کاش عدالت عظمیٰ اور حکومت غیر معیاری اسپتالوں کو بند کر سکے ان کے خلاف سخت ترین ایکشن لے سکے اور جن پرائیویٹ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی غفلت سے مریض موت کے منہ میں چلے گئے ان کے لائسنس کینسل کئے جائیں۔ ان ڈاکٹروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ (جاری ہے)