فاٹا کے صحافیوں اور نوجوانوں کے درمیان ایک شام

December 07, 2012

پاکستان کے بیشتر علاقوں کے صحافیوں کی انجمنوں کے بارے میں ہم لوگ خوب جانتے ہیں مگر فاٹا کے علاقے کی خبریں تو سنتے اور ٹیلی وژن پر دیکھتے ہیں مگر ان کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہیں۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ہماری حکومت نے تو نہیں ایک جرمن ادارے ایف ای ایس نے نہ صرف فاٹا کے صحافیوں کی یونین کو پہچانا بلکہ ان کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے، ایک ایسا جلسہ منعقد کیا جس میں تمام قبائلی ایجنسیوں کے نمائندے شریک ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ان لوگوں کو اپنے علاقے سے نکلنے اور کھل کر بولنے کا موقع ملا۔ صحافیوں کی قبائلی یونین 15جون 1987ء میں پارا چنار کرم ایجنسی میں قائم کی گئی۔ اس یونین کے 250 صحافی باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں تمام تر ناقابل بیان حالات کے باوجود یہ صحافی اس علاقے میں کام کر رہے ہیں جہاں نہ ریڈیو ہے، نہ اخبار، نہ ٹیلی وژن جبکہ اخباروں میں شائع ہونے والی خبریں بہت نہیں تو کم از کم 40% صرف فاٹا کے علاقوں سے آتی ہیں۔ لوگوں کو یاد نہ ہو تو میں یاد کرا دوں کہ شہید ہونے والے صحافیوں میں سے 13 صحافی فاٹا سے تعلق رکھتے تھے اس میں حیات اللہ شہید کا نام تو سب کو یاد ہو گا۔ جرمن ادارہ ایف ای ایس نے فاٹا یونین کے پریذیڈنٹ صفدر حیات داور کو سال کا بہترین انعام دینے کے لئے نہ صرف برلن بلایا بلکہ مذکورہ اجلاس بھی منعقد کیا۔
جلسہ کیا منعقد ہوا شکایتوں کا پٹارا کھول دیا گیا پہلی اور بنیادی شکایت تو یہ تھی کہ آخر فاٹا نے کیا قصور کیا ہے کہ اس علاقے کو بلاکسی تعلق اور سیاسی بنیاد کے بغیر بے آسرا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اگر آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو علیحدہ سیاسی حیثیتوں میں تسلیم کیا گیا ہے تو پھرآخر فاٹا کی کیا خطا ہے کہ اس علاقے کا کوئی سیاسی مستقبل متعین نہیں کیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ فاٹا کے علاقے سے12 ممبران نیشنل اسمبلی اور 8/ارکان سینٹ کے لئے منتخب کئے جاتے ہیں۔ یہ ممبران اپنی شناخت کے حوالے سے نہ کبھی اپنے علاقے کی سیاسی حیثیت کے لئے کوشاں ہوتے ہیں اور نہ کبھی تحریک چلاتے ہیں۔ البتہ جب کبھی ووٹ ڈالنے کا مسئلہ درپیش ہو تو اپنی پوزیشن کو خوب اچھی طرح نہ صرف استعمال کرتے ہیں بلکہ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ کیش بھی کراتے ہیں۔ ان اسمبلی ممبران نے قبائلی صحافی انجمن کی بھی نہ مدد کی اور نہ ان کو قومی سطح پر تسلیم کئے جانے کے لئے کوئی کوشش کی۔ بس کوئی کام کیا اور وہ بھی صدر پاکستان نے کیا ہے کہ ایف سی آر قوانین میں تھوڑی بہت ترامیم کی گئی ہیں جبکہ یہاں کے لوگوں کا مطالبہ ہے کہ یہ انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ہے اس کو ختم کیا جائے، یہ قانون ہمارے کسی کام کا نہیں ہے۔
غصے بھری مگر پُرجوش آوازوں میں کرم ایجنسی، باجوڑ ایجنسی، شمالی وزیرستان کے نمائندوں، مہمند ایجنسی، خیبر ایجنسی کے نمائندوں ریٹائرڈ بریگیڈیئرز اور صحافیوں نے مطالبہ کیا کہ ہرچند فاٹا کے علاقے کے لئے17ملین کے فنڈز رکھے گئے مگر انتظامی سطح پر باقاعدہ کام نہ ہونے کے باعث سال بھر میں صرف 7 ملین خرچ ہوئے اور وہ بھی ادھر ادھر کے انتظامی مشینری میں جو لوگ ہیں وہ خود پیسہ بٹورنے اورگورنر آفس کی سمت سرمایہ روانہ کرنے کے لئے کام کرتے رہتے ہیں۔ منتظمین کہتے ہیں بروقت فنڈز نہیں ملے سوائے ایک کیڈٹ کالج قائم کرنے کے اور کیا ہوا ہے۔ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ فاٹا کے علاقے کو صوبے کا درجہ دیا جائے تو ہر ایجنسی کے لوگوں نے کہنا ہے کہ اس کا دارالحکومت ہماری ایجنسی میں ہو۔ اس پر لوگوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا کہ آپ صوبہ تو بنائیں بے شک پیشاور ہی کو دارالحکومت بنا دیں۔ ہمیں شناخت تو دیں آپ لوگوں کی جانب سے جواب آتا ہے کہ ہمارے علاقے میں دہشت گردی بہت ہے۔
جواب یہ ہے کہ جب تعلیم پر منظم طریقے پر خرچ نہیں کیا جائے گا، صحافیوں کو باقاعدہ سیکورٹی نہیں فراہم کی جائے گی تو پھر صحافی بھی مارے جاتے رہیں گے اور نوجوان دہشت گرد بھی بنتے رہیں گے۔ سوال اٹھا کہ فاٹا کے 20/افراد ممبران اسمبلی ہیں تو کسی خاتون کو ممبر شپ کیوں نہیں دی جاتی۔ جواب ملا کہ جب لوکل باڈیز آئیں گی تو خواتین کو درجہ بدرجہ حیثیت دی جائے گی۔ سوال اٹھا کہ حکومت پاکستان فاٹا کے عوام کے ساتھ ایسا ہی سلوک کر رہی ہے جیسا کہ امریکن ایک زمانے میں ریڈ انڈینز کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ دیر بالا میں شوگر مل لگانے کی سفارش کی گئی۔ کیا منافع نہیں ہوگا تجویز دائیں، بائیں ہو گئی۔ سب لوگوں کی پُرزور سفارش تھی کہ گورنر KPK کی بجائے ہمارے علاقے کا نمائندہ ہی گورنر لگایا جائے تاکہ ہم اپنے علاقے ہی میں کام کروا سکیں۔ ہر چند بار بار کہا گیا کہ FCR جیسے قوانین یکدم نہیں ختم کئے جا سکتے ہیں مگر وہ تو سارے بپھرے ہوئے شیر تھے۔ اب تو نئے قوانین کے تحت سیاسی سرگر میوں کی اجازت ہے اس لئے وہ چاہے نوجوان تھے کہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر، چاہتے تو یہ تھے کہ ان کے علاقے کو پسماندہ ہونے سے بچایا جائے، ناکافی اصلاحات کی جگہ بھرپور اصلاحات کی جائیں۔
برلن میں قبائلی صحافیوں کی تنظیم کو انعام دیئے جانے کے باعث، دنیا بھر میں وزیرستان اور فاٹا کا نام اچھے لفظوں میں لیا جانے لگا ہے۔ صحافیوں نے بار بار کہا کہ ہم اپنی زندگی شدید خطرات میں ڈال کر قومی، بین الاقومی سطح پر خبریں بھیجتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جن صحافیوں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے قتل کیا گیا، قبائلی صحافیوں کی انجمن حتی الامکان ان صحافیوں کے خاندانوں کی کفالت کرتی ہے۔
سوال و جواب کے سیشن میں تو لگتا تھا کہ ساری رات بھی گزر جائے، ان ناراض لوگوں کے سوالات ختم نہیں ہوں گے۔ ہر چند پلاؤ کی خوشبو سے پورا ہال مہک رہا تھا مگر بحث کرنے والے تھک ہی نہیں رہے تھے۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ رہا تھا کہ ہم دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہر ایک کے منہ پر ایک سوال تھا ہم وہی لوگ ہیں جو روس کی فوجوں کے سامنے مجاہدین کہلاتے تھے اور اب دہشت گرد ہیں۔ بحث یہ بھی تھی کہ وہ کونسی ”مقتدر“ قوتیں ہیں جو صدر مملکت سے لیکر عمران خان تک کو ان علاقوں کی جانب بڑھنے نہیں دیتی ہیں،کیا وہ قوتیں ان علاقوں پر قبضہ گیر رہ کر ہی اپنی حکومت قائم رکھنا چاہتی ہیں کہ وہ جانتی ہیں کہ اب حکومت تو ان کے ہاتھ آ نہیں سکتی اس لئے سوات ہو کہ وزیرستان، اپنے بجٹ کو بڑھانے کے لئے کوئی بھی موقع ان کے ہاتھ سے نکلنے نہ پائے۔ بہرحال انتخابات بہت دور نہیں اور فاٹا کے لوگ بے خبر نہیں۔ خوبصورت نوجوانوں کو دیکھ کر دل سے دعائیں نکل رہی تھیں اللہ کرے وہ دن آئے کہ ملک ان جوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند