حسنِ ظن

October 26, 2018

معاشرے کے ذوق کی تشکیل میں ادب کا بنیادی کردار ہوتا ہے اور ادب میں بھی شاعری کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ ہمارا مزاج اور ذوق ہمارے ادب کے سانچے میں ڈھل کر کچھ اس طرح کا بن چکا ہے کہ ہمیں شاعری بھی وہ بھاتی ہے جس میں ہجرو وصال کی آہیں اور غم زندگی کا ماتم ہواور میوزک یا گانے بھی ایسے دل کو چھوتے ہیں جو طبیعت پر اداسی طاری کر تے ہوں۔ اور ماضی کے زخموں کو کریدتے ہوں۔ اس طرح ہمیں دانشور بھی وہ اچھے لگتے ہیں جو ہر وقت شام غریباں میں ڈوبے رہتے ہوں۔ خود بھی غم کے مارے ہوں اور قوم کو بھی غم زدہ کر تے ہوں۔ بہترین تجزیہ نگار وہ ہوتا ہے جو حالات کے خاکے میں مایوسی، ناکامی اور تاریک مستقبل کے رنگ بھرے اور ایسا نقشہ کھینچے جس سے ناظرین و سامعین کی رات کی نیندیں حرام ہو جائیں۔ لکھاری وہ اچھا ہوتا ہے جو دنیا بھر کے نقائص اپنی قوم اور اپنے ملک میں نکال کر نمایاں کرے اور پھر اپنی کامیابی پرداد بھی سمیٹے۔

نہ جانے قوم کو سکھ یاخیر کی خبر سنانے میں ہمیں کیوں تکلیف ہوتی ہے اور ہم دودھ دیتے ہوئے اس میں مینگنیاں ڈالنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں۔ تجزیات کو سچ کی روشنی عطا کرنے کے لئے اور احتیاط کا پہلو اجاگر کرنے کے لئے ہم اچھی خبر کو بھی کیوں اندیشوں اور خطروں کے کفن میں لپیٹ دیتے ہیں۔ جس روز کوئی بین الاقوامی ایجنسی یا ادارہ اور خاص طور پر کوئی امریکی تھنک ٹینک پاکستان کی زندگی کے کسی شعبے میں بھی رینکنگ یا RATINGکم کر دے تو ٹی وی پہ بیٹھے تجزیہکاروں کی باچھیں کھل جاتی ہیں اور ان کی ہنسی یا خوشی چھپائے نہیں چھپتی۔ وہ اس خبر کو اچھالنے اور چسکے لے لے کر قوم کی دل شکنی کرنے کے لئے ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے انہیں ہنستی مسکراتی قوم اچھی نہیں لگتی اور قوم کے چہرے پر اداسی اور مایوسی کا جال پھیلانا ہی ان کی اصل کامیابی ہے۔شاید ان حضرات کو علم نہیں کہ امریکی اور بعض یورپی ایجنسیاں اور ادارے انٹیلی جنس کا حصہ ہوتے ہیں، انہیں سی آئی اے جیسے ادارے فنڈز دیتے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہمیشہ تو نہیں کیونکہ اداروں کا بھرم اور کریڈیبلٹی قائم رکھناضروری ہوتی ہے لیکن خاص مواقع پر ان اداروں کو سی آئی اے جیسی پاور فل ایجنسیاں مخصوص نقطہ نظر پھیلانے یا کسی قوم کے حوصلے پست کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ معاشی، سیاسی، معاشرتیRATINGیعنی درجہ بندی کے اشارے بھی بعض اوقات اسی مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہمارے اکثر تجزیہ نگاروں اور عالم و فاضل اینکر پرسنوں نے نہ باخبر امریکی صحافیوں اور باغی دانشوروں کی کتابیں پڑھی ہیں اور نہ ہی ان کو اندازہ ہے کہ سی آئی اے پروپیگنڈے کو کس طرح جنگی ہتھیار اور مخصوص مقاصد کے لئے استعمال کرتی ہے۔ ہم اکثر اوقات سادگی میں یا اپنا علم بگھارنے کے لئے ان کی حکمت عملی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ طویل عرصہ قبل چھپی نوم چومسکی کی ایک کتاب پڑھنے کے لائق ہے اگرچہ اب یہ پرانی ہو چکی ہے،کتاب کا نام ہےMANUFACTURING CONSENT۔

سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو چھ یا بارہ ارب ڈالر کا پیکیج ملنا نہ صرف تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس نے قوم کے مرجھائے ہوئے چہروں پر رونق اور مسکراہٹ کی روشنی بکھیردی ہے بلکہ فوری طور پر مارکیٹ پر اثر انداز ہو کر ڈالر کی قیمت بھی گھٹاناشروع کر دی ہے۔ ہمارے حکمران یقین سے کہہ رہے ہیں کہ یہ پیکیج غیر مشروط ہے ، اس کے ساتھ کوئی STRINGیا مطلب وابستہ نہیں لیکن میں کل امریکی میڈیا پر دو تین تبصرے سن کر حیران تھا کہ وہ اس کے ساتھ کئی محرکات وابستہ کر رہے تھے۔ ہمارے بہت سے تجزیہ کار اور معروف صحافی جو ٹی وی پر قوم کو یقین دلا رہے تھے کہ سعودی عرب نے یقیناً ہم سے کچھ مطالبات کئے ہوں گے اور ہمیں اس پیکیج کی قیمت ادا کرناہو گی وغیرہ۔ مان لیا کہ بین الاقوامی سیاست میں فری لنچ یا مفت کا کھانا نہیں ملتا لیکن یقین رکھیے بعض اوقات کسی دیرینہ دوست ملک کو مشکل سے نکال کر اس سے محبت و وفا کے رشتے مضبوط کرنا بھی ایک مقصد ہوتا ہے لیکن ہمارے دانشور ایسے مقصد کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ سعودی عرب نے یہ عنایت پہلی بار نہیں کی۔ کوئی درجن بھر واقعات تو مجھے بھی یاد ہیں اور ان عنایات کے ساتھ کوئی شرط، مطالبہ یا محرک وابستہ نہیں تھا۔اسی طرح اگر عمران خان چین یا کسی اور دوست ملک سے بلاسود قرضہ یا پیکیج حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پاکستان کا آئی ایم ایف پر انحصار کم ہو جائے گا اور آئی ایم ایف جو جال اور شکنجہ تیار کر رہا تھا اس کی رگیں ڈھیلی کرنا پڑیں گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے امریکہ کی بھی دل شکنی ہو گی جو آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈال کر اپنے دیرینہ مطالبات پورے کروانا چاہتا ہے۔ میں ہرگز ماہر معیشت نہیں لیکن اگر حکومت منی لانڈرنگ، ڈالر کی بیرون ملک ہجرت اور کرپشن پر قابو پا لے اور برآمدات بڑھانے میں کامیاب ہو جائے تو ایک سال کے اندر پاکستانی معیشت اس قابل ہو جائے گی کہ قرضے ادا کر سکے اور اپنی ضروریات کا بوجھ اٹھا سکے۔ ٹیکسٹائل کا شعبہ متحرک کر کے اور زراعت کو رعایات دے کر ایک دو برس میں پاکستان معاشی مشکلات سے نکل سکتا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے کچھ اقدامات کئے ہیں اور کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔

ایک طرف حکومت کرپشن،منی لانڈرنگ، ماضی کے بڑے منصوبوں کا فرانزک آڈٹ اور آمدنی سے کہیں زیادہ اثاثوں کے خلاف مہم جوئی کر رہی ہے جس سے حزب مخالف کے ’’بڑے ناموں‘‘ کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا ہے دوسری طرف اگر حکومت اپنی کوششوں سے معاشی محاذ پر کچھ بڑی کامیابیاں حاصل کر لیتی ہے تو اتنی بڑی حزب مخالف کے پاس عوام کو بیچنے کے لئے کچھ نہیں بچے گا۔ بلاشبہ مہنگائی بہت بڑا چیلنج ہے، دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس پر کس طرح قابو پاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جیسےشاطر سیاستدان کا پارلیمنٹ سے باہر ہونا بذات خود بہت بڑا خطرہ ہے۔ ان حالات میں اپوزیشن کا متحد ہونا، حکومت کو ناکام قرار دینا، وزراء کے متضاد بیانات کو اچھالنا بالکل قابل فہم ہے ۔ ویسے اپوزیشن سے زیادہ حکومت کو اپنے جوشیلے اور بڑ بولے وزراء سے خطرہ ہے جو نہ بولنے سے پہلے اور نہ بعد میں اپنے بیانات کو تولتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)