آغا شورش کاشمیر ی:اوراقِ تاریخ کا زندہ کردار

October 28, 2018

خصوصی تحریر… آغا مشہود شورش
شورش کاشمیری پر قلم اُٹھانا، ان کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرنا، ایسے ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا۔ ان پر کچھ لکھنے سے پہلے قلم کی جرات اور لفظوں کی حرمت کا پاس اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی کے لئے سانس لینا، جرات، بے خوفی، بے باکی، استبداد اور اقتدار کے خلاف نبرد آزما ہونے کا دوسرا نام شورش کاشمیری ہے۔ اُن کے نزدیک قلم کی تجارت تذلیل سے کم نہیں۔ ایک ایسا شخص جو بے شمار خوبیوں کا مالک تھا، صحافی ایسا کہ خود امام صحافت مولانا ظفر علی خان کو کہنا پڑا:
شورشؔ سے میرا رشتہ ہے وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانیٔ سہراب
خطیب ایسا کہ برصغیر کے سب سے بڑے خطیب سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کہہ اُٹھے ’’شورش تم میری مراد ہو‘‘ اُن کی تحریر ایسی کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا کہ نوجوان کی تحریر کی پختگی یہ بتا رہی ہے کہ یہ تحریر اور تقریر کی بہت سی منزلوں کو بآسانی طے کرے گا۔ اردو زبان مین اُن کی دسترس کا یہ عالم تھا کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر رشید احمد صدیقی نے برملا اِس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’پنجاب کو ناز کرنا چاہئے کہ اُس نے اقبالؒ ہی نہیں شورش کاشمیری کو بھی پیدا کیا ہے‘‘ بلکہ یہاں تک خراجِ عقیدت پیش کیا کہ فرمایا ’’اُردو زبان ہماری ہے لیکن اِس پر حکومت دو پنجابیوں نے کی‘‘
سچ پوچھئے تو زبان گُنگ اور قلم میرے ہاتھ میں جچتا نہیں کہ میں والد محترم کے بارے میں مستعار فقروں اور اُدھار جملوں سے اُن کی شخصیت پر لب کشائی کر سکوں جس کے سامنے الفاظ اِس طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے جس طرح فاتح سپہ سالار کے سامنے مفتوح فوج سر جھکائے کھڑی ہوتی تھی۔ وہ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں لوگوں کی پیشانیوں سے موضوع تلاش کرتا ہوں اور ان کی نظروں سے اُن کے دلوں کے جذبات پڑھتا ہوں۔ اُن کی تقریر کا پسندیدہ موضوع اہلِ اقتدار، نخوت و تکبر سے آلودہ حکمرانوں کو للکارنا اور پچھاڑنا تھا۔ غالباً 1967ء یا 1966ء کا سال تھا، یومِ اقبالؒ کی تقریب تھی، ایوبی آمریت کا اژدھا اپنا پھن پھیلائے کھڑا تھا، اُس وقت کے ایک وفاقی وزیر کو صدارت کے لئے مدعو کیا گیا، مجلس اقبال کے جنرل سیکرٹری آغا شورش کاشمیری ہوا کرتے تھے۔ شورش صاحب کو جب اس کا علم ہوا کہ وزیر مہمانِ خصوصی کے طور پر آئے ہیں تو اُنہوں نے اپنی تقریر کے آغاز پر برجستہ کہا:
سانحہ کہہ لیجئے لیکن ہمارے رہنما
نام پر جمہوریت کے راہزنی کرتے رہے
پھر اُنہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ’’اے اہلِ اقتدار خدا کے خوف سے ڈرو ورنہ تمہارا اقتدار اس طرح اُڑنچھو ہو جائے گا جس طرح جہانگیر کے عہد شہزادگی میں نور جہاں کے ہاتھوں سے کبوتر اُڑ گئے تھے‘‘۔
شورش ہمیشہ اپنی کلاس یعنی اُن لوگوں کی حمایت اور ساتھ دینے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے جو قلم سے تلوار کا کام لیتے اور جنہوں نے طاقتور کے سامنے سر جھکانا سیکھا ہی نہیں تھا- وہ لوگ جو ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، سچ اور حق کی بات کرتے ہوئے تھکتے نہیں وہ اُس وقت کہاں تھے جب برصغیر کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو اُن کے ایک افسانے پر سزا سنائی گئی تو عدالت میں اُن کے حق میں گواہی دینے کے لئے ایک ہی شخص آیا اور اُس کا نام شورش کاشمیری تھا۔ 1973ء میں شاعر انقلاب جناب حبیب جالب کو جب ایک بے بنیاد الزام کے تحت گرفتار کرکے گوالمنڈی تھانے لے جایا گیا اور اِس کی خبر آغا صاحب کو ملی تو اُنہوں نے اُسی وقت جلوس کی صورت میں نہ صرف اہلِ اقتدار کو للکارا بلکہ فوری تھانے پہنچ کر حبیب جالب کو رہا بھی کروایا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کو ایوب خاں کی حکومت نے سبکدوش کرتے ہوئے حکم دیا کہ کوئی بھی شخص ذوالفقار علی بھٹو کواسٹیج فراہم نہ کرے تو شورش نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو بطور مہمان خصوصی ایک تقریب میںمدعو کیا، یہ بھٹو صاحب کی وزارت سے بر طرفی کے بعد عوام سے پہلی ملاقات تھی۔ اسی طرح پاک فضائیہ کے نامور سپوت اور 1965ء کی جنگ کے ہیرو ایئر مارشل (ر) اصغر خان کا پہلا جلسہ بھی آغا شورش کاشمیری نے موچی دروازے میں کروایا تھا۔ آغا شورش کاشمیری کی خطابت کے جوہر اور جرات کی انتہا اُس وقت نصف النہار پر ہوتی جب اُن کے مدمقابل اقتدار کے شہنشاہ اور اختیار کے بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے ان کا بیشتر دورِ جوانی پس زنداںگزرا۔ اپنے ایک انٹرویو میںانہوں نے خود کہا تھا کہ میں نے گورے انگریزوں سے لے کر کالے انگریزوں تک‘ اپنی جوانی کے تقریباً 16برس قیدوبند کی صعوبتوں میں کاٹے اب سوچتا ہوں کہ اپنا تخلص شورشؔ رکھوں یا جیل۔ جب وہ ایوبی آمریت کے خلاف نعرۂ حق بلند کرنے کی سزا کراچی سینٹرل جیل میں کاٹ رہے تھے، میں اور میرے بہن بھائی والدہ محترمہ کے ساتھ ان سے ملنے گئے تو انہو ں نے کہا: تین باتیں یاد رکھنا اور انہیں اپنا اصول اور ایمان بنا لینا:پاکستان ہمارا مقدس وطن ہے، اس کی سالمیت اور استحکام کے لئے جان تک کی پروا نہ کرنا، حضور بنیﷺ کی رسالت کو سب سے زیادہ مقدس سمجھنا۔ شورش کاشمیری نے کہا تھا
ہر حال میں، ہر دور میں تابندہ رہوں گا
میں زندہ جاوید ہوں، پائندہ رہوں گا
تاریخ میرے نام کی تعظیم کرے گی
تاریخ کے اوراق میں آئندہ رہوں گا