مقدس سفر.....دو قیمتی یادگار لمحات

November 11, 2018

ہر مسلمان کی طرح میرے دل میں بھی ادائیگی ِحج کی شدید آرزو تھی۔ زندگی کے اہم فرائض سے سبک دوشی کے بعد قدرت نے مجھے اس سعادت سے بہرہ مند ہونے کا موقع بھی فراہم کیا اور میں اپنے بیٹے کے ساتھ حج کی ادائیگی کے لیے مکّہ معظمہ پہنچ گئی۔ ہمارے گروپ کے معلّم، نصیر فاروقی تھے، جنہوں نے گروپ اراکین کا بھرپور خیال رکھا۔ ادائیگیِ حج کے بعد ہم مدینہ منورہ روانہ ہوئے اورجب وہاں پہنچے، تو تہجّد کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ نہادھوکر وضو کیا اور فوراً روضۂ رسولؐ پر حاضری کے لیے مسجد نبویؐ روانہ ہوگئے۔ تہجّد اور فجر کی نمازکے بعدوہیں قرآنِ کریم کی تلاوت کرتے رہے۔ ارادہ یہ تھا کہ اشراق کی نماز ادا کرکے واپس رہائش گاہ چلے جائیں گے۔ ہمارے گروپ کی سب خواتین ساتھ تھیں، اس لیے اطمینان سے تلاوت کرتے رہے۔ ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک بھگدڑ مچ گئی، قرآن شریف بند کر کے جب اطراف کا جائزہ لیا، تو بہت سی خواتین ایک سمت دوڑتی نظر آئیں، میری ساتھ موجود خواتین بھی حیران ہوئیں کہ اتنی ساری خواتین تیزی سے کدھر جارہی ہیں۔ میں نے ان سے کہا ’’آپ لوگ بیٹھیں، مَیں پتا کرکے آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئی، ریلے کا بہائو ایک جگہ جاکر رُکا، توخوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ میں اس بہائو میں عین ریاض الجنّہ تک پہنچ گئی تھی۔ بہ خدا وہ وقت میرے لیے کسی کرامت سے کم نہیں تھا۔ میں نے اسے اللہ کا خصوصی کرم سمجھ کر فوراً دو نفل ادا کیے۔ خواتین کے لیے ریاض الجنّہ میں نوافل ادا کرنے کا وقت صبح ساڑھے سات سے گیارہ اور دوسرا وقت ظہر کے بعد سے عصر کی اذان تک کا مقرر تھا۔ ان اوقاتِ کار سے ہم خواتین لاعلم تھیں۔ ہمارے معلّم کا کہنا تھا کہ وہ ہمیں یہ بات ظہر کی نماز کے بعد بتاتا، کیوںکہ بھیڑ اور لاعلمی کی وجہ سے خواتین کے گم ہوجانے کا خطرہ رہتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے لاعلمی ہی میں وہاں پہنچادیا تھا۔ نوافل ادا کرتے ہی لیڈی پولیس (شُرطہ) نے انتہائی چابک دستی اور پھرتی سے مجھ سمیت دیگر خواتین کو فوراً دوسرے دروازے سے باہر نکال دیا تاکہ دوسری خواتین کو بھی موقع مل سکے۔ اس دھکم پیل میں جب باہر نکلی تو وہاں گروپ کا کوئی بھی شناسا چہرہ نظر نہیں آیا۔ اندر جاتے وقت میں نے دروازے کا نام نہیں دیکھا تھا۔ بہرحال،اسی کشمکش میںباہر آئی اور اپنے گروپ کے لوگوں کو دیوانہ وار ڈھونڈنے لگی، مگر کوئی بھی نظر نہیںآرہا تھا، میں اپنے لوگوں کو کھو بیٹھی تھی اور مدینے کی گلیوں میں بھٹک رہی تھی۔ اس طرح مجھے ان مقدّس گلیوں میں ننگے پائوں پھرنے کا شرف بھی حاصل ہوگیا۔ مجھے نہ اپنی بلڈنگ کا نام یاد تھا، نہ ہی اس کی کوئی نشانی، کیوںکہ اس وقت سارے ہوٹلز اور بازار بند تھے،اسی طرح گھومتے گھومتے کئی گھنٹے ہوگئے اور دس بج گئے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنے گروپ تک کس طرح پہنچوں۔ پھر ایک جگہ رک کر گڑگڑا کررب سے دعا مانگی، ’’اےاللہ! اپنے پیارے نبیؐ کے صدقے مجھے اپنے گروپ کے لوگوں تک پہنچنے کا راستہ دکھادے۔‘‘ اور پھر دُعا مانگتے ہی جیسے میرے پیارے رب نے مجھے راستہ دکھادیا۔ میرے دماغ میں ایک دم یہ خیال آیا کہ پاکستانی سفارت خانے جاکر اپنے ہوٹل تک پہنچنے کے لیے رہنمائی حاصل کروں، جس کا میں نام تک نہیں جانتی تھی۔ پوچھتے پوچھتے ننگے پائوں ہی پاکستانی سفارت خانے جاپہنچی۔ مجھے مشہور نعتیہ اشعار بار بار یاد آرہے تھے ’’ہم مدینے میں تنہا نکل جائیں گے.....اور گلیوں میں قصداً بھٹک جائیں گے.....ہم وہاں جا کے واپس نہیں آئیں گے.....ڈھونڈتے ڈھونڈتے لوگ تھک جائیں گے‘‘ دل تو یہ چاہ رہا تھا کہ اس متبرک شہر کی گلیوں میں بھٹک جائوں، لیکن عملاً ایسا کہاں ممکن تھا۔ بہرحال، سفارت خانے پہنچ کر وہاں موجود عملے کو اپنی پریشانی بتائی، اور ابھی صرف مدینہ منورہ پہنچنے کا وقت ہی بتایا تھا کہ انہوں نے بذریعہ کمپیوٹر اس فلائٹ کے تمام مسافروں کی تفصیل نکال کر مجھے تھمادی اور بتایا کہ ’’آپ الجیاد نامی بلڈنگ میں رہائش پزیر ہیں، گروپ لیڈر کا نام نصیر فاروقی ہے اور آپ اپنے بیٹے عمیر احمد خان کے ساتھ آئی ہیں۔‘‘یہ سُن کر جان میں جان آئی۔ انہوں نے مجھے مزید بتایا کہ ’’آپ اپنی رہائش گاہ سے مخالف سمت میں بہت دور نکل آئی ہیں۔ پیدل وہاں تک جانا ممکن نہیں، ہماری گاڑی کسی کام سے باہر گئی ہے، وہ واپس آئے گی، تو آپ کو آپ کی رہائش گاہ تک پہنچادیا جائے گا۔‘‘ مجھے تقریباً ڈیڑھ، دو گھنٹے گاڑی کے انتظار میں بیٹھنا پڑا، اس دوران سفارت خانے کے عملے کو مستعدی سے مختلف لوگوں کے مسائل حل کرتے دیکھتی رہی۔ وہ ماتھے پر شکن ڈالے بغیر بڑی محبّت سے ان کے مسائل سُن کر حل کررہے تھے۔ گاڑی کے آتے ہی انہوں نے ڈرائیور کو پتا سمجھا کر مجھے روانہ کردیا۔ ڈرائیور نے بلڈنگ کے نیچے اتارا، تو اس کا شکریہ ادا کرکے تقریباً دوڑتی ہوئی بلڈنگ میں چلی گئی۔ زینے پر چڑھ ہی رہی تھی کہ مخالف سمت سے میرا بیٹا عمیر اور گروپ لیڈر نصیر فاروقی کا بیٹا عدنان فاروقی سیڑھیوں سے اترتے دکھائی دیئے۔ وہ میری ہی تلاش میں جارہے تھے۔ میں نے جذباتی کیفیت میں بیٹے کو پکارا، اس کی نظر جب مجھ پر پڑی تو دوڑتا ہوا آیا اور لپک کر لپٹ گیا۔ یہ منظر آج بھی یاد آتا ہے، تو آنکھیں ڈبڈبانے لگتی ہیں۔

اسی مقدّس فریضے کی ادائیگی کے دوران ایک اور جذباتی نوعیت کا واقعہ بھی پیشِ آیا۔ مَیں اپنی گروپ کی خواتین کے ساتھ عرفات سے مزدلفہ جارہی تھی۔ میرے ساتھ جو خاتون تھیں، ان سے میری بڑی اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ وہ مجھ سے چند برس ہی بڑی ہوں گی، اس لیے میں انہیں عذرا باجی کہنے لگی تھی۔ وہ میرا چھوٹی بہنوں کی طرح خیال رکھتی تھیں۔ عرفات سے مزدلفہ کے سفرکے دوران راستے میں عذرا باجی لڑکھڑا گئیں۔ میں نے انہیں سنبھالا۔ ان کے شوہر کو بلایا، جو ہمارے گروپ کے مردوں کے ساتھ آرہے تھے۔ حج کے دوران ان سے کئی بار سلام دعا ہوئی تھی۔ پُرنور چہرے اور مدبّر شخصیت کے حامل تھے۔ میرے دل میں ان کا احترام کچھ ایسا تھا، جیسے وہ ہمارے بزرگ رشتے دار ہوں۔ انہیں فوراً بلایا۔ بے پناہ بھیڑ میں عذرا باجی کو ایمبولنس تک پہنچانا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا۔ بہرحال، میں نے اس معاملے میں ان کی بھرپور مدد کی، جب تک انہیں اسپتال نہیں بھجوایا، ان کے ساتھ ہی رہی۔ حج کے بعد معلّم نے بتایا کہ انہیں انجائنا کا درد ہوا تھا۔ ان کی طبیعت کچھ بحال ہوئی، تو دوسرے روز وہ زیارتوں کے سفر میں ہمارے ساتھ شامل ہوگئیں۔ ان کے شوہر ان کا پورا خیال رکھ رہے تھے۔ ایک روز وہ اپنی اہلیہ کو جوس کا ڈبّا دینے آئے، تو دوسرا ڈبّا میری طرف بھی بڑھا دیا۔ میں نے ہچکچاہٹ دکھائی، تو عذرا باجی کہنے لگیں ’’فریدہ لے لو۔ تمہارا مجھ پر بڑا احسان ہے، یہ بتا رہے تھے کہ جب میری حالت اچانک بگڑ گئی تھی، تو تم نے سگی بہنوں کی طرح میرا خیال رکھا تھا۔‘‘

ان کے شوہر کہنے لگے ’’مجھے تو لگتا ہے کہ فریدہ بی بی تم سے ہمارا کوئی رشتہ ضرور ہے۔ تم نے تعلیم کہاں سے حاصل کی تھی؟‘‘میں نے جب سکھر کے کالج کا نام لیا، تو وہ جیسے اچھل پڑے۔ وہ 1970ء میں کیمسٹری میں ایم ایس سی کے بعد اسلامیہ کالج سکھر میں لیکچرار تھے اور میں نے بہ حیثیت اسٹوڈنٹ ان ہی سے پڑھا تھا۔ وہ میرے استاد اظہر صاحب تھے، جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی کے ایک پرائیویٹ کالج میں پرنسپل کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ اس وقت وہ نوجوان تھے اور میری ان سے 35 سال بعد اس مقدّس سرزمین پر دوبارہ ملاقات ہورہی تھی۔ وہ اس طویل عرصے میں اتنے بدل چکے تھے کہ وہ مجھے پہچان سکے تھے، نہ میں ان کو، حالاںکہ میرے حج گروپ میں شامل ہونے اور عذرا باجی کے شوہر ہونے کے ناتے ان سے سلام دعا اکثر ہوتی رہتی تھی۔ بہرحال، مجھے اپنے استاد سے مل کر بہت خوشی ہوئی کہ استاد اور شاگرد کو اللہ تعالیٰ نے ایک ساتھ حج کی سعادت سے سرفراز فرمایا۔

(فریدہ جیلانی، میرپورخاص)