سرورِ دوعالم ﷺ (حصہ اوّل)

November 11, 2018

جزیرہ نُما عرب کی سنگلاخ چٹانوں، صحرائے بے آب و گیاہ پر ایک ایسا مہینہ بھی سایہ فگن ہوتا ہے کہ جب پورا صحرا خوش بوئوں سے مہک اٹھتا ہے۔ خود رَو جھاڑیوں کے خُوش رنگ و خُوش نُما پھولوں کی مہک، فضا میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیر دیتی ہے۔ سمندر سے آنے والی معتدل ہوائیں چہار سُو پھیل کر، اہلِ عرب کو ماہِ ربیع الاوّل کی آمد کی نوید سُناتی ہیں۔ ربیع کے لغوی معنی، بہار کے ہیں، جب کہ ربیع الاوّل’’ پہلی بہار‘‘ کو کہتے ہیں۔ یہ مہینہ عرب کا سب سے خُوب صورت مہینہ ہے، چناں چہ اہلِ عرب بہار کے اس موسم کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ربیع الاوّل، تقویمِ اسلامی کا تیسرا مہینہ ہے۔ اللہ نے اپنے محبوبؐ، امام الانبیاءؐ، شہنشاہِ عرب و عجمؐ، صاحبِ لوح و قلمؐ، ہادیٔ اعظمؐ، سیّد البشرؐ، شافعِ محشرؐ، ساقیٔ کوثر ؐ، رحمتُ اللعالمینؐ، فخرِ موجوداتؐ، وجہِ تخلیقِ کائناتؐ، رسالتِ مابؐ، حضرت محمّد مصطفیٰؐ، احمدِ مجتبیٰﷺ کی دنیا میں آمد کے لیے اس بابرکت مہینے کو منتخب فرمایا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب کرۂ ارض پر ظلم و ستم اور تاریکی کا راج تھا۔ پوری انسانیت سخت اضطراب، انتشار اور انتہائی زوال و انحطاط کا شکار تھی۔ شرک، بُت پرستی، جنگ و جدل، لُوٹ مار، شراب و زنا اور جوئے جیسی بدکاریوں، علّتوں میں ڈوبی دنیا آخری سانسیں لے رہی تھی۔ حالات اس نہج پر پہنچ چُکے تھے کہ اللہ کی دراز کردہ رسّی کسی بھی لمحے کھینچی جا سکتی تھی۔ واقعۂ فیل کو ابھی صرف پچاس دن ہی گزرے تھے کہ اللہ نے نوعِ انسانی کو تباہی و بربادی کے گہرے غاروں سے نجات دِلانے کے لیے اپنے محبوبؐ کے ظہور کا فیصلہ کر لیا اور پھر ربیع الاوّل کا مہینہ، دوشنبے کا دن اور صبحِ صادق کی ضیا بار گھڑی تھی کہ جب آفتابِ رسالتؐ کی تاب ناک کرنیں جزیرۂ عرب پر ضَوفگن ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے خورشیدِ اسلام کی درخشاں شعاؤں نے پوری دنیا کو روشن و منور کر دیا۔

علّامہ شبلی نعمانی، آنحضرتؐ کی ولادتِ باسعادت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں’’ اُس رات ایوانِ کسریٰ کے چودہ کنگرے گر گئے۔ آتش کدۂ فارس بُجھ گیا۔ دریائے ساوہ خشک ہو گیا، لیکن یہ سچ ہے کہ ایوانِ کسریٰ ہی نہیں، بلکہ شانِ عجم، شوکتِ روم، اوجِ چین کے قصر ہائے فلک بوس گر پڑے۔ آتش کدۂ فارس ہی نہیں، بلکہ آتش کدۂ کفر، آذر کدہ ٔگم رہی سرد ہو کر رہ گئے۔ صنم خانوں میں خاک اُڑنے لگی۔ بُت کدے خاک میں مل گئے، شیرازۂ مجوسیّت بکھر گیا، نصرانیّت کے اوراقِ خزاں دیدہ ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ توحید کا غلغلہ اٹھ گیا، چمنستانِ سعادت میں بہار آ گئی، آفتابِ ہدایت کی شعائیں ہر طرف پھیل گئیں۔ اخلاقِ انسانی کا پرتو قدس سے چمک اٹھا۔ یعنی یتیم عبداللہ، جگر گوشۂ آمنہ، شاہِ حرم، حکم رانِ عرب، فرماں روائے عالمؐ، شہنشاہِ کونینؐ، عالمِ قدس سے عالمِ امکان میں تشریف فرما ہوئے‘‘( سیرت النبیؐ ، جلد اوّل، ص 104)۔ شاعرِ مشرق، علّامہ اقبالؒ نے آنحضرتؐ کی شان میں گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہوئے کیا خُوب کہا۔؎ لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب…گُنبدِ آبگینہ رنگ، تیرے محیط میں حباب…عالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ…ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب۔

ابن ِسعد کی روایت ہے کہ’’ رسول اللہﷺ کی والدہ ماجدہ، بی بی آمنہ نے فرمایا کہ’’ جب آپؐ کی ولادت ہوئی، تو میرے جسم سے ایک نور نکلا، جس سے مُلکِ شام کے محل روشن ہو گئے۔‘‘ والدہ نے دادا، عبدالمطلب کے پاس پوتے کی ولادت کی خُوش خبری بھجوائی، تو خوشی سے نہال ہو گئے۔ شاداں و فرحاں گھر تشریف لائے، تو دیکھا کہ پورا گھر مُسحور کُن خُوش بوئوں سے مہک رہا ہے، نور سے منور ہے۔ پوتے کو گود میں لے کر خانۂ کعبہ میں آئے اور دیر تک اللہ کے حضور دُعائیں کرتے رہے۔ پھر ’’محمّد‘‘ نام رکھا، جو عرب میں معروف نہ تھا۔‘‘ ابنِ سعد نے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ’’ آپؐ کا نام ’’احمد‘‘ رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی، چناں چہ والدہ نے’’احمد‘‘ نام رکھا۔‘‘ آپؐ کے والد، حضرت عبداللہ، آپؐ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا چُکے تھے۔ روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ، بی بی آمنہ سے نکاح کے بعد عرب کے رواج کے مطابق سُسرال تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام فرمایا اور پھر وہاں سے تجارت کی غرض سے شام چلے گئے۔ واپسی پر مدینہ میں قیام فرمایا تاکہ کھجوروں کا سودا کر سکیں۔ اسی دَوران آپ بیمار ہو گئے۔ والد، عبدالمطلب کو اطلاع ملی، وہ فوراً بڑے بیٹے کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے، لیکن اُن کے پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عبداللہ کا انتقال ہو چُکا تھا۔ شروع میں آپؐ نے اپنی والدہ محترمہ کا دودھ پیا، پھر آپؐ کے چچا، ابولہب کی لونڈی، ثوبیہ نے آپؐ کو دودھ پلایا۔ بعدازاں، عرب کے دستور کے مطابق آپؐ کو پرورش کے لیے بنو سعد کی ایک خاتون، حضرت حلیمہ سعدیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ جب بنو سعد کی خواتین کا قافلہ مکّہ روانہ ہوا، تو اہلِ قافلہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ حلیمہ کی وہ مریل، کم زور اور بیمار سواری، جو آنے میں سب سے پیچھے تھی، واپسی پر اپنی برق رفتاری کی وجہ سے سب سے آگے تھی۔ حضرت حلیمہ کہتی تھیں کہ’’ محمد(ﷺ) کے آنے سے ہمارے گھر میں خوش حالی اور برکت کے ایک نئے دَور کا آغاز ہوا۔‘‘

واقعہ شقّ ِ صدر

ابھی آپؐ بنو سعد میں حضرت حلیمہ سعدیہ کے گھر ہی پر تھے کہ شقّ ِ صدر کا(سینۂ مبارک کا چاک کیا جانا) واقعہ پیش آیا۔ حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ ’’رسول اللہؐ بچّوں میں کھیل رہے تھے کہ حضرت جبرائیلؑ تشریف لائے۔ اُنہوں نے آپؐ کو لٹا کر سینۂ مبارک چاک کر کے دِل نکالا، پھر اُس میں سے ایک لوتھڑا نکال کر دِل کو ایک طشت میں زَم زَم کے پانی سے دھویا، جو ساتھ لائے تھے اور پھر دِل کو واپس اپنی جگہ پر رکھ کر اُسے جوڑ دیا۔ بچّے یہ منظر دیکھ کر ڈر گئے اور دَوڑ کر حلیمہ سعدیہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ ’’محمد(ﷺ) کا قتل ہو گیا ہے،‘‘ گھر کے لوگ جھٹ پٹ پہنچے، دیکھا کہ آپؐ کا رنگ اُترا ہوا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، باب الاسراء)۔ اُس وقت آپؐ کی عُمرِ مبارک چار یا پانچ سال تھی۔ اس واقعے کے بعد، حضرت حلیمہکو خطرہ محسوس ہوا اور اُنہوں نے آپؐ کو والدہ ،یعنی بی بی آمنہ کے حوالے کر دیا۔ چناں چہ آپؐ چھے برس تک والدہ کی آغوشِ محبّت میں رہے۔(ابنِ ہشام)۔ حضرت حلیمہ سعدیہ سے حضورﷺ کی محبّت کا یہ عالم تھا کہ اعلانِ نبوّت کے بعد جب وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتیں، تو آپؐ سب کام چھوڑ کر اُن کا استقبال کرتے اور فرطِ محبّت سے’’میری ماں، میری ماں‘‘ کہتے ہوئے اُن سے لپٹ جاتے، اُن کے لیے اپنی چادر بچھاتے، خاطر مدارات کرتے اور اسی محبّت کا اظہار اپنے رضاعی بہن، بھائیوں کے ساتھ بھی کرتے۔

والدہ کی جدائی

ابنِ سعد اور ابنِ اسحاق کے مطابق، آپؐ کی عُمرِ مبارک چھے برس تھی کہ جب بی بی آمنہ، آپؐ کے دادا، حضرت عبدالمطلب کے ننھیال، بنی عدی بن نجار سے ملانے کے لیے آپؐ کو امّ ِ ایمن کے ساتھ مدینہ لے گئیں۔ ابن ہشام نے لکھا کہ’’ آپ اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کے لیے یثرب تشریف لے گئی تھیں۔‘‘ بہرحال، بی بی آمنہ نے آپؐ کو آپؐ کے والد، حضرت عبداللہ کی قبر دِکھائی۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد، ایک موقعے پر نبی کریم ﷺ بنی عدی بن نجار کے علاقے میں گئے، تو آپؐ نے فرمایا ’’مَیں اس جگہ پر اپنی والدہ کے ساتھ مقیم رہا اور اس گھر میں میرے والد کی قبر ہے، مَیں یہاں اپنے دادا کے ننھیال کے بچّوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔‘‘بی بی آمنہ ایک ماہ یثرب میں گزار کر مکّہ واپس ہوئیں۔ ابھی آدھا سفر باقی تھا کہ یثرب اور مکّہ مکرّمہ کے درمیان ایک سُنسان پہاڑی علاقے’’ابواء‘‘ میں طبیعت خراب ہوئی اورخالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ذرا تصوّر کیجیے، چھے سالہ معصوم بچّے نے جب اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی متاعِ عزیز، ماں کو خود سے جدا ہوتے ہوئے دیکھا ہوگا، تو دلِ بے قرار پر کیا گزری ہو گی…؟؟ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ’’آپؐ اپنی والدہ کی قبر سے چمٹ گئے، لبوں پر’’میری ماں، میری ماں‘‘ کے الفاظ تھے، آنکھیں اشک بار تھیں۔ امّ ِ ایمن آپؐ کو قبر سے ہٹا کر اونٹنی پر بٹھانے کے لیے سرگرداں تھیں، مگر حضورؐ والدہ کے بغیر جانے پر تیار نہ تھے۔ امّ ِ ایمن کی مسلسل کوششوں سے آپؐ اونٹ پر بیٹھے اور بہتے اشکوں کے ساتھ بغیر ماں کے مکّے کی طرف روانہ ہوئے اور دُور تک پیچھے مُڑ مُڑ کر ماں کی آخری آرام گاہ کی جانب دیکھتے رہے۔‘‘ابنِ سعد کا بیان ہے کہ’’ حدیبیہ کے موقعے پر جب حضورؐ’’ابواء‘‘ کے مقام سے گزرے، تو آپؐ اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے۔ قبر درست کرتے ہوئے بے اختیار آپؐ پر رقّت طاری ہو گئی اور آنکھوں سے آنسوئوں کا سیلاب اُمڈ آیا۔ آپؐ کی یہ حالت دیکھ کر صحابہؓ بھی آب دیدہ ہو گئے۔ اس موقعے پر آپؐ نے فرمایا’’اس وقت مجھے شدّت سے اپنی ماں کی محبّت یاد آ رہی ہے۔‘‘آپؐ رحمت اللعالمین تھے۔ اللہ نے آنے والی امّت کی رہنمائی کے لیے اپنے محبوبؐ کو چھوٹی سی عُمر ہی میں دنیا کی ہر آزمائش سے سُرخرو فرمایا۔

دادا کی کفالت میں

امّ ِ ایمن نے مکّہ پہنچ کر حضورﷺ کو دادا کے حوالے کیا۔ اُنہوں نے سینے سے لگایا اور نازو نعم سے پرورش کرنے لگے، مگر مشیّتِ الٰہی تھی کہ دو یا تین سال بعد ہی مشفق دادا بھی انتقال فرما گئے۔ مرنے سے پہلے دادا نے اپنے لاڈلے اور چہیتے پوتے کو آپؐ کے چچا، ابو طالب کے سُپرد کر دیا۔

چچا ابو طالب کی سرپرستی میں

9 سال کی عمر میں آپؐ، چچا ابو طالب کی سرپرستی میں آئے۔ ابو طالب آپؐ سے اپنے بچّوں سے بھی زیادہ محبّت کرتے تھے۔ 583عیسوی میں آپؐ کی عُمرِ مبارک12سال تھی، جب آپؐ نے چچا، ابو طالب کی معیّت میں زندگی کا پہلا تجارتی سفر شام کی جانب کیا۔ اسی سفر میں عیسائی راہب، ’’بحیرہ‘‘ نے شناخت کرتے ہوئے آپ ؐ کو سیّد المرسلینؐ، سیّد العالمینؐ کے نام سے پکارا اور مزید آگے سفر نہ کرنے کی تلقین کی۔ چناں چہ ابو طالب نے آپؐ کو واپس مکّہ روانہ کر دیا۔586عیسوی میں عُمرِ مبارک 15سال تھی، جب اپنے چچائوں کے ساتھ جنگِ فجار میں شرکت کی۔ جنگ سے واپسی پر مظلوموں کی حمایت اور حرمتِ کعبہ کے لیے ہونے والے معاہدے’’حلف الفضول‘‘ میں شرکت کی۔595عیسوی میں25سال کی عُمر میں حضرت خدیجہؓ بنتِ خویلد کا تجارتی مال لے کر مُلکِ شام گئے۔ وہاں آپؐ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے سبب حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کو شادی کا پیغام بھیج دیا۔ اُس وقت تک آپؐ امین اور صادق کے لقب سے مشہور ہو چُکے تھے۔ شادی کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عُمر40سال اور آپؐ کی25سال تھی۔

حضورﷺ کی اولاد

آنحضرتؐ کو اللہ تعالیٰ نے تین صاحب زادوں اور چار صاحب زادیوں سے نوازا۔ آپؐ کی ساری اولاد ماسوائے حضرت ابراہیم کے (جن کی والدہ ماریہ قبطیہؓ تھیں) حضرت خدیجہؓ کے بطن سے ہوئی، جن میں دو صاحب زادے، حضرت قاسم اور حضرت عبداللہ ہیں۔ آپؐ کے تینوں صاحب زادے کم سِنی ہی میں انتقال فرما گئے تھے، جب کہ چاروں صاحب زادیاں، حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت امّ ِ کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ سنِ بلوغت کو پہنچیں۔ چاروں کی شادیاں ہوئیں، ہجرت کی اور جنّت البقیع میں مدفون ہوئیں۔

حجرِ اسود کی تنصیب

605عیسوی میں آپؐ کی عُمرِ مبارکہ35سال تھی، جب خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت آپؐ کو تنصیبِ حجرِ اسود کا شرف حاصل ہوا۔ آپؐ کے حُسنِ تدبّر، حکمت اور بروقت فیصلے نے قریش کے مختلف قبائل کو ایک بڑی خون ریز تباہی سے بچا لیا۔

تاجِ نبوّت

610عیسوی میں آپؐ چالیس سال کے تھے کہ جب جبلِ نور کے’’ غارِ حرا‘‘ میں ماہِ رمضان کے مقدّس اور بابرکت مہینے میں اللہ ربّ العزّت نے آپؐ کے سر پر نبوّت کا تاج سجایا اور وحی کا آغاز ہوا۔ اس سے6ماہ پہلے سے آپؐ کو سچّے خواب دکھائی دینے لگے تھے۔ حکمت کے تقاضوں کے پیشِ نظر شروع کے تین سال تبلیغ کے کام کو خفیہ رکھا گیا۔ حضورؐ نے دعوت دینے کا کام اپنے گھر سے شروع کیا، چناں چہ اوّلین مسلمانوں میں حضرت خدیجہؓ، حضرت ابوبکرؓ، حضرت علیؓ اور حضرت زید بن حارثہؓ نے اسلام قبول کیا۔ جبلِ صفا کے دامن میں حضرت ارقم بن ابی ارقمؓ کے مکان’’ دارِ ارقم‘‘ کو دینِ حق کی تعلیم و تربیت کا پہلا مسکن بننے کا شرف حاصل ہوا۔ ( جاری ہے)