شانِ مصطفیٰ ﷺ اور اُس کے تقاضے

November 18, 2018

ڈاکٹر حافظ محمد ثانی

یہ ایک تاریخی، ابدی حقیقت ہے کہ رہبرِ آدمیت، محسنِ انسانیت، ہادیِ اعظم حضرت محمدﷺ کے ظہورِ قُدسی سے عالم نو طلوع ہوا،انسانیت کی صبح سعادت کا آغاز ہوا،جب آپؐ نے اس جہان میں قدم رکھا، اُس وقت سے تاریخ عالم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔دنیا میں آپؐ کی تشریف آوری سے ایک تاریخ ساز اور مثالی دور کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا انقلاب رونما ہوا، جس نے انسانی عزت و وقار بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی اور احترامِ انسانیت کو عام کیا۔انسانیت کو توحید کے نور سے منوّر کرکے کفر و شرک، ظلمت و جہالت کے اندھیروں،تاریکیوں کو دور کیا۔ محسن ِانسانیت ﷺ نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا، اس کی عزت و آبروبحال کی، اس کے شرف و منزلت اور تکریم کا اعلان کیا۔ احترام انسانیت کا درس عام کیا۔ ظلم و جبر، استحصال، طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑے انسانوں کو حرّیت، عزت و وقار اور مساوات کا پیغام دیا۔ آپؐ نے اسے بتایا کہ تیری حرمت کعبے سے افضل ہے۔ تو زمین پر اللہ کا نائب اوراس کا خلیفہ ہے، تو مسجودِ ملائک اور اشرف المخلوقات ہے، یہ دنیا، یہ کائنات اور قدرت کے یہ مناظر تیرے لیے ہیں اور تُو اپنے پروردگار کی بندگی کے لیے بھیجا گیا ہے، اس طرح آپؐ نے انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر اسے اللہ کی بندگی اور صراط ِمستقیم پر گام زن کیا۔ اسے بندگی کا شعور اور خود آگہی کا مثالی درس دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان، جو لاعلمی اور خود فریبی کی بناء پر پہلے مٹّی کے بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتا تھا، بعدازاں پہاڑ اس کی ہیبت سے رائی بنے، جو انسان پتھرکی مورتیوں اور اَن جانی قوتوں کے خوف سے جاں بلب تھا، صحرا اور دریا اس کی ٹھوکر سے دونیم ہوئے۔حقیقت تو یہ ہے کہ کائنات کا اعتبار ہو یا انسانیت کی تکریم، اس کی عزت و وقار کی بحالی ہو، یا شرف و منزلت اور دین و دنیا میں اس کی کام یابی، علم کی اشاعت ہو یا تہذیب و تمدّن کا عروج، یہ سب کچھ صاحبِ لولاک، ہادی اعظم، سیّدِ عرب و عَجم حضرت محمد ﷺ کے دم قدم سے ہے۔ یہ عالم انسانیت پر رہبر آدمیت، محسن انسانیتؐ کے وہ احسانات ہیں، جنہیں تاریخِ انسانیت کبھی فراموش نہیںکرسکتی۔ آپؐ عالم انسانیت کی آبرو اور اس کا وقار ہیں۔ آپؐ انسانیت کی آبرو بڑھانے اور اسے دین کی اس روشن ودرخشاں راہ پر گام زن کرنے کے لیے تشریف لائے، جو صراطِ مستقیم اور دین و دنیا کی کامیابی و سرفرازی کا راستہ ہے۔ ایسا روشن راستہ جس میںکہیں ظلمت اور تاریکی کا گزر نہیں اور یہی راستہ انسانیت کی فلاح اور نجات کی کلید ہے۔

یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ محسنِ انسانیتﷺ نے انسانیت کو نئی زندگی، نیا حوصلہ، نئی طاقت، عزت و عظمت اور نئی منزل سفر عطا کی۔آپؐ کی آمد سے تہذیب و تمدن، علم و فن، روحانیت و اخلاص اور تعمیر انسانیت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔انسانی معاشرے کو ایک بے بہا دولت عطا ہوئی،انسانیت کو نئی زندگی ملی، عدل و انصاف کا دَور دَورہ ہوا، کم زوروں میں طاقت وروں سے اپنا حق وصول کرنے کی ہمّت و طاقت پیدا ہوئی، ہر سُوالفت و محبت کی خوشبو پھیل گئی، ایمان و یقین کی ہوائیں چلنے لگیں۔انسانی قلوب نیکی اور بھلائی کی طرف ایسے کھنچنے لگے، جیسے مقناطیس کی طرف لوہے کے ٹکڑے کھنچتے چلے جاتے ہیں۔آپؐ نے انسانیت کی تعمیر، اس کی فلاح اور کردار سازی میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ مغرب کا نامور مورخ جان ولیم ڈریپر یورپ کی ذہنی و علمی تاریخ کے ضمن میں اعترافِ حقیقت کے طور پر لکھتا ہے:’’ جسٹی نین کی موت کے چار سال بعد سرزمین عرب کے شہر مکے میں وہ ہستیؐ پیدا ہوئی، جس نے نسل انسانی پر سب سے زیادہ اثر ڈالا‘‘۔

ان تمام احسانات کا تقاضا یہ ہے کہ پوری دنیائے انسانیت بلاتفریقِ مذہب و ملّت آپؐ کو اپنا ہادی و رہبر، نجات دہندہ اور محسن تسلیم کرے۔آپؐ کے ادب و احترام اور عزت و توقیر کے تقاضے پورے کرے۔ آپؐ کی عظمت و ناموس اور شرف و بزرگی کو سمجھے۔آپؐ انسانیت کے محسن اعظم ہیں،اب دنیائے انسانیت پر یہ لازم ہے کہ آپؐ کی عزت و توقیر اور تکریم کو اپنا انسانی اور اخلاقی فریضہ تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی عظمت کا اعتراف کرے، یہ انسانیت پر ایک ایسا قرض ہے جو اس پر ہمیشہ رہے گا۔ جب کہ یہ بھی ایک ابدی حقیقت ہے کہ آپؐ کی سب سے نمایاں خصوصیت و امتیاز آپؐ کا امام الانبیاء، سیّد المرسلین اور خاتم النبیین ہونا ہے،آپؐ کی دعوت، آپؐ کا پیغام اور دینِ اسلام آفاقی اورکائناتی ہیں۔ آپؐ بنی نوع آدم اور پورے عالم انس و جنّ کے لیے ہادئ اعظم اور خاتم الانبیاء بناکر مبعوث فرمائے گئے،آپؐ پر دین کی تکمیل کردی گئی، اب پوری انسانیت آپؐ کی امّت اور آپؐ پوری انسانیت کے بشیر و نذیر اور نجات دہندہ ہیں، قرآن کریم میں اس حوالے سے ارشاد فرمایا گیا: ’’اور ہم نے آپؐ کو تمام انسانوں کے لیے خوش خبری سُنانے والا اور آگاہ کرنے والا بناکر بھیجا ہے‘‘۔ (سورۂ سبا؍ 28)آپؐ کی نبوّت ورسالت کی آفاقیت اور عالمگیریت کے حوالے سے ارشادِ ربّانی ہے: ’’کہہ دیجیے، اے لوگو، میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغام دے کر بھیجا گیا ہوں۔ (سورۃ الاعراف؍ 158)۔ایک اور مقام پر فرمایا گیا: ’’برکت والا ہے وہ (اللہ) جس نے حق و باطل میں امتیاز کرنے والی کتاب اپنے بندے حضرت محمدؐ پر نازل کی، تاکہ وہ دنیا جہاں کے لیے باخبر اورآگاہ کرنے والا ہو‘‘۔ (سورۃ الفرقان؍1) ۔ہادی اعظم، حضرت محمد ﷺ پوری انسانیت کے لیے نبی بناکر مبعوث فرمائے گئے، بے شمار احادیث سے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے، آپؐ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’میں کالے اور گورے (مشرق و مغرب) تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں‘‘۔ (احمد بن حنبل، المسند 416/4)۔ایک موقعے پر آپؐ نے اپنی پیغمبرانہ خصوصیت کے حوالے سے ارشاد فرمایا:’’میں تمام انسانوں کی طرف (نبی بناکر) بھیجا گیا ہوں، حالانکہ مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء مبعوث ہوئے، وہ خاص اپنی قوم کی طرف بھیجے جاتے تھے‘‘۔ (حوالہ سابقہ)۔رسول اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے، پہلے (گزشتہ زمانوں میں) ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیے جاتے تھے اور میں تمام انسانیت کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ (بخاری/ الجامع الصحیح 68/1)۔آپؐ دعائے خلیلؑ، تمنائے کلیمؑ اور نوید عیسیٰؑ ہیں۔ ہادی آخر و اعظم،حضرت محمد ﷺ وہ عظیم المرتبت پیغمبر ہیں، جن کی نبوت، عزت و توقیر، ایمان و اعانت کا اللہ نے تمام انبیائے کرامؑ سے عہد لیا تھا، اس لحاظ سے تمام الہامی مذاہب اور پوری انسانیت پر یہ دینی اور انسانی فریضہ ہے کہ وہ آپؐ کی نبوت کا اعتراف کریں،آپؐ کی عزت و توقیر اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھیں،ارشادِ ربّانی ہے: ’’اور جب اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور دانائی عطا کروں، پھر تمہارے پاس کوئی نبی (حضرت محمدؐ) آئیں، جو تمہاری کتاب کی تصدیق کریں، تو تمہیں ضرور ان پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور ان کی مدد کرنی ہوگی اور (عہد لینے کے بعد) پوچھا کہ کیا تم نے اس کا اقرار کیا اور اس اقرار پر میرا ذمہ لیا (یعنی مجھے ضامن ٹھہرایا) تو انہوں نے کہا (ہاں) ہم نے اقرار کیا (اللہ نے) فرمایا کہ تم اس عہد و پیمان کے گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں‘‘۔ (سورۂ آل عمران؍ 81) ۔اللہ تعالیٰ سے یہ عہد تمام انبیائے کرامؑ نے کیا تھا، نتیجے کے طور پر ہر نبی کی امّت کا یہ دینی فریضہ ہے کہ وہ اس عہد کی توثیق و تکمیل کرے، بالخصوص یہودیت اور عیسائیت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اس ابدی صداقت کو تسلیم کرتے ہوئے آپؐ کی نبوت پر ایمان لائیں،آپؐ کی عزت و توقیر، ادب و احترام، آپؐ کی نبوت پر ایمان اور دین اسلام کو ایک ابدی ضابطۂ حیات کے طور پر تسلیم کرنا،پوری انسانیت کا بالعموم اور اہل کتاب اور مسلمانوں کا بالخصوص یہ دینی اور انسانی فریضہ ہے۔آپؐ کی عزت و ناموس کا تحفّظ اور آپؐ کا ادب و احترام انسانیت کا دینی اوراجتماعی فریضہ ہے۔ توریت اور انجیل میں رسول اللہ ﷺ کا بطور خاص تذکرہ کرکے اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ ان میں سے جو رسول اللہﷺ کی نبوت پر ایمان لاتے، آپؐ کی مدد اور ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہیں، وہی درحقیقت فلاح پانے والے ہیں۔ ارشادِ ربّانی ہے: ’’وہ جو (محمد رسول اللہﷺ) کی جو نبی امّی ہیں، پیروی کرتے ہیں،جن (کے اوصاف) کو وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے اور برے کاموں سے روکتے ہیں اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں اور ان پر سے بوجھ اور طوق جو ان (کے سر) پر (اور گلے میں) تھے، اتارتے ہیں، تو جو لوگ ان پر ایمان لائے اور ان کی رفاقت کی اور انہیں مدد دی اورجو نُوران کے ساتھ نازل ہوا ہے، اس کی پیروی کرتے ہیں، وہی مراد پانے والے ہیں۔‘‘ (سورۃ الاعراف؍ 157,156)

ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ ختمی مرتبت، محسنِ انسانیت، حضرت محمدﷺ کی نبوّت، آپؐ کا پیغام اور آپؐ کا دین عالمگیر ہے۔ تمام الہامی مذاہب کے پیروکاروں پر بہ طورِ خاص آپؐ پر ایمان لانا، آپؐ کی عزّت و توقیر اور ادب و احترام فرض ہے۔ آپؐ کی عزّت و تکریم یہودیت، عیسائیت، اسلام اور پوری انسانیت کا اجتماعی فریضہ ہے۔ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی عظیم المرتبت شخصیّت پوری انسانیت کی عالمی اور مشترکہ میراث ہیں۔ یہ انسانیت پر ایک قرض اور فرض ہے۔ تمام انبیائے کرامؑ نے اپنی اُمّتوں کو آپؐ کی عزّت و عظمت، ادب و احترام، اعانت و نصرت اور آپؐ کی نبوّت پر ایمان لانے کی تعلیم دی ۔ انہیں اس کا پابند قرار دیا کہ وہ آپؐ کی نبوّت پر ایمان لائیں،آپؐ کی نبوّت کا احترام کریں، آپؐ کے دِین کو قبول کرکے اس کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ درحقیقت اللہ عزّوجل کا تمام انبیائے کرامؑ سے اور انبیائے کرامؑ کا اپنی اُمّتوں سے وہ میثاق تھا، جسے توریت، انجیل اور قرآنِ کریم نے پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں، دیگر مذاہب، جنہیں غیر الہامی مذاہب سے تعبیر کیا جاتا ہے،اُن کی مقدّس کتابیں بھی ایک نجات دہندہ کی آمد اور ایک عظیم المرتبت ہستی کے ظہورِ قدسی کے متعلق شہادتیں دیتی رہی ہیں۔ یہ تاریخی حقائق آج بھی اُن کی مقدّس کتابوں میں موجود ہیں۔

اس لحاظ سے الہامی اور غیر الہامی مذاہب، تمام انسانی معاشروں، مہذّب اقوام اور پوری امّت کا یہ فریضہ ہے کہ وہ آپؐ کی عزّت و توقیر، ادب و احترام اور ناموس و وقار کو ملحوظ رکھیں۔آپؐ کی عظمت کو تسلیم کریں۔آپؐ کی عزّت و تکریم پوری انسانیت کی ذمّے داری ہے۔

آپؐ ہی وہ عظیم المرتبت پیغمبر اور نجات دہندہ و محسنِ انسانیت ہیں، جن کی بدولت انسانیت کو دین ودنیا کی فلاح اور آخرت میں نجات کی راہ ملی۔ آپؐ کی شخصی عظمت پر مسلم ہی نہیں، دنیا کے مشاہیر اور غیر مسلم دانش وَر بھی متّحد و متّفق ہیں، مغرب کے نام وَر دانش وروں نے آپؐ کے حضور خراجِ عقیدت پیش کرتے ہُوئے آپؐ کی عظمت کو تسلیم کیا ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ ہی پوری انسانیت میں سب سے برتر، سب سے زیادہ لائقِ تکریم، عزّت و توقیر اور عظمت و احترام کے مستحق ہیں۔ آپؐ کا ادب و احترام پوری انسانیت پر لازم ہے۔ یہ ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے، جس کا اعتراف مذاہبِ عالم کے غیر مسلم دانش وَروں کو بھی ہے۔مشہور ہندو شاعر، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کیا خوب کہتے ہیں ؎عشق ہوجائے کسی سے ، کوئی چارہ تو نہیں.....صرف مسلم کا محمدؐ پہ اجارہ تو نہیں۔ اورشیش چندر سکسینہ نے بھی کس قدر دل سے اعتراف کیا؎یہ ذاتِ مقدّس تو ہر انساں کو ہے محبوب.....مسلم ہی نہیں وابستۂ دامانِ محمدؐ۔

معروف امریکی دانش وَر، ڈاکٹر میخائیل ایچ ہارٹ اور اس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ بیوی نے دنیا کی مشہور و معروف شخصیّات کی سوانح ِحیات کا مطالعہ کیا، اس مطالعے کے بعد انہوں نے ’’The 100‘‘ نامی کتاب لکھی، ان کے بقول اس کتاب میں انسانی تاریخ کی ایک سو اعلیٰ ترین شخصیّات کے حالات درج ہیں۔ جنہوں نے ان کے نزدیک انسانی تاریخ پر نمایاں ترین اثرات ڈالے، اس کتاب میں پیغمبرِ اسلام، حضرت محمد ؐ کے تذکرے کو سرِفہرست اور پہلے نمبر پر رکھا گیا ہے، کیوں کہ وہ تاریخ کے سب سے عظیم المرتبت، سب سے عظیم انسان ہیں۔ موصوف رقم طراز ہے:’’پوری انسانی تاریخ میں محمدؐ وہ واحد شخصیّت ہیں، جو دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے غیر معمولی طور پر کام یاب و کام ران اور سرفراز ٹھہرے۔‘‘ فرانسیسی محقّق اور دانش وَر ڈاکٹر گستا ولی بان ’’تمدّنِ عرب‘‘ میں لکھتا ہے:’’اگر اشخاص کی زندگی، بُزرگی اور عظمت کا اندازہ اُن کے کارناموں سے لگایا جاسکتا ہے، تو ہم لکھیں گے کہ حضرت محمدؐ انسانی تاریخ میں سب سے عظیم شخصیّت گزرے ہیں۔‘‘ہندو سیرت نگار، سوامی لکشمن پرشاد اپنی کتاب ’’عرب کا چاندؐ‘‘ میں رقم طراز ہے: ’’دنیا کی اُن جلیل القدر ہستیوں میں جن کے اسمائے گرامی ہاتھ کی اُنگلیوں پر شمار کیے جاسکتے ہیں، سرورِکائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی اعتبار سے ایک خاص امتیاز حاصل ہے۔‘‘کمپیوٹر سافٹ ویئر تیار کرنے والی دنیا کی مشہور کمپنی ’’Micro Soft‘‘ نے اکیسویں صدی عیسوی کے آغاز پر پوری دنیا سے یہ سوال کیا کہ ’’دنیا کی سب سے عظیم ترین شخصیّت کون ہے؟ جس نے اپنے فِکر و عمل سے انسانی تاریخ اور انسانی زندگی پر گہرے نقوش مرتّب کیے، اور دنیائے انسانیت اس سے متاثر ہُوئی۔ اس کے جواب میں دنیا کے بیش تر افراد نے رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو انسانی تاریخ کی سب سے عظیم المرتبت شخصیت قرار دیا۔ رائے دہندگان میں بیش تر افراد کا تعلّق مغربی دنیا سے تھا۔‘‘اس لحاظ سے یہ کہنا بالکل دُرست ہے کہ رسولِ اکرم حضرت محمدﷺ تمام انبیائے کرامؑ، آسمانی کُتب کی شہادت، یہودیت اور عیسائیت، دنیا کے دیگر مذاہب، تمام انسانی معاشروں اور مہذّب اقوام کے نزدیک سب سے عظیم المرتبت ہستی ہیں۔ دنیائے انسانیت پر آپؐ کے سب سے زیادہ احسانات ہیں، آپؐ خاتم الانبیاء، سیّدالمرسلین اور محسنِ انسانیت ہیں۔ ان تمام حقائق کا تقاضا یہ ہے کہ مشرق و مغرب، تمام مذاہب اور پوری انسانیت آپؐ کی عزّت و توقیر، ادب و احترام، عظمت و ناموس اور شان و وقار کو ملحوظ رکھے۔ یہ انسانیت کا اجتماعی فریضہ ہے۔ جب کہ اہلِ ایمان کے دل سرورِ کائنات ﷺکی محبت کے چراغ سے روشن رہتے اور اُن کے گلستان عقیدتِ نبیؐ کی خُوشبوئوں سے مہکتے اور لہلہاتے ہیں۔ ان کے دِلوں کی دھڑکن اور ہر سانس کی آمد رسولِ اکرمﷺ کی محبت، آپؐ کی عظمت اور آپؐ کے ذکر سے مشروط ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہادیِ عالم، سرورِکائنات حضرت محمدﷺ کی عزّت و توقیر، آپؐ کا ادب و احترام، آپؐ کی شان اور ناموس کا تحفّظ اور آپؐ کی عزّت و تکریم بِلاتفریقِ مذہب و ملّت پوری انسانیت کا دینی، اَخلاقی اور اجتماعی فریضہ ہے ؎کی محمدؐ سے وفا تُونے، تو ہم تیرے ہیں.....یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں۔