ناہید خان مقدمہ بنام صدر پاکستان

December 15, 2012

پاکستان پیپلز پارٹی کی متحرک، ان دنوں رزم آرا کارکن اور محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان کے ساتھ ملاقات متوازن اور خوشگوار رہی۔ مجلس میں ان کے رفیق حیات صفدر عباسی اور سیاسی ساتھی عبدالقادر شاہین بھی تشریف رکھتے تھے۔ ناہید بی بی سے میں نے آغاز ہی میں کہہ دیا” جو آف دی ریکارڈ ہے وہ انشاء اللہ آف دی ریکارڈ ہی رہے گا البتہ ہمارے اختلاف رائے کو ذاتی رابطے کی قربان گاہ نہیں بننا چاہیے۔ جو بھی خیال ہے، جیسا بھی نظریہ ہے، امید ہے ہم دونوں ایک دوسرے کو برداشت کریں گے۔“ افسوس اس وقت میں بی بی شہید کو ”برداشت“ کا عالمی ایوارڈ دیئے جانے کی بات نہ کرسکا۔ میں نے ان سے کہا ”ہمیں واقعات کی تاریخی شہادت تسلیم کرنے کی عادت اپنانی چاہیے۔ ماضی قریب سے آپ اپنی جماعتی قیادت خصوصاً صدر کے سلسلے میں بہت ہی تلخ نوا ہو چکی ہیں۔ اس ماضی قریب میں آپ نے پیپلز پارٹی، بی بی کی شہادت، وصیت اور دیگر حوالوں سے جو کہا وہ تو کہا مگر اس میں صدر کی ذات ہی آپ کا اصل ہدف رہی۔ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے جن افراد نے جس دو ر میں بھی، جس بھی پس منظر اور انداز کے ساتھ پارٹی کو خدا حافظ کہا اس کے بعد ان کے سیاسی کیریئر کی گواہی کیا ہے؟ ان میں سے کوئی بھی، کہیں بھی موجود نہیں۔
ناہید خان نے میرے نقطہ نظر کو حسب معاہدہ تحمل اور قبولیت سے سنا۔ چنانچہ میں نے پارٹی چھوڑنے والوں کے نام گنوانا شروع کئے۔ ظاہر ہے ترتیب پر قطعی زور نہیں تھا، آپ بھی اس جھنجھٹ میں نہ پڑیں میری دلیل کو صرف ٹریک ریکارڈ کی روشنی میں پرکھنے کی زحمت فرمائیں۔
جو کردار یادداشت کی لوح پر ابھرے وہ یہ تھے ”مولانا کوثر نیازی، جے اے رحیم، محمد حنیف رامے، افضل سندھو، مصطفی کھر، غلام مصطفی جتوئی، مرتضےٰ بھٹو، ڈاکٹرمبشر حسن، خلیق الزمان، راؤ رشید، ملک معراج خالد، غنویٰ بھٹو، میاں احسان الحق،خورشیدحسن میر، میاں محمود علی قصوری، احمد رضا قصوری، سردار فاروق لغاری، عبدالخالق، بریگیڈئر صاحب داد، رانا اقبال، شاہ محمود قریشی، چودھری ارشاد، افتخار احمد تاری، راجہ منور احمد، ان کے بعد بقیہ میں شاید صرف ”وغیرہ“ میں شامل تعداد ہی رہ جاتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو خیر باد کہنے والے ان تمام متذکرہ حضرات کا دورانیہ 1967ء کے بعد شروع ہوتا ہوا 2012ء تک موجود ہے۔ جس دن صدر نے ملتان میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کے موقع پر استفسار کیا ”ایک ہمارے شاہ محمود قریشی ہوتے تھے وہ کہاں ہیں؟“ اس دن میں ایک بار پھر صدر کی ژرف نگاہی پر عش عش کر اٹھا، صدر خوب ہیں!
چلتے چلتے صدر کا ایک ایسا ہی اور واقعہ ذہن کے نگار خانے سے برآمد ہو ا ہے۔ رائے ونڈ میں صدر کی میاں نواز شریف سے کوئی میٹنگ طے تھی۔ اخبارات میں شائع شدہ تفصیلات کے مطابق بعض معاملات میں میاں نواز شریف نے صدر کو حریت پسندی کی عظمت کا احساس دلایا جس پر صدر کا جواب تھا ”آپ آگے بڑھیں، میں تو ایک غریب سا کمزور سندھی ہوں۔“ صدرواقعی خوب ہیں، ”شجاعت“ اور ”اُشکل“ کا فرق کبھی نہیں بھولتے۔
موضوع سخن صدر پرمرتکز ہوگیا، دوبارہ آگے بڑھتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے ازخود وچھوڑے کا انتخاب کرنے والوں کی پریشان خیال داستانوں کا قصہ عجب حسرت آمیز نفسیاتی حالتوں کا قصہ ہے۔ بسا اوقات اس نفسیاتی حالت نے ان لوگوں کو بے سمت بگولوں کی شکل دے دی۔ ان میں سے جو دنیا سے منہ موڑ گئے ان کے واسطے تو دعائے مغفرت اور جو تادم حیات ہیں وہ سیاست کے منظر پر کسی ایسے نقطے کی حیثیت بھی نہیں رکھتے جس کے ابھی ابھی مٹائے جانے کی کوئی علامت بھی دکھائی دیتی ہو۔
پارٹی سے قطع تعلقی یا نکالے جانے کے انجام کی تاریخی شہادت پر میری گفتگو کے بعد، ناہید خان حیران کن حد تک پرسکون رہیں جیسے انہیں اپنے موقف کی صداقت اور انجام کی کامیابی کے بارے میں کسی بھی قسم کا شعوری یا لاشعوری ابہام ہے ہی نہیں، دو ٹوک فیصلہ کن اور پراعتماد لہجے میں ان کا کہنا تھا ”آپ سو فیصد صحیح ہو سکتے ہیں تاہم مجھے آپ سے ایک فیصد اتفاق بھی نہیں، آپ نے پارٹی کا دامن جھٹکنے کے بعد نئی سیاسی مسافرت کے جن مسافروں کی مثال دی ہے، ان کے اقدام میں ایک تاریخی المیہ بھی شامل تھا جسے آپ اپنے تاریخی ثبوت میں شامل کرنا بھول گئے یا آپ کی وہ اپروچ ہی نہیں، انہوں نے یہ اقدامات ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے مقام کے حامل بین الاقوامی رہنماؤں کے مقابل کئے، ظاہر ہے وہ اپنا سیاسی وجود کیسے قائم رکھ سکتے تھے؟ ہمارا یہ مسئلہ ہی نہیں، پیپلز پارٹی کی حالیہ قیادت اس مقام کو چھوتی بھی نہیں جو میں آپ کے نوٹس میں لائی ہوں، اس لئے ہمیں آپ اپنے مذکورہ تاریخی کھاتے سے نکالے رکھیں۔“
میں نے کہا ”گویا آپ کے نزدیک صدر پولیٹیکل وژنری رہنما نہیں ہیں؟“ اسی دو ٹوک ، فیصلہ کن اور پراعتماد لہجے میں ناہید خان کا جواب تھا ”ہرگز نہیں، وہ زیادہ سے زیادہ ایک ”پولیٹیکل ایڈمنسٹریٹر“ (Political Administrator) کہے جا سکتے ہیں۔ مفاہمت کی ثقافت پیپلز پارٹی کو دوسری سیاسی جماعتوں کا یرغمالی بنا چکی ہے۔ پارٹی کے حقیقی جاں نثار کارکنوں کو مصائب کا ہجوم گھیر چکا ہے، کوئی ان کا پرسان حال نہیں، میں حقیقی پاکستان پیپلزپارٹی کی واپسی اور بحالی کا علم اٹھائے ہوئے ہوں، ان حقیقی جاں نثار کارکنوں کی خاطر اپنے آخری سانس تک جنگ کروں گی۔“
میں نے ”صدر کے وژنری سیاسی رہنما ہونے پر زیادہ دیر دلائل نہیں دیئے۔ مفاہمت کے باب میں بھی میرا رویہ یہی رہا ۔ البتہ ناہید بی بی کے سیاسی کارکنوں کے حوالے سے ”مدرٹریسا“ جذبے پر کچھ عرض کرنے کا خواہاں ضرور ہوں۔ ناہید خان اور صفدر عباسی خود بھی پارٹی کے مقتدر سیاسی کارکن ہی ہیں۔ صفدر عباسی کو متعدد بار سینیٹر منتخب کرایا گیا ان کے ایک بھائی سندھ کے صوبائی وزیر رہے، ان کی والدہ محترمہ کو دو بار قومی اسمبلی کا سپیکر بنوایا گیا، دوبار وہ ڈپٹی سپیکر بھی رہیں۔ ناہید خان ہماری طرح ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ زندگی کا سفر چند مرلوں کے مکان سے ہوا، آج اسلام آباد کے مہنگے ترین علاقہ چک شہزاد میں ایک فارم ہاؤس کی مالکن ہیں جنہیں وہ ”بے نظیر فارم ہاؤس“ کہا کرتی ہیں۔ زندگی کی جدوجہد کی شروعات میں انہیں مجبوراً لندن جانا پڑا وہاں ان کی ملاقات، صفدر ہمدانی، پارٹی کے ”جگت چاچا“ سے ہوئی۔ بھٹو صاحب بھی ہمدانی کو ”چاچا“ کہا کرتے تھے۔ ان دنوں بی بی شہید بھی لندن میں تھیں، انہیں ایک خاتون اسسٹنٹ کی ضرورت تھی، ”چاچا“ کی سفارش پر بی بی نے انہیں اپنے ساتھ منسلک کرلیا، پھر یہ کہ ریکروٹنگ ایجنسی راولپنڈی یا اسلام آباد سے اپنی عملی زندگی کی شروعات کرنے والی ناہید خان بے نظیر شہید جیسی بین الاقوامی خاتون لیڈر کی ”نمبر 2“ کے طور پر ایوان سیاست اور ایوان اقتدار میں ہمہ مقتدر رہیں، دونوں میاں بیوی پارٹی کے سیاسی کارکنوں کے پریشر کو ایک حد تک رکھنے کے لئے پی پی کے سیکرٹریٹ کے بجائے ایوان وزیر اعظم میں بیٹھتے تھے، شاہدہ جبیں جیسی جیالی ورکروں کے واقعات آج بھی پارٹی ورکروں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئے، سیاسی ورکروں اور سیاسی جماعتوں کی زندگیاں متوازی خطوط ہیں، ساتھ ساتھ رہتے اور چلتے ہیں، باہم کبھی مل نہیں پاتے۔ ناہید خان کی سفارش پر ان کی چھوٹی بہن انیلا کو بی بی شہید نے اپنے پہلے دور اقتدار میں اپنی سرکاری فوٹو گرافر کے طور پر انگیج کیا۔ دعا ہے ناہید خان کا موجودہ سیاسی سفر، سفرِ رائیگاں ثابت نہ ہو، صدر کے بارے میں ناہید ایک مصرعہ یاد رکھیں:
”میں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں۔“
کالم کی تنگ دامنی کے باعث بہت کچھ نہیں کہا جاسکا۔