ٹورنٹو میں منعقدہ ’’وش لیڈرز کانفرنس‘‘ میں شرکت

November 21, 2018

کینیڈا سے تعلق رکھنے والے پی جے کو بچپن ہی سے سیاست میں دلچسپی تھی، اُس کی خواہش تھی کہ وہ بڑا ہوکر سیاستدان بنے اور ملک کے اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہو لیکن وہ جب 13 سال کا تھا تو اُسے کینسر جیسے موذی مرض نے آگھیرا جس نے اُس کی زندگی مایوسی کے اندھیرے میں دھکیل دی مگر پی جے نے ہمت نہ ہاری اور اپنی بیماری کا جوانمردی سے مقابلہ کیا۔ ایک روز اسپتال میں دوران علاج جب پی جے کی ملاقات میک اے وش فائونڈیشن کینیڈا کے رضاکاروں سے ہوئی اور انہوں نے پی جے سے اُس کی آخری خواہش دریافت کی تو وہ بے ساختہ کہنے لگا کہ ’’میں کینیڈا کا وزیراعظم بننا چاہتا ہوں۔‘‘ اس موقع پر وہاں موجود پی جے کے والدین اپنے بیٹے کی یہ منفرد خواہش سن کر ہکا بکا رہ گئے اور سوچنے لگے کہ اُن کے بچے نے کس طرح کی احمقانہ خواہش ظاہر کی ہے جس کی تکمیل شاید کبھی ممکن نہ ہو مگر پی جے اور اُس کے والدین کی اس وقت حیرت کی انتہا نہ رہی جب کچھ دنوں بعد میک اے وش فائونڈیشن کینیڈا نے اُنہیں یہ خوشخبری سنائی کہ ’’پی جے کی کینیڈا کا وزیراعظم بننے کی خواہش بہت جلد پوری کی جائے گی۔‘‘

پی جے کی کینیڈا کا وزیراعظم بننے کی وش ادارے کیلئے ایک چیلنجنگ وش تھی جسے پورا کرنا بظاہر ناممکن نظر آرہا تھا مگر کہتے ہیں کہ جب دل سے کوئی خواہش ہو تو دنیا کی ساری قوتیں اسے پورا کرنے میں آپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ یہی کچھ پی جے کے ساتھ ہوا۔ پی جے کو تھری پیس سوٹ اور ٹائی پہناکر پارلیمنٹ ہائوس لے جایا گیا جہاں اس نے پہلے پارلیمنٹ کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا پھر ارکان پارلیمنٹ نے پی جے کو کینیڈا کا وزیراعظم منتخب کیا اور اسپیکر نے پی جے کے وزیراعظم کینیڈا بننے کا اعلان کیا۔ بعد ازاں پی جے کو وزیراعظم کے پروٹوکول میں وزیراعظم ہائوس لے جایا گیا جہاں اسے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا جس کے بعد پی جے کو وزیراعظم آفس لے جایا گیا جہاں اس کا استقبال کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے کیا اور اسے اپنی نشست پر بٹھایا۔ جسٹن ٹروڈو سے ملاقات کے بعد پی جے نے وزیراعظم کینیڈا کی حیثیت سے دارالحکومت اوٹاوا کا دورہ بھی کیا۔ پی جے کی منفرد خواہش کی یہ ویڈیو ٹورانٹو میں منعقدہ ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ کے شرکاء کو دکھائی گئی جس میں، میں بھی شریک تھا۔ اس موقع پر ایک دن کیلئے کینیڈا کا وزیراعظم بننے والا پی جے جب کانفرنس ہال میں داخل ہوا تو شرکاء نے کھڑے ہوکر اور تالیاں بجاکر اس کا استقبال کیا۔

میک اے وش فائونڈیشن لاعلاج مرض میں مبتلا بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کا سب سے بڑا عالمی ادارہ ہے جو پاکستان سمیت دنیا کے 50 ممالک میں پھیلا ہوا ہے۔ ادارے کا مشن ہے کہ کوئی بچہ اپنی کوئی خواہش یا حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہو۔میک اے وش فائونڈیشن انٹرنیشنل ہر سال ’’عالمی وش لیڈر کانفرنس‘‘ کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کانفرنس میں شرکاء کو ایک دوسرے سے ملنے اور ان کے خیالات و تجربات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ کانفرنس میں مختلف فلاحی تنظیموں اور بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیات کو بھی لیکچرز کیلئے مدعو کیا جاتا ہے۔ حالیہ کانفرنس میرے لئے دو طرح سے یادگار تھی کیونکہ اس کانفرنس کے دوران میری ملاقات میک اے فائونڈیشن کے قیام کا سبب بننے والے کرس (Chris)کی بوڑھی والدہ لنڈا پائولنگ (Linda Pauling) سے ہوئی جنہیں کانفرنس میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ امریکہ سے تعلق رکھنے والا کرس جب 8 سال کا تھا تو اسے کینسر جیسے موذی مرض نے آ گھیرا۔ کرس کی بچپن سے خواہش تھی کہ وہ بڑا ہوکر پولیس افسر بنے۔ اس کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے پولیس ڈپارٹمنٹ نے کرس کو پولیس یونیفارم اور بیج لگاکر پولیس موبائل میں شہر کا دورہ کرایا۔ گوکہ کرس اپنی خواہش کی تکمیل کے کچھ روز بعد دنیا سے رخصت ہوگیا مگر اسے خوشی تھی کہ مرنے سے قبل اس کی پولیس افسر بننے کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔کرس کی موت کے بعد اس کے والدین اور مقامی کمیونٹی نے 1980ء میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی جو آج دنیا کا سب سے بڑا وش گرانٹنگ ادارہ بن چکا ہے۔ حالیہ کانفرنس میں یہ خوشخبری بھی سننے کو ملی کہ مجھے میک اے وش انٹرنیشنل امریکہ جو فائونڈیشن کا بانی ادارہ ہے، کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا رکن منتخب کیا گیا ہے جو نہ صرف میرے لئے بلکہ پاکستان کیلئے بھی بڑے اعزاز کی بات ہے۔

میک اے وش فائونڈیشن کے پاکستان میں قیام کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ اس ادارے کے بارے میں مجھے اس وقت آگاہی ہوئی جب اپنی اہلیہ کے کینسر کے علاج کے سلسلے میں لندن کے اسپتال جانا ہوا جہاں میک اے وش کے رضاکاروں سے ہماری ملاقات ہوئی، ہم ادارے کے منفرد کام سے بہت متاثر ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ اس ادارے کو پاکستان میں بھی متعارف کرائیں گے۔ اہلیہ کی موت کے بعد میں نے ادارے کے صدر دفتر امریکہ سے رابطہ کیا تو میک اے وش امریکہ نے پاکستان میں ادارے کے قیام کی اجازت دینے سے انکار کردیا مگر بعد میں میرے اصرار اور کچھ یقین دہانیوں پر پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کا قیام عمل میں آیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج میک اے وش فائونڈیشن پاکستان لاعلاج مرض میں مبتلا ہزاروں بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرکے کامیاب ادارہ بن چکا ہے جس پر اسے گزشتہ سال برازیل میں منعقدہ ’’وش لیڈر کانفرنس‘‘ میں "Best Affiliat Member" کے ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔

10 سال قبل جب پاکستان میں میک اے وش فائونڈیشن کی بنیاد رکھی گئی تو میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس ادارے کا شمار پاکستان کے سرفہرست فلاحی اداروں میں ہونے لگے گا اور یہ ادارہ ہزاروں بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرکے ان کے خواب پورے کرے گا۔ میک اے وش پاکستان آج تک جن بچوں کی آخری خواہشات کی تکمیل کرچکا ہے، اُن میں سے کئی بچے ہم میں نہیں لیکن مجھے خوشی ہے کہ وہ بچے کوئی خواب یا حسرت لئے اس دنیا سے رخصت نہیں ہوئے، ہم اُن بچوں کی زندگیوں میں اضافہ تو نہیں کرسکے مگر اُن کی زندگی کے بقیہ دنوں میں خوشیاں ضرور لاسکے۔ قارئین سے درخواست ہے کہ میں نے جس کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اس میں مجھے آپ کا تعاون بھی درکار ہے۔ اگر آج مخیر پاکستانی کسی لاعلاج بچے کی ایک وش کو پورا کرنے کا بیڑا اٹھالے تو امید ہے کہ پاکستان میں کوئی لاعلاج بچہ اپنی خواہش یا خواب لئے اس دنیا سے رخصت نہ ہوگا۔