کرپٹ ترین صوبائی حکومت

December 16, 2012

چیئرمین نیب ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری نے روزانہ سات ارب روپے کی کرپشن کا انکشاف کیااور پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں سے65فیصد کرپشن پنجاب میں ہورہی ہے یعنی پنجاب میں روزانہ تقریباًچارپانچ ارب روپے کی کرپشن جاری ہے ۔چارپانچ ارب روپے روزانہ کی بنیاد پر توخاصی بڑی رقم ہے۔اتناسارا پیسہ خزانے سے نکل کر کہاں جا رہا ہے ۔وفاقی حکومت میں تو اس بات کی سمجھ آسکتی ہے کہ وہاں وزیروں اور مشیروں کے پاس مکمل اختیار ات ہیں اور وہاں یہ لوگ ہیں بھی خاصی تعداد میں ۔سو تھوڑی تھوڑی کرپشن بھی مل کر ایک آدھ ارب تک آسانی سے پہنچ جاتی ہوگی مگر پنجاب میں تو اقتدار صرف شریف خاندان کے پاس ہے ۔ وہاں بیچارے وزیر اور مشیر، وزیر اعلیٰ کی اجازت کے بغیر کسی پرائمری سکول کے استاد کا بھی تبادلہ نہیں کرا سکتے ،تھانے کا ایس ایچ او تو بہت بڑی چیز ہے ۔پنجاب میں وزیروں کی حالت پر ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔مجدد اعظم حضرت نوشہ گنج بخش کا عرس تھا۔اس عرس میں شرکت کے لئے میں یہاں سے پیر سید معروف حسین نوشاہی کے ہمراہ پاکستان گیا ہوا تھا وہاں میں نے سوچا کہ اس عرس کے موقع پر ایک کل پاکستان نعتیہ مشاعرہ بھی کرایا جائے ۔میں نے عطاالحق قاسمی سے بات کی اور کہاکہ چونکہ یہ مزار محکمہ اوقاف کے پاس ہے اس لئے مشاعرہ کا مہمان خصوصی پنجاب کے وزیر اوقاف کو بنالیتے ہیں تاکہ ان کی آمد عرس کے موقع پر ہمارے لئے آسانیوں کا سبب بنے اور ہم اچھے طریقے سے اس مشاعرہ کا انعقاد کرسکیں ،قاسمی صاحب نے وزیر اوقاف حاجی احسان الدین قریشی کو فون کیا انہوں نے بڑی محبت سے ہماری دعوت قبول کرلی اور یہ طے پایا کہ وزیر موصوف بھی شعرائے کرام کے ساتھ لاہور سے ایک قافلے کی صورت میں نوشہ گنج بخش کے مزار پر جائیں گے ۔مقررہ دن وزیر اوقاف حاجی احسان الدین قریشی وقت سے تقریباً ایک گھنٹہ پہلے وارث روڈ پر عطالحق قاسمی کے ادبی رسالے معاصر کے دفتر میں آگئے جہاں ہم سب نے مل کر دوپہر کا کھانا کھایا اور اس کے بعد قافلہ نوشہ گنج بخش کے مزار کی طرف روانہ ہوگیا ۔یہ مقام لاہور سے تقریباً تین چار گھنٹے کے فاصلے پر تھا ۔قافلہ جب اُس جگہ پر پہنچا تو عرس میں شریک ہونے والے لوگوں کا جم غفیر راستہ میں حائل تھا ۔ مشاعرہ گاہ تک گاڑیاں پہنچنے کے لئے کوئی راستہ ہی نہیں مل رہا تھا اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیں وہاں تک پہنچانے میں کوئی کردار ادا کرنے پر تیار تھے ۔تقریبا ً ایک گھنٹہ اس رش میں گزارنے کے بعدوزیر اوقاف حاجی احسان الدین قریشی واپس لاہور کی طرف روانہ ہوگئے مگر مشاعرہ گاہ کے پنڈال تک نہ پہنچ سکے ۔سوچئیے جس حکومت کے وزیروں کی یہ حالت ہو ان پیچاروں نے کرپشن خاک کرسکنی ہے۔پنجاب میں طاقت کا ایک سرچشمہ ہے اور وہ شریف خاندان ہے ۔ ایک واقعہ اور بھی یاد آرہا ہے ۔میرے ایک دوست جو ایک ٹی وی چینل کے اینکر ہیں اور ان کا تعلق میانوالی کی تحصیل پیلاں سے ہے ۔ ان کے بھائی کے ساتھ تھانہ پیلاں کے ایس ایچ او نے بڑی زیادتی کی ۔ خیر اس نے بھاگ دوڑ کر بھائی کو تو چھڑوالیا۔ اس کے بعد اس نے چاہا کہ ایسے کرپٹ ایس ایچ او کا تبادلہ کرایا جائے اس تھانے میں اس کی موجودگی شریف لوگوں کیلئے خطرے سے خالی نہیں۔(یہاں شریف کا لفظ اس مفہوم میں نہیں آیا جس مفہوم میں لاہور میں برتا جاتا ہے)اس نے کوشش شروع کی ایس پی میانوالی کو کہا ،کچھ نہ ہوا ،ڈی آئی جی کو کہا گیا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا،آئی جی تک سفارش کرائی گئی مگر وہاں سے بھی امید بر نہ آئی ، ایک دو وزیروں سے کہا تو انہوں نے بھی معذرت کرلی ۔خاصی تحقیق کے بعد علم ہوا کہ ایس ایچ اوکا تبادلہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ خود وزیر اعلیٰ شہباز شریف یہ حکم نامہ جاری کریں کیونکہ شہباز شریف نے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز اس علاقہ کے نون لیگ کے قریبی لوگوں کے مشورے سے لگائے ہیں اور وہ ایس ایچ اوزصرف وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں نون لیگ کی طرف سے کہا جاتا ہے ۔ اگر آپ نے اس ایس ایچ او کو تبدیل کرانا ہے تو آپ نون لیگ کے ایم این اے سے بات کریں وہ شہباز شریف سے بات کریں گے اور یوں اس ایس ایچ او کا تبادلہ ہوگا۔اب ہمارا دوست اُس ایم این اے کوکیسے تبادلے کا کہہ سکتا تھاجس ایم این اے کے کہنے پر اس کے بھائی کو گرفتار کیا گیا تھا۔
چیئرمین نیب کے اس الزام پر تبصرہ کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے ترجمان نے کہا ہے کہ چیئرمین نیب کا یہ الزام مبہم اور غیر واضح ہے اور انہوں نے پنجاب کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا ہے ، وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں کے حوالے سے وہ کیوں خاموش ہیں ۔ حکومت پنجاب کے اس بیان پر کیا تبصرہ کیا جائے ۔مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ شاید انہوں نے چیئرمین نیب کا پورا بیان نہیں پڑھا۔ میں دوبارہ دورج کردیتاہوں چیئرمین نیب نے یہ کہا ہے کہ ملک میں روازنہ سات ارب روپے کی کرپشن ہورہی ہے جس میں 65فیصد کی کرپشن پنجاب میں میں جاری ہے اور باقی 35فیصدکرپشن پورے ملک میں ہورہی ہے۔اس باقی 35فیصد میں وفاقی حکومت اور باقی صوبائی حکومتیں بھی شامل ہیں ۔
پنجاب میں کرپشن کی ایک وجہ تو واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ پنجاب حکومت نے لاہور میں صرف ایک پراجیکٹ اتنا بڑا شروع کر رکھا ہے جس پر تمام پنجاب کے ترقیاتی فنڈ خرچ ہورہے ہیں اور جہاں شہباز شریف کی مرضی کے بغیر ایک ایس ایچ او نہیں بدل سکتا وہاں اس پراجیکٹ میں جوکچھ ہو رہا ہے اس سے وہ ان کی نگاہ سئے کیسے بچ سکتا ہے۔ حکومت پنجاب کے ترجمان نے یہ بھی کہا ہے کہ اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ یہ کسی محکمے یا پٹواری کی سطح کی بدعنوانی ہے ۔کیا دلچسپ بات ہے۔ کیایہ بات پنجاب حکومت کے ترجمان کے علاوہ کوئی اورسوچ سکتا ہے کہ روزانہ چار پانچ ارب کی کرپشن پنجاب بھر کے پٹواری مل کر رہے ہیں یا محکموں کے سربراہ یعنی پنجاب کے بیورو کریٹس روزانہ اتنی کرپشن کر لیتے ہیں۔چلئے مان لیا کہ شریف فیملی اس میں قطعاً شریک نہیں ہے مگر ذمہ دار تو شہباز شریف ہی ہیں جن کی حکومت ہے اگر وہ حکومت کرنے کے قابل نہیں تو حکومت چھوڑ دیں مگر وہ تو پورے ملک پر حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔