باتیں دل کی!

March 03, 2016

ہر وقت دل ودماغ میں بجتا یہ بیک گراؤنڈ میوزک آج اس امید کیساتھ آپ کے دل ودماغ کی نذر کہ شاید وہاں بھی کوئی ساز بج اُٹھے ۔
نبی ؐ نے فرمایا کہ ’’ ایسا اشارہ بھی حرام کہ جس سے کسی کو رنج ہو ،دین کی بنیاد خوف ِ خدا پر اور انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی ‘‘ (کیوں کیا خیال ہے)
حضرت عمرؓکہا کرتے ’’خلیفہ اُس وقت گیہوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ رعایا کا ہرفرد بھی گیہوں کی روٹی کھارہا ہے‘‘ (اپنے خلیفوں کو یہ کون بتائے)
حضرت علی ؓ نے فرمایا ’’ مجھے اس دنیا سے کیا لینا کہ جس کے حلال میںحساب ہے اور حرام میں عذاب‘‘(جب تک بات سمجھ نہ آئے ،اسے پڑھتے رہیں)
حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ وہ واحد نبی کہ جن کا قبیلہ نسبتاً کمزور تھا ۔ایک بار جب انکی قوم نے ان کے مہمانوںکو بے عزت کر دیا تو اُنہوں نے بڑے دکھی ہو کر کہا’’ اگر میرے پیچھے بھی مضبوط قبیلہ ہوتا تو میری یہ بے عزتی نہ ہوتی ‘‘اب ایک طرف یہ حال کہ ایک نبی کہے کہ کاش وہ مضبوط قبیلے سے ہوتا جبکہ دوسری طرف عید کی نمازاور جمعہ کے خطبے سے اذان دینے اور نکاح پڑھانے تک آج ہمارے کتنے مذہبی پیشواایسے کہ جن کا تعلق مضبوط قبیلوں سے یا پھر کتنے وڈیرے ،جاگیردار اور صنعتکار ایسے جو اپنی اولادوں کو عالم ،حافظ یا امام مسجد بنانے کے خواہشمند اور پھر ہم نے مذہب جن کے حوالے کر رکھا ہے ،کیا انکے حوالے ہم اپنی فیکٹری یا کاروبار کر سکتے ہیں لہٰذا بھائی جان مولوی کوکو سنا چھوڑکر مان لیں کہ اس زوال میں ہم سب برابر کے شریک۔
مولانا رومی ؒ اکثر دعا کیا کرتے ’’ یااللہ مجھے وہ طاقت نہ دینا جو دوسروں کو کمزورکر دے ، وہ دولت نہ دینا جو دوسروں کو غریب کر دے ،وہ علم نہ دینا جو میرے سینے میں ہی دفن رہے اورایسی بلندی عطا نہ کرنا کہ مجھے اپنے سوا کچھ نظر ہی نہ آئے (اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکئے گا )
لوگ بیماری کے خوف سے غذا تو چھوڑ دیتے ہیں مگر اللہ کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے( یہاں بھی کہہ دیں اللہ غفور ورحیم ہے )
ایک سیاح ایک درویش سے ملنے اس کے گھر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ پورے گھر میں ایک بستر ،لیمپ اور ضرورت کی چند چیزیں ، یہ بے سروسامانی دیکھ کر سیاح نے طنز کیا ’’آ پ کا سامان کدھر ہے ‘‘ درویش بڑی محبت سے بولا ’’ آپکا سامان کدھر ہے ‘‘ سیاح حیران ہو کر’’ میرا سامان ۔۔۔ میں تو مسافرہوں، چند دن کا مہمان ہوں یہاں ‘‘ ،درویش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کہا’’ میں بھی تو مسافر ہوںاور وہ بھی چند دن کا ‘‘ ۔
ایک بار اداکا ررنگیلا نے کہا کہ ’’ میں تو صدر اور وزیراعظم بن سکتا ہوں مگر صدر اور وزیراعظم چاہیں بھی تو رنگیلا نہیں بن سکتے ‘‘ (معصوم ومرحوم رنگیلے کوپتا ہی نہ چلا کہ قوم نے کیسے کیسے رنگیلے بھگتے )
کسی کو احمق سمجھنے سے پہلے یہ یقین کر لیں کہ کہیں وہ بھی تو یہی کچھ نہیں کر رہا ۔(اپنے تمام اینکرز کیلئے )
یہ تو میاں صاحب کی اعلیٰ ظرفی کہ اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر لگادیا ورنہ اچھے وقتوں میں رشتہ داروں کو کون پوچھتا ہے (کاش پوری قوم میاں صاحب کی رشتے دار ہوتی )
اگر عمر 60سال ہو تو بچپن ،بڑھاپا اور بیماری کے دن نکال کرپھر 20سال نیند کے بھی نکال دیں تو سوچیں باقی کیا رہ جائے گا ( یہ جیون کہانی تو بس اتنی سی کہ مٹی سے مٹی پر اور مٹی میں )
وقت کی کتاب میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی ،خوابوں کی کوئی Expiry dateنہیں اور زندگی میں کوئی Pauseبٹن نہیں ہوتا۔
چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رہ جانے سے بڑے بڑے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بات ہونے پر گھبرائیں نہ کیونکہ بات انہی کی ہوتی ہے کہ جن میں کوئی بات ہوتی ہے ۔
مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں یہود سے یہ توقع کہ وہ ہنو د کے مقابلے میں ہمیں ترجیح دیں گے،مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ سچے دین کے پرچارک خود سچے نہیں اور مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہاں اندھے پردوں کے پیچھے دشمن دیکھ رہے ہیں ،بہروں کو دشمنوں کے قدموں کی چاپیں سنائی دے رہی ہیں اور ننگے اپنے لباس کی فکرمیں ۔
جلال الدین اکبر کے زمانے میں ملکہ الزبتھ کے ایلچیوں نے ہندوستان آکر جب اپنے ملک اور ملکہ کی لمبی چوڑی داستانیں بیان کیں تو اکبر بادشاہ نے حیرت سے اپنے وزیر ابوالفضل سے پوچھا’’ ایں جزیرہ نماچرا است‘‘ مطلب اتنی بڑی ملکہ رہتی کہاںہے ( کبھی وہ وقت تھا اور آج … )
ایک ہندو خاندان کو دہشت گردوں نے روک کر پوچھا ’’ تم لوگوں کا مذہب کیا ہے ‘‘ ہندو بولا ’’ہم مسلمان ہیں ‘‘ ایک دہشت گرد بولا ’’ مسلمان ہو تو قرآن سناؤ ‘‘ ہندو نے جب قرآن پڑھا تو دہشت گردوں نے انہیں چھوڑ دیا ،تھوڑی دور جا کر ہندو کی بیوی بولی ’’ اُنہوں نے قرآن سنانے کوکہا اور تم نے گیتا سنادی ، تمہیں ڈر نہیں لگا‘‘ ہندو بولا’’ نہیں میں بالکل نہیں ڈرا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اگر انہوں نے قرآن پڑھا ہوتا تو وہ دہشت گرد نہ ہوتے‘‘۔
جیسے ہی مقرر خاموش ہوا تو پھر 50 لوگوں کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا اپنا نام لکھ کر اسے ہال میں رکھنے کو کہا گیا ،جب سب یہ کر چکے تو کہا گیا کہ جو 2منٹ کے اندر اندر اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لے گا ، وہ پاس باقی فیل ،اب بدحواسی کے عالم میں سب یوں اپنے اپنے نام کے غباروں کی تلاش میں لگے کہ کئی غبارے ہاتھوں میں پھٹے اور کئی پاؤں کے نیچے آکر اور پھر جب دومنٹ ختم ہوئے تو 10لوگ بھی ایسے نہ تھے کہ جن کے پاس ان کے اپنے ناموں کے غبارے تھے ،اب ایک مرتبہ پھر ہر شخص کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا نام لکھ کر اُسی ہال میں رکھنے کو کہاگیا ،جب دوسری مرتبہ سب لوگ غبا رے رکھ چکے تو اس بار کہا گیا کہ اپنے نام کا غبارہ ضرور تلاش کریں لیکن کسی کو اگر کسی اور کے نام کا غبارہ ملے اور وہ اس شخص کوپکڑا دے تو وہ بھی پاس تصور کیا جائے گا اور اس بار حیرت انگیز طور پر ڈیڑھ منٹ میں ہی ہر شخص کے ہاتھ میں اپنا اپنا غبارہ تھا،اب مقرر بولا’’ یہی کچھ ہماری زندگیوں میں بھی ہوتا ہے جب ہم اپنی خوشیوں کی خاطر دوسروں کی خوشیاں روند ڈالتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی خوشیاں بھی نصیب نہیںہو پاتیں لیکن جب ہم دوسروں کے حصے کی خوشیاں انکی جھولیوں میں ڈال دیتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں خود بخود ہی مل جاتی ہیں ۔
کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے ۔ جب کشتی کنارے لگ جائے تو اپنی قوتّ ِ بازو کے قصید ے۔ بہت کم انسان ایسے جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں ۔
کفن بھی کیا چیز ہے ،جس نے بنایا ،اس نے بیچ دیا ، جس نے خریدااس نے استعمال نہ کیا اور جس نے استعمال کیا اسے معلوم ہی نہیں ۔
سپنے وہ نہیں ہوتے جو سونے پر آتے ہیں بلکہ سپنے وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے ،اپنے وہ نہیں ہوتے جو رونے پر آتے ہیں بلکہ اپنے وہ ہوتے ہیں جو رونے نہیں دیتے ۔
جب اینٹ کا اینٹ سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر دیوار یں اپنے بوجھ سے ہی گرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔
کاذب ماحول میں سچے کی زندگی کسی کر بلا سے کم نہیں ہوتی۔
خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب سے خوش ہو ۔
مذہب کا بیان بہت ہو چکا اب وقت ہے عمل کا ۔
دو انسانوں سے ملنا مشکل ،ایک وہ جو خود کو پہچان لے اور دوسرا وہ جو خود سے بچھڑ جائے ۔
جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو چھوٹے آدمیوں کے سائے بھی بڑے ہو جاتے ہیں ۔
جو صرف ایک سنت توڑ دے وہ بھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔
غریب کے بچے اور امیر کے رشتہ دار بہت ہوتے ہیں ۔
وقت پڑنے پر لوگ ساتھ کم اور مشورے زیادہ دیتے ہیں ۔
عمر اور تجربے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔
جھوٹ بولنے کی دو ہی وجوہات ایک خوف اور دوسرا لالچ۔
ہم بچاتے رہے دیمک سے گھر اپنا اور کرسیوں کے کیڑے ملک چاٹ گئے ۔
جو سائیکل نہیں چلا سکتے تھے ، وہ آج ملک چلا رہے ہیں ۔
یہاں انصاف کیلئے عمر نوح ؑ کی ، صبر ایوب ؑ کا اور دولت قارون کی چاہئے ۔
کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ مرنے پر جو سینکڑوں ،ہزاروں کندھا دینے آجاتے ہیں ،وہ زندگی میں کہاں ہوتے ہیں ، کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم ہر بار جھوٹوں پر اعتبار کیسے کر لیتے ہیں ،ہم ایک ہی مداری کا ایک ہی تماشا بار بار کیسے دیکھ لیتے ہیں اور جن کے اور ہمارے دکھ سکھ ایک نہیں ،انہیں ہم اپنے دُکھ سُکھ کا ساتھی کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اور آخر میں اپنے تمام رہنماؤں کی خدمت میں یہی کہ ’’ ہم اس لئے رور ہے ہیں کہ حالات نے ہمیں تمہارے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور تم کہتے ہو کہ رو مت ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔