شاد عارفی کا ایک مصرع اور عمران حکومت

December 02, 2018

ارادہ تو یہی تھا کہ شاد عارفی کا مصرع ابتدا ہی میں لکھ دیا جائے۔ خدشہ مگر یہ ہے کہ فیاض الحسن چوہان، فواد چوہدری اور فیصل واوڈا جیسے فاضل وزرا شاد عارفی کی سطر میں الجھ کر جائیں گے۔ اتنی دھول اڑے گی کہ گرد کی موٹی تہہ میں دب کر اصل بات کھاد بن جائے گی۔ خبر آئی ہے کہ کنونشن سنٹر میں عمران خان کی دیسی مرغیوں، انڈوں اور دیگر مال مویشی کے ذکر سے مرصع تقریر سن کر ڈالر خبیث ایسا بھونچکا ہوا کہ ایک ہی رات میں چھلانگ لگا کر 144روپے کی ٹہنی پر جا بیٹھا۔ مئی 1998ء میں ہم نے ایٹمی دھماکے کیے تو ڈالر کی قیمت پچاس روپے سے کچھ کم تھی۔ ہماری جرأت ایمانی سے بوکھلا کر ڈالر دیکھتے ہی دیکھتے 67روپے کی خبر لایا۔ دنیا بھی عجیب کینہ پرور قبیلہ ہے۔ ہم دفاعی طور پہ ناقابل تسخیر ہوئے تو ڈالر نے منہ پھلا لیا۔ انڈوں کا کاروبار کرنا چاہا تو ڈالر کے مزاج پھر سے بگڑ گئے۔

چین میں انقلاب آ گیا تھا۔ چیئرمین ماؤ نے بھی پیکنگ کے شہر ممنوع تک پہنچنے کے لیے ادھر ادھر سے بھان متی کا کنبہ جوڑا تھا۔ اب شاید ہی کسی کو یاد ہو کہ اکتوبر 1949میں چینی کمیونسٹ پارٹی نے بہت سی جماعتوں اور گروہوں سے اتحاد کر کے حکومت بنائی تھی۔ چند برس گزرے تو ماؤزے تنگ کی عظمت نے سر اٹھایا۔ احساس ہوا کہ 65کروڑ چینیوں کو بلاشرکت غیرے چیئرمین ماؤ کی فکر سے مستفید ہونے کا موقع ملنا چاہئے۔ فروری 1956ء میں چیئرمین ماؤ نے نعرہ دیا کہ سو طرح کے پھولوں کو کھلنے دو۔ ہر مکتبِ فکر کو کھل کر اپنی رائے دینی چاہئے۔ کمیونسٹ پارٹی کی کارکردگی پر بے روک ٹوک تنقید کی جائے۔ چیئرمین ماؤ کے نقارچیوں نے آسمان سر پہ اٹھا لیا، واہ واہ کے ڈونگرے برسائے گئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے صدر محترم عارف علوی نے قوم کو مطلع کیا ہے کہ وہ خود کئی بار یوٹرن لے چکے ہیں۔ مفرح قلب ہے۔ خوش ذائقہ ہے۔ نفخ اس سے دور ہوتا ہے۔ مفتی عبدالقوی نے یوٹرن کا شرعی جواز بیان کیا ہے، اسد عمر نے اپنی تقریر دلپذیر میں یوٹرن کو قومی مفاد سے تعبیر کیا ہے۔ چین میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ پیکنگ یونیورسٹی میں دیواری اخبار شروع ہوئے۔ دانشوروں نے طول و طویل مقالے لکھے جن میں حکومت کے عمائدین اور اہلکاروں پر کڑی تنقید کی گئی۔ فیکٹریوں کے مزدور چوراہوں میں جمع ہو کر انقلابی حکومت کے بخیے ادھیڑنے لگے۔ کوئی سال بھر یہ معاملہ چلتا رہا۔ 1957کے وسط میں چیئرمین ماؤ نے سو رنگ کے پھولوں کی فصل کاٹنے کا ارادہ کر لیا۔ حکومت کے مخالفین اپنی تنقید کی وجہ سے گویا اعترافِ جرم کر چکے تھے۔ جولائی 1957سے تطہیر کا عمل شروع ہوا۔ حکومت کے مخالفین اور ناقدین کو ایک ایک کرکے انجام تک پہنچایا گیا۔ اقتدار پر چیئرمین ماؤ کی گرفت پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اس کے بعد 1958کا خوفناک قحط پیدا ہوا جس میں بیس کروڑ انسان مارے گئے۔ کسی کو نشاندہی کی توفیق نہیں ہوئی۔ اس تطہیری عمل کا نقطۂ عروج 1966کا ثقافتی انقلاب تھا۔ چین سے ہماری دوستی ہمالہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ چین کا ذکر یہاں یہ واضح کرنے کے لئے آیا کہ یوٹرن واقعتاً عظیم قیادت کی نشانی ہے۔

پاکستان میں کرپشن سے پاک نئی حکومت کے سو دن مکمل ہونے پر کنونشن سنٹر میں ایک تاریخی اجتماع منعقد ہوا۔ مقررین کا جوش و خروش دیکھ کر بھٹو دور کی یاد تازہ ہو گئی۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی سو دن کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے داخلہ، خارجہ اور معاشی میدان میں اپنی بے مثال کارکردگی کا دعویٰ کیا۔ مشکل یہ ہے کہ ان تینوں شعبوں میں تو ایک بھی قابلِ تصدیق کامیابی کی نشاندہی نہیں کر سکے۔ اپنی ہی قائم کردہ توقعات کا نشان نیچے لا کر یہ دعویٰ کیا گیا کہ ترقی کی سمت طے کر لی گئی ہے۔ سمت کے حوالے سے یوٹرن کا ذکر کثرتِ استعمال سے پامال ہو چکا۔ یہ کہنا البتہ مناسب ہو گا کہ حکومت نے جس سمت کا تعین کیا ہے اسے سادہ لفظوں میں بے سمتی کہنا چاہئے۔ وزیراعظم نے تو کسی ناکامی کا اعتراف نہیں کیا، درویش بے نشاں البتہ بتانا چاہے گا کہ گزشتہ تین ماہ میں حکومت کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ جس دستور کی بنیاد پر منتخب ہوئی ہے اس دستور کی توقیر اور بالادستی کا کہیں ذکر نہیں۔ جس پارلیمنٹ نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا، وہ پارلیمنٹ ہی عضو معطل ہو گئی ہے۔ تین ماہ میں ایک فنانس بل کے علاوہ کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ پارلیمنٹ میں اسٹینڈنگ کمیٹیاں تک قائم نہیں ہو سکیں۔ لکھ رکھیے کہ احتساب کا عمل پاکستان میں پہلی بار نہیں ہو رہا۔ یہ وہ سقیم و عقیم دیسی مرغی ہے جو ہمیشہ تفرقے، بحران اور بدحالی کے انڈے دیتی ہے۔ احتساب کا نعرہ ہماری تاریخ میں سیاسی عمل کی ساکھ ختم کرنے کا ہتھیار رہا ہے۔ اس سے کوئی معاشی بہتری پیدا نہیں ہو گی، الٹا سیاسی منظر پر غیر ضروری تلخی اور نقصان دہ قطبیت جنم لے گی۔ پچھلے سو دن میں وزیراعظم اور ان کے رفقا نے اداروں کے ایک پیج پہ ہونے کا بار بار ذکر کیا ہے، بدقسمتی سے جس صفحے پہ ادارے یکجا ہوئے ہیں وہاں پارلیمنٹ نامی ادارے کا کوئی ذکر نہیں۔ تو لیجیے اب شاد عارفی کا مصرع سن لیجیے اور اگر مفہوم جاننے میں کوئی دقت ہو تو مفتی عبدالقوی سے رجوع فرمائیے۔

سالی اور سلہج پہ لٹو، بیوی سے حمام نہیں