قومی بیانیہ

December 08, 2018

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ روز اپنی مفصل پریس بریفنگ میں ملک و قوم کو درپیش اہم مسائل پر افواجِ پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ ان میں کنٹرول لائن پر بھارت کی مسلسل اشتعال انگیزیاں، کرتار پور راہداری کھولے جانے کے اسباب، آپریشن رد الفساد کے حوصلہ افزا نتائج، افغانستان میں بدامنی پر قابو نہ پائے جانے کی وجہ سے درپیش مشکلات، بلوچستان کی صورتحال، لاپتا افراد کا مسئلہ، کراچی میں امن و امان کی بحالی، خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کے خلاف حاصل ہونے والی کامیابیاں، پختون تحفظ موومنٹ اور اس کے مطالبات، فوج اور حکومت کے باہمی تعلقات نیز موجودہ حالات میں میڈیا کا مطلوبہ کردار اور بعض دیگر موضوعات شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فوج کی جانب سے شہری آبادی کو نشانہ بنائے جانے کے جواب میں ہم شہری آبادی پر فائرنگ نہیں کر سکتے البتہ بھارت جنگ کرنے آئے گا تو اسے دیکھ لیں گے۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کے حوالے سے پاک فوج کا یہ مؤقف بلاشبہ اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں کی پاسداری کی روشن مثال ہے، عالمی برادری کو اس کا احساس کرتے ہوئے بھارت کو شر پسندی سے روکنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہئے۔ کرتارپور راہداری کو بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے قیام کی ایک نمایاں کوشش کے طور پر پیش کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے صراحت کی کہ سکھ یاتری صرف مذہبی رسومات کیلئے آئیں گے اور وہیں سے چلے جائیں گے۔ بلوچستان میں حالات کی بتدریج بہتری کو پاک فوج کے ترجمان نے واقعاتی صورتحال کی روشنی میں واضح کیا اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی آپریشن کے نتیجے میں یہ شہر جو چار سال پہلے دہشت گردی کے معاملے میں دنیا میں چھٹے نمبر پر تھا اب 57ویں نمبر پر آگیا ہے۔ پختون تحفظ موومنٹ کے مطالبات اور انہیں پورا کرنے کے لیے کی جانے والی نتیجہ خیز کاوشوں کا تذکرہ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے پوری شرح و بسط کیساتھ کیا۔ لاپتا افراد کی بازیابی کی کوششوں میں اب تک ہونیوالی کامیابیوں کا بھی اعداد و شمار کے ساتھ جائزہ پیش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پختون تحفظ موومنٹ کو متنبہ کیا کہ وہ اس حد تک نہ جائیں کہ ان کے خلاف طاقت کا استعمال ناگزیر ہو جائے۔ معیشت، گورننس، عدالتی نظام اور جمہوریت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ہماری فالٹ لائنیں ہیں۔ اسی طرح مذہب اور فرقوں کے نام پر اشتعال انگیزی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ حالات پر ان کا مجموعی تبصرہ یہ تھا کہ پاکستان اس وقت ایک ایسے اہم موڑ پر ہے جس کے بعد آنے والا وقت یا تو بہت اچھا ہوگا یا بہت خراب، آج کی فوج پرانی فوج نہیں، ایک ایک اینٹ لگا کر پاکستان دوبارہ بنا رہے ہیں، دہشت گردی کی جنگ میں ملوث ہونے کے نتیجے میں حالات خراب ہوئے لیکن پچھلے چند سال میں بہتری آئی ہے، معیشت پیروں پر کھڑی ہو گئی ہے، ترقیاتی اور اچھے کام بھی ہو رہے ہیں۔ اس تناظر میں فوج کے ترجمان نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میڈیا چھ مہینے تک صرف ترقی دکھائے۔ حکومتی اقدامات پر کی جانے والی تنقید کے ضمن میں انہوں نے سوال کیا کہ آخر ہم ترقی کے عمل کو کیوں پلٹنا چاہتے ہیں۔ بلاشبہ حکومت اور ریاستی اداروں کے اقدامات میں خوامخواہ کیڑے نکالنے کی روش سخت قابلِ اعتراض اور قومی مفاد کے منافی ہے لیکن جہاں تک ایسی تنقید کا معاملہ ہے جو اصلاح اور بہتری کے لیے ہو تو اس کے بغیر ترقیاتی عمل کا جاری رہنا ممکن نہیں لہٰذا ایسی تنقید کی نہ صرف آزادی ہونی چاہئے بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی جانی چاہئے۔ اگر میڈیا حالات کا صرف روشن رخ دکھانے تک محدود ہو جائے تو اس کا اعتبار جاتا رہے گا، جیسے ماضی میں ہوا کرتا تھا کہ لوگ حقائق جاننے کے لیے قومی ذرائع ابلاغ کے بجائے بیرونی نشریاتی اداروں پر بھروسہ کرتے تھے۔ میڈیا کا کردار فی الحقیقت ایک آئینے کا سا ہونا چاہئے جو خوبیوں اور خامیوں سب کو بلا کم و کاست قوم کے سامنے پیش کرتا رہے اور حکومتیں اور مقتدر حلقے اپنی پالیسیوں اور اقدامات کو اس کی روشنی میں بہتر بنا سکیں۔