قومی کھیل میں تباہی، بربادی اور رسوائی ہمارا مقدر کیوں؟

December 18, 2018

ورلڈ کپ ہاکی ٹور نامنٹ بیلجیم کی جیت پر ختم ہوا جس نے فائنل میں ہالینڈ کو شکست دے کر پہلی بار یہ اعزاز حاصل کیا، اس اہم ایونٹ میں پاکستان نے12ویں پوزیشن حاصل کی، ٹور نامنٹ میں پاکستان کی کار کردگی حددرجہ مایوس کن رہی، ٹور نامنٹ کے فار میٹ سے اسے بیلجیم کے خلاف ایک اور میچ مل گیا جو پر ی کوا رٹر فائنل تھا، قومی ٹیم کے لئے پول میچوں میں خراب پر فار منس کے بعد یہ ایک سنہری موقع ملا تھا کہ وہ اس میچ کو جیت کر کوارٹر فائنل میں پہنچ جائے مگر قومی کھلاڑیوں نے اس میچ میں بھی جس کا کردگی کا مظاہرہ کیا وہ افسوس ناک تھی، پول میچوں میں پاکستان جرمنی سے ایک گول سے ہارا، ملائیشیا کے خلاف میچ ایک، ایک گول سے برابر رہا، جبکہ ہالینڈ کے ہاتھوں اسے5.1سے ناکامی کا سامنا کرنانا ُپڑا، پری کوارٹر فائنل میں بیلجیم نے5,0 سے قومی ٹیم کی در گت بنائی، پاکستان نے ایونٹ میں بارہ گول کھائے اور صرف دو گول بنائے، پاکستانی ہاکی ٹیم کی اس کا کردگی کے باوجود بنہ تو فیڈریشن کے کسی عہدے دار نے استعفی دیا اور نہ ہی ٹیم کا کوئی آ فیشل مستعفی ہوا، ہیڈ کوچ توقیر ڈار نے صرف ورلڈ کپ کے لئے ذمے داری سنبھالی تھی اسی لئے انہوں نے اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا،پاکستان ہاکی فیڈریشن نے اس کار کردگی پر ایک کمیشن بنادیا جس میںشام ارکان میں سوائے منظور الحسن کے تینوں ارکان موجودہ پی ایچ ایف کے ساتھ کام کرچکے ہیں یا نرم گوشہ رکھتے ہیں، ایسے میں کسی بھی انکوائری کو حکومت کو محض بے وقوف بنانے کی نئی چال ہے، پی ایچ ایف کے حکام نے ورلڈ کپ کے ممکنہ نتائج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے عہدے کو بچانے کے لئے پہلے پاکستان سپر ہاکی لیف کو ملتوی کیا اور پھر انٹر نیشنل ہاکی سیریز کو منسوک کریا جو ستمبر میں ہونے والی تھی ، ان دونوں ایونٹس کو ورلڈ کپ کے بعد کرانے کا مقصد حکومت کو اس اہم ایونٹ میں الجھا کر اپنی سیٹ کو محفوظ رکھنا ہے، تاہمشائقین ہاکی اس بات پر حیران ہیں کہ نئے پاکستان میں آ نے والی حکومت جس کے کپتان وزیر اعظم عمران خان کی وجہ شہرت بھی کھیل ہے ان کی موجودگی میں قومی کھیل تباہی، بربادی اور رسوائی بنا ہوا ہے مگر ان کی جانب سے مکمل خاموشی معنی خیز ہے، کئی سابق ہاکی اولمپئینز اور سابق کپتانوں نے اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر فیمیدہ مرزا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے حکام کے خلاف ایکشن لینے کے لئے کب جاگے گے، قومی کھیل کے اعلی عہدے داروں کو پچھلے پانچ سالوں کے دوران دی جانے والی گرانٹ کا حساب کون لے گا، ناکامیوں کا احتساب کون کرے گا، اب یہ سوال ہر محفل کی آواز بن گیا ہے کہ کیا تبدیلی کے دعوے دا وزیر اعظم عمران خان کے دور میں بھی قومی کھیل میں نئی جا ن نہیں پیدا ہوسکے گی، ہم اسی طرح قومی کھیل میں مایوسی، اداسی اور ٹائٹل سے محرومی کا شکار رہیں گے۔ ورلڈ کپ ہاکی ٹور نامنٹ میں قومی ہاکی ٹیم کی مایوس کن پر فارمنس پر سابق ہاکی اولمپئینزپھٹ پڑے، انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں فوری طور پر تبدیلی لائی جائے، ایمان دار اور مخلص افراد کو فیڈریشن میں لایا جائے تاکہ 2020 اولمپکس گیمزکے لئے اچھی ٹیم تیار ہوسکے، سابق کپتان فلائنگ ہارس سیمع اللہ نے کہا کہ فیڈریشن میں تبدیلی کے بغیر قومی ہاکی میں بہتری نہیں آ سکتی، انہوں نے کہا کہ بیلجیم کے خلاف میچ سے ایک اچھا موقع ملاتھا جس کا کھلاڑی فائدہ نہیں اٹھاسکے، انہوں نے کہا کہانٹر نیشنل ہاکی فیڈریشن نے پاکستان کو اس ایونٹ میں بہترین موقع فراہم کیا تھا، سابق کپتان حنیف خان نے کہا کہ ٹیم سے اسی کار کردگی کی توقعات تھی، فیڈریشن میں نااہل افراد شامل ہیں جن کی موجودگی میں کسی قسم کی اچھی خبر نہیں مل سکتی ہے، ، سابق کپتان منظور جونیئر نے بھی فیڈریشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جب تک مخلص لوگ آگے نہیں آ ئیں گے ہاکی میں ہمارا حال ایسا ہی رہے گا،سابق کوچ نوید عالم نے کہا کہ پی ایچ ایف کے حکام صرف فنڈ کا رونا روتے رہے اور ٹیم کی تیاری پر ان کی توجہ دکھائی نہیں دی،سابق اولمپئن خالد بشیر نے کہا کہ ٹیم نے وہ ہی کھیل پیش کیا جس کی اس سے امید تھی۔ورلڈکپ ہاکی ٹور نامنٹ میں ناکامی کےبعد وطن واپسی پر جنگ سے بات کرتے ہوئے ٹیم کے کوچ توقیر ڈار نے کہا کہ پہلے میچ میں کھلاڑی پلان کے مطابق کھیلے مگر بعد کے میچوں میں انہوں نے حکمت عملی پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے ہمیں ناکامی کا سامنا کرناپڑا، انہوں نے کہا کہ کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ ہے مگر معاشی مسائل کی وجہ سے وہ پریشان ہیں جس کی وجہ سے ہمیں شکست کا سامنا کرنا پڑا، انہوں نے کہا کہ اسپین، آئر لینڈ کی عالمی درجہ بندی ہم سے بہتر تھی مگر انہیں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا، ہماری پوزیشن 11ویں رہی عالمی درجہ بندی میں کچھ بہتر ی آئی ہے۔