قوم کا مقدمہ

December 25, 2018

سچ کی یہ خوبی کمال ہے کہ اسے کوئی جتنا مرضی چھپانے کی کوشش کرے وہ سامنے آ ہی کے رہتا ہے۔ 22دسمبر کو لاہور میں پنجاب حکومت کے سو دنوں کے حوالے سے ایک تقریب کا انعقاد ہوا۔ اس تقریب میں کئی کڑوے سچ بولے گئے، خدا کا شکر ہے کہ حکمرانوں نے سچ بولنا شروع کر دیا ہے۔ تقریب میں کئی کڑوے سچ وزیراعظم نے بولے اور بہت سا سچ مخدوم ہاشم جواں بخت سامنے لے آئے۔ انہوں نے پنجاب کا مقدمہ بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا، خاص طور پر جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا تذکرہ کیا۔ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب مرحوم حنیف رامے نے ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھی تھی۔ آج پنجاب کے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کا قصہ پنجاب کے مقدمے میں پیش کر دیا ہے۔ ہاشم جواں بخت اور اسد عمر میں بڑا فرق یہ ہے کہ اسد عمر کو مقدمہ پیش کرنا نہیں آتا جبکہ ہاشم جواں بخت مقدمے کو اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ سننے والوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتا ہے، پنجاب کو جواں بختوں والا ہاشم مبارک ہو کہ وہ کم از کم مقدمہ تو صحیح انداز میں پیش کرتا ہے۔ اس نے سو دنوں کا مقدمہ بڑے احسن انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے ماضی کا آئینہ دکھایا، خاص طور پر پچھلے آٹھ دس سالوں میں جو ہوا، اسے کھلے اور واضح لفظوں میں بیان کر دیا۔ کس طرح صوبے کو مقروض بنایا گیا، کس طرح سرکاری ملازمین کی جمع پونجی ہڑپ کی گئی؟ ہاشم جواں بخت نے دس سالہ حکمرانی میں سے سات سالہ تصویر پیش کی اگرچہ دس سالوں میں خرابیاں زیادہ تھیں۔ نام نہاد گڈ گورننس کس طرح جنوبی پنجاب کی محرومیوں میں اضافہ کرتی رہی۔ پچھلے سات سالوں میں جنوبی پنجاب کی آبادی جو کہ پنجاب کی 32فیصد ہے، اسے کاغذات میں 28فیصد ظاہر کیا گیا اور جب وسائل کی تقسیم کی بات ہوئی تو جنوبی پنجاب کو صرف 17فیصد کے حساب سے وسائل دیئے گئے جو کہ ناانصافی کی انتہا تھی۔ اس طرح جنوبی پنجاب کو 265ارب سے محروم رکھا گیا، لوگوں کو ان کے حق سے محروم رکھا گیا مگر اب ایسا نہیں ہو گا، اب جنوبی پنجاب کے لئے الگ بجٹ ہو گا اور وہ جنوبی پنجاب ہی پر خرچ ہو گا۔ یکم جولائی سے جنوبی پنجاب کے لئے الگ سیکرٹریٹ نہ صرف قائم ہو گا بلکہ متحرک نظر آئے گا۔ ہاشم جواں بخت کے بقول وہ بہت سی محرومیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور یکساں پنجاب کا خواب پورا ہو گا۔ پنجاب میں اکنامک گروتھ کو سات فیصد تک لے جایا جائے گا۔ پنجاب میں زرعی اور صنعتی ترقی کی پالیسیوں کے علاوہ شاندار لیبر پالیسی بھی نافذ ہو گی، بجٹ کا خاصا حصہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہو گا۔ ایک کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لایا جائے گا۔

مخدوم ہاشم جواں بخت نے وزیراعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے لیڈر کو ہماری محرومیوں کا احساس ہے، اسی لئے تو انہوں نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ ایک محروم علاقے سے بنایا ہے‘‘ سردار عثمان بزدار خوش قسمت ہیں کہ وزیراعظم ان کے مداح ہیں۔ 22دسمبر کو بھی دورانِ تقریر وزیراعظم عمران خان نے سردار عثمان بزدار کی تعریف کی اور پھر کہا کہ ’’عثمان بزدار کا سب کچھ پاکستان میں ہے، پاکستان سے باہر کچھ نہیں‘‘۔

لاہور میں وزیراعظم پاکستان نے ناانصافیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مشرقی پاکستان کو بھی یاد کیا اور برملا کہا ’’مشرقی پاکستان کے لوگ پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے مگر انہیں جب وسائل سے محروم رکھا گیا تو پھر وہاں نفرت نے جنم لیا، ماضی قریب میں جنوبی پنجاب اور بلوچستان کو بھی محروم رکھا گیا، ہمیں اس ناانصافی کو ختم کرنا ہو گا کیونکہ ناانصافی کی وجہ سے انتشار بڑھتا ہے۔ انصاف کی عدم فراہمی کا فائدہ دشمن اٹھاتا ہے۔ ‘‘

وزیراعظم نے پاکستانی قوم کا مقدمہ درست انداز میں پیش کیا۔ ان کی یہ بات درست ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان بہت سے ایشیائی ملکوں سے بہت آگے تھا مگر آج پاکستان ان سے بہت پیچھے ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اکیس کروڑ آبادی کے حامل پاکستان کی برآمدات صرف 24ارب ڈالرز ہیں جبکہ پچاس لاکھ آبادی والے سنگاپور کی برآمدات 330ارب ڈالرز ہیں، اسی طرح چھ کروڑ آبادی کے حامل ملائشیا کی برآمدات 220ارب ڈالرز ہیں۔

خواتین و حضرات! اگر پاکستانی قوم کے مقدمے کا جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یہاں وسائل کی تقسیم میں ناانصافی کی گئی، یہاں کرپشن کا دور دورہ رہا، یہاں لوٹ کھسوٹ کے موسم عروج پر رہے۔ اسی سوچ نے پاکستانی لوگوں کو محروم رکھا، اسی سے پاکستان پیچھے گیا۔ خاص طور پر 80ء کی دہائی میں سامنے آنے والی سیاسی قیادتوں نے پچھلے تیس پینتیس برسوں میں دولت کے حصول کو مقصد حیات بنائے رکھا۔ سیاستدانوں نے دولت کی دیوی کی پرستش کی، اس سے چند گھرانے تو دولت مند ہو گئے مگر ملک اور ملک میں بسنے والے کہیں پیچھے چلے گئے۔ پاکستان کے سیاسی مافیا نے لوگوں کو اس طرح یرغمال بنائے رکھا کہ انہیں محروم رکھ کر اپنے اقتدار کی باریاں مقرر کیں، دونوں ایک دوسرے کو تحفظ دیتے رہے، دونوں لوٹ مار میں شامل رہے۔ اس سیاسی مافیا نے کسی تیسری قیادت کا راستہ روکے رکھا کیونکہ سیاسی مافیا کی جڑیں پورے نظام میں پھیلی ہوئی تھیں بلکہ اس مافیا نے پورا نظام یرغمال بنا رکھا تھا، سیاسی مافیا بیرونی دنیا میں دولت کے انبار لگاتا رہا، اپنی جائیدادیں بناتا رہا، سیاسی مافیا کے بچے باہر پڑھتے رہے، سیاسی مافیا کی عیدیں بھی ملک سے باہر ہوتی تھیں، دولت کے ان پجاریوں نے قوم کے ساتھ ہر وقت جھوٹ بولا۔ اب جب ان کا حساب کتاب ہو رہا ہے تو یہ مافیا اپنے آپ کو بچانے کے لئے اب بھی سرگرم ہے، پاکستانی سیاست کی بدقسمتی ہے کہ یہاں آج بھی پی اے سی کا چیئرمین ایسا شخص بن جاتا ہے جس پر کرپشن کے الزامات ہیں مگر کیا کیجئے یہ سب نظام کی مجبوریاں ہیں، مجبوریوں کا یہ سفر ختم ہونے والا ہے، مجبوریوں اور ناانصافیوں کا یہ نظام ختم ہونا چاہئے، یہی پاکستانی قوم کا مقدمہ ہے۔ اب پاکستانی قوم پُرامید ہے کہ وہ اپنا مقدمہ جیت جائے گی، ان کی محرومیاں دور ہوں گی، ان کا پیسہ لوٹا نہیں جائے گا، انہیں مقروض کرنے والے جیلوں میں ہوں گے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کے لئے پاکستانی قوم کا یہ مقدمہ جیتنا بہت ضروری ہے۔ ہم نے پہلے ہی بہت کچھ کھویا ہے۔ اسی کھونے پر تو نوشی گیلانی یاد آتی ہیں کہ ؎

وحشتِ عشق میں کوئی تو زیاں ہونا تھا

اپنی آنکھیں جو بچا لیتے تو چہرہ جاتا