امرتسر میں ناشہ، لاہور میں لنچ اور کابل میں ڈنر کب ہوگا؟

December 24, 2012

ممبئی میں دہشت گردی کا واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں حکومتیں تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے اپنے اپنے انداز میں کوششیں کر رہی تھیں اور کچھ مشترکہ مساعی بھی جاری تھی لیکن ممبئی پر حملوں کے ذمہ دار دہشت گردوں نے نہ صرف سارے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا بلکہ ممبئی کی چلتی گاڑی کا پہیہ بھی روک دیا تھا، شہر بھر کی زندگی کو مفلوج کردیا گیا تھا۔ حملہ کرنے والے دس دہشت گردوں میں سے نو مارے گئے تھے جن کے جنازے پڑھانے اور تدفین کیلئے بھارت کی سرزمین اور پانیوں کو استعمال کرنے کیلئے علماء نے انکار کردیا تھا۔ بھارت پر حملے کا بنیادی مقصد معصوم شہریوں کی زیادہ سے زیادہ جانیں لینا تھا۔ علاوہ ازیں املاک کا نقصان، شہریوں میں خوف و ہراس پیدا کرنا، غیر ملکیوں اور ٹورسٹوں کو بھارت سے دور رکھنا شامل تھا جس کیلئے بقول بھارتی حکومت ان دہشت گردوں کو ڈیڑھ سال قبل پاکستان کے چار مختلف شہروں اور علاقوں میں ٹریننگ دی گئی جن میں مریدکے، جھنگ، مظفر آباد اور کراچی شامل ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ نے ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت پاکستان میں چند ٹارگٹس کو فضائی فورس سے نشانہ بنا سکتا ہے جن میں جھنگ، مریدکے اورمظفر آباد بے حد اہمیت کے حامل ہیں۔ جنرل نے کہا تھا کہ جس طرح ہم امریکی حملوں کے عادی ہوچکے ہیں اور ان حملوں کو ہنسی خوشی مسلسل برداشت کر رہے ہیں اسی طرح بھارتی حملے بھی برداشت کرنے پڑیں گے۔
سابق وزیر اعظم واجپائی نے ایک بار کہا تھا کہ ”دوست بدلے جا سکتے ہیں پڑوسی نہیں بدلے جا سکتے“۔ اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مجھے یہ کہنا ہے کہ یورپی ممالک کی طرح ہندوستان اور پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک بھی متحد ہوسکتے ہیں یورپ کے یہ ممالک جب منتشر تھے ان کی نہ تو کوئی آواز تھی اور نہ ہی عالمی معیشت میں ان کا کوئی اثر و رسوخ تھا لیکن جب یورپی ممالک نے اپنی یونین بنالی تو سب سے پہلے آپس میں جنگ نہ کرنے کی قسم کھائی بعدازاں جب اس نے ایک ہی کرنسی کو اپنایا تو وہ عالمی معیشت اور عالمی سیاست میں بھی قابل لحاظ طاقت بن گیا، مثالیں تو سیکڑوں ہیں مگر میں یہاں صرف ایک مثال دوں گا۔ یہی کیا کم بڑا کارنامہ ہے کہ یورپی یونین کی کرنسی ”یورو“ کے زر مبادلہ کی قیمت آج امریکی ڈالر سے زیادہ ہے۔ پاکستان دہشت گردوں کا قلع قمع کرکے کیوں یہ تجربہ بھارت کے ساتھ نہیں کر سکتا؟ یورپی یونین کا یہ تجربہ جب مغرب میں کامیاب ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے علاقے میں ایسا تجربہ نہیں کر سکتے؟
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے گزشتہ سال اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے دوران امن معاہدہ دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کئی دہائیوں سے چلی آرہی دشمنی دوستی میں بدل جائے انہوں نے کہا تھا، ”میں اُس دن کا خواب دیکھتا ہوں جب ہمارا ناشتہ امرتسر میں، دوپہر کا کھانا لاہور میں اور رات کا کھانا کابل میں ہو“ لیکن جانے کیوں من موہن سنگھ کے خواب کو عملی جامہ نہ پہنایا گیا۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ ”ہمارے بڑوں نے ایسا کیا تھا اور میں چاہتا ہوں ہمارے بچے بھی ایسا کریں“۔ میرے حساب سے وزیر اعظم من موہن سنگھ کا یہ بیان یا خواہش یا حسرت ایک خوش آئند اور حوصلہ افزا اقدام تھا اور ہے۔ یہ بیان دونوں ملکوں کے غریب پسے ہوئے اور محروم لوگوں کیلئے خوشحالیوں اور کامرانیوں کی ایک نوید ہے۔ پاکستان اور بھارت دونوں دفاع پر بے تحاشہ رقم خرچ (ضائع) کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف دونوں ملکوں میں غربت، فاقہ کشی، بے روزگاری اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے بلکہ پورا خطہ مسائل کا شکار ہے۔ سی آئی اے ورلڈ فیکٹس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اپنے دفاع پر سالانہ 10 سے 12 بلین جبکہ بھارت35 بلین مزید خرچ کر رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے اقتصادی، سماجی اور معاشی اشارے انتہائی ناگفتہ ہیں اگر تعلیمی میدان کو دیکھا جائے تو بھارت میں شرح خواندگی 75 فیصد جبکہ پاکستان میں شرح خواندگی 22 فیصد ہے۔ اس کے برعکس جاپان جو کہ ایشیا میں شامل ہے اور ایک چھوٹا سا ملک ہے اس کی شرح خواندگی 100 فیصد ہے، سری لنکا جو کہ اس سے بھی کمتر ملک ہے وہاں شرح خواندگی98 فیصد ہے۔ تعلیمی میدان کے علاوہ پاکستان اور بھارت کے دوسرے سماجی اعشاریوں کو دیکھا جائے تو یہ نہ صرف انتہائی نچلے درجہ کے ہیں بلکہ انتہائی شرمناک بھی ہیں اگر دونوں ممالک میں بچوں کی شرح اموات کو دیکھا جائے تو پاکستان میں بچوں کی شرح اموات 85 فی ہزار جبکہ بھارت میں 42 فی ہزار ہے اس کے برعکس جاپان میں بچوں کی شرح اموات3 فی ہزار ہے اگر پاک و بھارت میں اوسط عمر دیکھی جائے تو بھارت میں 68 سال، پاکستان میں 45 سال اور جاپان میں اوسط عمر85 سال ہے۔ بھارت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کی تعداد 25 فیصد ، پاکستان میں 44 فیصد جبکہ جاپان میں غربت کی لکیر سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ پاکستان میں بے روزگاری کی شرح12 فیصد جبکہ بھارت میں 13 فیصد ہے جبکہ جاپان میں بے روزگاری محض ایک فیصد ہے۔ اس طرح پاکستان کی فی کس جی ڈی پی 2400 ڈالر اور بھارت کی 37 سو ڈالر جبکہ جاپان کی فی کس بی ڈی پی 32000 ڈالر ہے۔ اگر پاکستان و بھارت
کے اقتصادی اشاروں کو دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے لوگوں کی سماجی اقتصادی حالت انتہائی نچلی سطح پر ہے اگر ہم اسی طرح جنگوں کے بارے میں سوچتے رہے یا اسی طرح برصغیر پر جنگ کے بادل چھائے رہے اور اگر ہم اسی طرح ”دفاع“ کے نام پر اخراجات کرتے رہے تو دونوں ممالک کے غریب لوگ کبھی بھی سکھ کا سانس نہیں لے سکیں گے اور ہاں! یہ بتانا تو میں بھول ہی گیا کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کی نیوکلیئر طاقت بن چکے ہیں اور یہ کہ دونوں کے مسائل میں غضبناک یکسانیت ہے۔ اگر یہ دونوں ملک جنگ و جدل سے ”پرہیز“ اور اپنے محدود وسائل کو دفاعی طاقت بڑھانے کیلئے خرچ کرنے کی بجائے ترقی و خوشحالی کیلئے استعمال کریں تو یقیناً ہم دونوں کا مستقبل تابناک ہو سکتا ہے۔ امن کی شاہراہ پر چلنے کیلئے بس وسیع النظری کی ضرورت ہے اس کے بغیر مقصد کا حصول نہیں ہو سکتا۔ دونوں ملکوں کو ”زمینی حقائق“ کو سمجھنا چاہیے۔ میرے حساب سے دونوں ملکوں کا ”شیروشکر“ ہوئے بغیر گزارہ نہیں کہ عمل کاحقیقی امتحان یہ نہیں کہ انسان صحیح کام صحیح وقت اور صحیح جگہ پر کرے بلکہ یہ ہے کہ خواہش اور ترغیب کے باوجود خود کو غلط کام کرنے سے روکے کہ امن کی فاختہ وہیں اترتی ہے جہاں پیار و محبت، رواداری، برداشت، صلح اور صبر کی دھوپ ہوتی ہے …۔
نہ چھوڑنے کا ارادہ نہ ساتھ چلنے کا
عجیب موڑ پہ آکر ٹھہر گئے دونوں!