تو نیا ہے، تو دِکھا صبح نئی، شام نئی…

January 06, 2019

صابر کوثری ، اسلام آباد

سابقہ اسمبلی کے آخری ایّام بحران میں گزرے ٭ عمران خان نئی اسمبلی میں پہلے تو خُوب آئے، پھر آنا چھوڑ دیا٭ اجلاس کی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ پورا ہوا٭پہلے چار ماہ شور شرابے ہی میں گزر گئے

پارلیمانی ایوانوں کی کارکردگی کو جمہوری نظام کے استحکام کی ضمانت قرار دیا جاتا ہے، یعنی سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی کارکردگی جتنی مؤثر ہوگی اور ان کے ارکان جس قدر زیادہ فعال ہوں گے، جمہوریت اُتنی ہی مضبوط ومستحکم ہوگی۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے اور اس میں بہت حد تک صداقت بھی ہے کہ’’ پاکستان میں جمہوریت صرف اس لیے پنپنے نہیں پاتی کہ جیسے ہی یہ ٹریک پر آتی ہے، اُسے ڈی ٹریک کرنے والی طاقتیں سرگرم ہوجاتی ہیں اور اسمبلیوں کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے‘‘، تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی انتہائی اہم ہے کہ کیا گزشتہ تین سیاسی ادوار میں تسلسل کے ساتھ قائم رہنے والی اسمبلیاں، پارلیمانی اور آئینی تقاضوں کے مطابق اپنا مطلوبہ کردار ادا کر پائی ہیں؟ اس بات سے قطع نظر کہ حکومت کس کی تھی اور غلطی کس نے کی،حقیقت یہ ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں وہ کردار ادا نہ کرسکیں، جن کی کسی جمہوری مُلک میں توقّع کی جاتی ہے۔ پھر نئی تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی بھی اب تک کی کارکردگی کوئی خاص حوصلہ افزا یا خوش کُن نہیں۔ لیکن آئیے، پہلے گزشتہ قومی اسمبلی کی کارکردگی کا مختصر سا جائزہ لے لیں۔

2013 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نون کو واضح برتری حاصل ہوئی اور اُس کے سربراہ، میاں محمّد نواز شریف نے 5جون 2013 ء کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف اُٹھایا۔ وہ تیسری مرتبہ اس عُہدے پر پہنچے تھے ،جو ایک ریکارڈ ہے۔رائے شماری میں کام یابی کے لیے نواز شریف کو 172 ووٹ درکار تھے، جب کہ اُنہیں ملنے والے ووٹوں کی تعداد 244 رہی۔ اُن کے مدّ ِ مقابل پیپلز پارٹی کے امیدوار، مخدوم امین فہیم 42 اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما، جاوید ہاشمی محض 31 ووٹس حاصل کر پائے۔ ان اعداد وشمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میاں نواز شریف کی عددی لحاظ سے ایک مضبوط حکومت تھی اور مسلم لیگ نون کی ایوان پر گرفت بھی خاصی مضبوط۔ ابتدا میں وزیراعظم باقاعدگی سے ایوان میں آتے رہے اور ارکانِ اسمبلی سے ملاقاتیں بھی کرتے رہے، لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ کم ہوتا چلا گیا۔ تین ماہ میں وزراء کی کارکردگی کا تو کوئی حساب کتاب نہ ہوسکا، لیکن خود میاں نواز شریف اسمبلی سے دُور ہو گئے۔ البتہ’’میثاقِ جمہوریت ‘‘ کے پیشِ نظر پاکستان پیپلزپارٹی نے یہ طے کیا کہ آئندہ پانچ سال، پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت کو ایوان میں اور ایوان کے باہر دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے گا۔ بہ ظاہر اپوزیشن لیڈر، خورشید شاہ مسلم لیگ نون کی بلندوبانگ آواز میں مخالفت کرتے، لیکن مشکل وقت میں حکومت کے ساتھ کھڑے نظر آئے۔ اسی وجہ سے ایوان میں پاکستان پیپلزپارٹی کو’’فرینڈلی اپوزیشن ‘‘کے طعنے بھی سُننے پڑے، تاہم افہام و تفہیم کا سلسلہ چلتا رہا۔ اس صُورتِ حال میں پاکستان تحریکِ انصاف نے ایوان میں مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کردیا۔ عمران خان اور تحریکِ انصاف کے ارکان ،الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا نعرہ لے کر ایوان میں آئے تھے اور اُن کا دعویٰ تھا کہ اگر الیکشن میں دھاندلی نہ ہوتی، تو وفاق میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہوتی ۔ عمران خان کی قومی اسمبلی کی کارروائی میں عدم دِل چسپی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کا شمار قومی اسمبلی کے اُن ارکان میں کیا جاتا تھا، جن کی ایوان میں حاضری برائے نام تھی اور وہ اپنے بیانات میں اکثر و بیش تر قومی اسمبلی سے بے زاری کا اظہار کرتے ہوئے وہاں ہونے والی کارروائی کو بے مقصد اور وقت کا زیاں قرار دیتے تھے۔ ایوان میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بعض ارکان حکومتی بینچز کو ٹف ٹائم دینے میں مصروف رہے، تو دوسری طرف پیپلزپارٹی کے ارکان’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘کا مظاہرہ کرکے اپنا وزن حکومت کے پلڑے میں ڈال کر ماحول کی شدّت کو زائل کرتے رہے۔ نواز شریف نے اپنی معزولی کے بعد غیر متوقّع طور پر اپنے ایک معتمد ،شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بنایا۔ 31 مئی 2018ء کو اسمبلی کی آئینی مدّت اختتام کو پہنچی، تو اُس وقت قائدِ ایوان، شاہد خاقان عباسی ہی تھے۔

اگر اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تجزیہ کیا جائے، تو 2013 ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی نے 2018ء میں اپنی آئینی مدّت کے آخری پانچ ماہ بحرانی کیفیت ہی میں گزارے۔ شاہد خاقان عبّاسی نون لیگ کی قیادت کے نام زَد کردہ تھے، لیکن اس کے باوجود نون لیگی ارکانِ اسمبلی کی ایک بہت بڑی تعداد اُنہیں ذہنی طور پر وزیرِ اعظم تسلیم نہ کر سکی۔ پھر وہ خود بھی ایوان میں صرف اپنے قائد، میاں نواز شریف ہی کا دفاع کرنے میں مصروف رہے، جس کے دوران اُنھیں پی ٹی آئی کی صفوں سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا بھی پڑا۔ چوں کہ 2018 ء مُلک میں نئے انتخابات کا سال تھا، تو اس کے اثرات قومی اسمبلی پر بھی مرتّب ہوئے۔ سیاسی جماعتوں نے عوام کی زیادہ سے زیادہ حمایت سمیٹنے کے لیے ایوان میں جارحانہ رویّہ اختیار کیا، اس ضمن میں پیپلز پارٹی کا کردار خاصا دل چسپ رہا کہ اُس نے پورے عرصے کے دَوران فرینڈلی اپوزیشن کا رُوپ اختیار کیے رکھا، لیکن انتخابات قریب آتے ہی اُس نے بھی نظریں پھیر لیں۔ سابقہ اسمبلی کے یہ آخری پانچ ماہ عملاً میاں نواز شریف کی حمایت اور مخالفت ہی کے گرد گھومتے رہے۔ حکومتی بینچز کی جانب سے اپنے پارٹی قائد کا بڑھ چڑھ کر دفاع کیا گیا، تو اپوزیشن، خاص طور پر پی ٹی آئی، عدالتی فیصلوں کے حق میں آواز بلند کرتی رہی۔ یوں ان پانچ ماہ میں ایوان کسی اکھاڑے کا منظر پیش کرتا رہا، جہاں تقاریر تو بہت ہوئیں، لیکن ایوان کا اصل کام، یعنی قانون سازی کا عمل معطّل رہا۔ سابقہ اسمبلی کی یہ بھی بدقسمتی رہی کہ اسے جس طرح ابتدائی ایّام میں منتخب نمایندوں کی جانب سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، آخری دِنوں میں بھی صُورتِ حال جُوں کی تُوں رہی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ سابقہ اسمبلی وجود میں آئی، تو تحریکِ انصاف نے دھاندلی کے نام پر پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے طویل دھرنا دیا تھا، جس کے دوران پی ٹی آئی کے چئیرمین، عمران خان قومی اسمبلی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ، 2018 ء میں بھی اُن کی قومی اسمبلی سے متعلق رائے نہ بدلی اور وہ عوامی اجتماعات میں اس کا مذاق اڑاتے رہے، یہاں تک کہ ایک موقعے پر پارلیمنٹ پر لعنت تک بھیج دی۔ 18 جنوری کو لاہور کے مال روڈ پر ہونے والے عوامی اجتماع سے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ 'نواز شریف کو سپریم کورٹ نے مجرم قرار دیا، لیکن پارلیمنٹ میں ہاتھ اٹھا کر مجرم کو پارٹی کا صدر بنانے کے حق میں ووٹ دیے گئے، مَیں ایسی پارلیمنٹ پر لعنت بھیجتا ہوں۔‘‘ ارکانِ پارلیمان اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمّت کی اور قومی اسمبلی میں عمران خان کے خلاف مذمّتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ سابقہ قومی اسمبلی کی ایک اچھی بات یہ رہی کہ اُس نے اپنے اختتام سے قبل نگران وزیراعظم کے انتخاب میں بہترین کردار ادا کیا۔ آئینی طور پر نگران وزیرِ اعظم کا نام، قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف مشاورت سے طے کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کی سخت کشیدگی کے سبب شاید یہ نام اتفاقِ رائے سے طے نہ ہو پائے، لیکن حیرت انگزیز طور پر حکومت اور اپوزیشن، جسٹس ناصر الملک کو نگران وزیراعظم بنانے پر متفّق ہو گئے۔ پی ٹی آئی نے بھی اس نام کی حمایت کی، جو ایک بڑا بریک تھرو تھا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی نے بھی احسن طریقے سے یہ آئینی ذمّے داری نبھائی، تاہم باقی تینوں صوبائی اسمبلیوں کے قائدِ ایوان اور اپوزیشن لیڈرز نگراں وزرائے اعلیٰ کے ناموں پر متفّق نہ ہوسکے اور اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا پڑا۔ سیاسی تجزیہ کاروں نے اسے سیاست دانوں کی ناکامی قرار دیا۔

25جولائی 2018 ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں منتخب ہونے والی 15 ویں قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 13 اگست کو طلب کیا گیا، جس میں اسپیکر، ایاز صادق نے نومنتخب ارکان سے حلف لیا۔ اراکانِ اسمبلی نے اُردو حروف تہجی کی ترتیب سے رجسٹر پر دست خط کیے، سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین، آصف علی زرداری کو دست خط کے لیے بلایا گیا۔ انتخابات کے دَوران ایک دوسرے کے بدترین حریف رہنے والے عمران خان، آصف زرداری، بلاول اور شہباز شریف بھی ایوان میں موجود تھے۔ اس موقعے پر عمران خان اور آصف زرداری نے ایک دوسرے کو مُسکرا کر دیکھا اور پھر دونوں نے مصافحہ کیا۔ اسی طرح، عمران خان کو’’ یوٹرن‘‘ کا نان اسٹاپ طعنہ دینے والے بلاول نے اُن کے ساتھ تصویر بنوائی، تو اُسی شہاز شریف کے ساتھ پُرتپاک مصافحہ کیا، جن پر’’ شوباز‘‘ کی پھبتیاں کستے رہے تھے۔ یوں نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس مُسکراہٹوں کے ساتھ شروع ہوا۔ بلاول بھٹو، رانا ثناء اللہ، فوّاد چوہدری، فیصل واوڈا، علی امین گنڈا پور، اسد قیصر، پرویز خٹک، زرتاج گل اور فرّخ حبیب، قاسم سوری جیسے کئی سیاسی رہنما پہلی بار قومی اسمبلی کا حصّہ بنے، تو مولانا فضل الرحمٰن، اسفند یار ولی، فاروق ستّار، محمود خان اچکزئی، چوہدری نثار اور شاہد خاقان عبّاسی جیسے کئی سینئر سیاست دان اس نئی اسمبلی میں نہیں پہنچ سکے۔ 15 اگست کو قومی اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے پاکستان تحریکِ انصاف کے اسد قیصر کو ایوان کا نیا اسپیکر اور قاسم سوری کو ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا۔ اسد قیصر نے اسپیکر کے انتخاب کے لیے ڈالے گئے 330 ووٹس میں سے 176 ووٹ حاصل کیے، جب کہ اُن کے مدّ ِمقابل امیدوار، پاکستان پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ 146 ووٹ حاصل کر سکے۔ اسد قیصر کی کام یابی کے اعلان کے ساتھ ہی حزبِ اختلاف کی نشستوں پر موجود مسلم لیگ نون کے اراکینِ اسمبلی نے نعرے بازی شروع کردی اور اسی شور شرابے میں سبک دوش ہونے والے اسپیکر، ایاز صادق نے اسد قیصر سے حلف لیا۔ ڈپٹی اسپیکر کے عُہدے کے لیے تحریکِ انصاف کے قاسم سوری 183 ووٹ لے کر کام یاب ہوئے۔ اُن کا مقابلہ اپوزیشن کے اسعد محمود کے ساتھ تھا، جنھیں 144 ووٹ ملے۔ یہ مراحل اختتام کو پہنچے تو ایوان میں 17 اگست کو وزراتِ عظمیٰ کے لیے پولنگ ہوئی، جس میں عمران خان 176 ووٹ لے کر نئے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اُن کے مدّ مقابل امیدوار، مسلم لیگ نون کے شہباز شریف کو 96 ووٹ پڑے۔ یاد رہے، پیپلز پارٹی نے اس انتخاب میں کسی کی بھی حمایت نہ کرتے ہوئے رائے شماری میں حصّہ نہیں لیا۔ عمران خان نے وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں اپوزیشن پر سخت تنقید کی، جس سے ماحول میں کشیدگی پیدا ہوئی۔ صدرِ مملکت، ممنون حسین نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین، عمران خان سے 18اگست 2018 ء کو وزارتِ عظمیٰ کا حلف لیا۔

نئی قومی اسمبلی کو وجود میں آئے چار ماہ سے زاید کا عرصہ گزر چُکا ہے، لیکن زیادہ وقت الزامات، ہنگامہ آرائی، احتجاج، واک آؤٹ اور شورشرابے ہی میں گزر گیا۔ قانون سازی نہ ہونے کے سبب حکومت ،صدارتی حکم ناموں کے ذریعے معاملات نمٹا رہی ہے۔ قومی اسمبلی میں مختلف اُمور نمٹانے کے لیے قائمہ کمیٹیز قائم کی جاتی ہیں، جن میں سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ مختلف وزراتوں اور سرکاری محکموں کے حسابات پر اٹھائے گئے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیتی ہے۔ روایتی طور پر اس کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کی پاس رہی ہے، تاہم تحریکِ انصاف نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اپوزیشن نے بھی پیچھے ہٹنے سے انکار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر اس کمیٹی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر، شہباز شریف کو نہ دی گئی، تو وہ کسی بھی کمیٹی کا حصّہ نہیں بنے گی۔ بعدازاں، پسِ پردہ رابطوں نے کام دِکھایا اور وزیرِ خارجہ، شاہ محمود قریشی نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے پی اے سی کی سربراہی قائدِ حزبِ اختلاف کو دینے کا اشارہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت ایوان کو افہام و تفہیم سے چلانے کے لیے اپنے مؤقف میں لچک لا رہی ہے۔ یہ معاملہ یوں سلجھا کہ شہباز شریف کو بلامقابلہ پی اے سی کا چئیرمین منتخب کر لیا گیا۔ شہباز شریف کے اس طرح انتخاب پر پی ٹی آئی کے اندر سے بھی سخت تنقید سامنے آئی۔وزیرِ اطلاعات، فوّاد چوہدری اور شیخ رشید نے عوامی سطح پر حکومتی فیصلے پر ناراضی کا اظہار کیا۔ نئی اسمبلی کے حوالے سے ایک اہم بات یہ بھی رہی کہ ابتدائی دنوں میں وزیرِ اعظم، عمران خان پابندی سے اجلاسوں میں شریک ہوتے رہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی حاضری بھی کم ہوتی جا رہی ہے۔ حالاں کہ تحریکِ انصاف، ماضی میں میاں نواز شریف کے اسمبلی اجلاسوں میں نہ آنے پر بہت واویلا کرتی رہی ہے۔

قومی اسمبلی اجلاس کی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کا مطالبہ بہت پُرانا ہے، لیکن اس پر کبھی سنجیدگی سے عمل درآمد کی کوشش نہیں کی گئی، تاہم نئی تشکیل پانے والی اسمبلی میں اس مطالبے پر جزوی طور پر عمل درآمد ہو گیا ہے۔ وہ یوں کہ نجی چینلز کو اسمبلی کارروائی کی کوریج کی اجازت تو نہیں دی گئی، وہ اب بھی سرکاری ٹی وی ہی کے مرہونِ منّت ہیں، لیکن پھر بھی سرکاری ٹی وی اب قومی اسمبلی اجلاس کا خاصا بڑا حصّہ براہِ راست نشر کرنے لگا ہے۔نیز، وفاقی وزیرِ اطلاعات کی جانب سے پارلیمنٹ کے لیے الگ چینل بنانے کی بات بھی سامنے آئی ہے، اگر ایسا ہوجاتا ہے تو قوم کو اپنے نمایندوں کی کارکردگی سے آگاہ ہونے کے زیادہ مواقع مل سکیں گے۔