ن لیگ احتجاج کے بجائے دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا

January 10, 2019

حکومت کی اہلیت قابلیت اور صلاحیت کے حوالے سے فی الحال کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل کام ہے تاہم یہ درست ہے کہ کچھ بلکہ چند ایک شعبوں میں حکومت بہتر کام کر رہی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں لوگ عاجز اور پریشان ہیں۔ حکومت بجا طور پر کرپشن کے خاتمے کو بہت اہمیت دے رہی ہے لیکن اس کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ امتحان میں کامیابی کافی نہیں ہوتی سات پرچوں اور مضامین میں بھی کامیابی ضروری ہوتی ہے۔ حکومت کا یہ حال ہے کہ اس نے کرپشن پر ہی زور دیا ہوا ہے معیشت کی بحالی اقتصادی ترقی ترقیاتی منصوبے گڈ گورنس سب اس کی ترجیحی فہرست سے غائب ہیں عام آدمی کی بات تو چھوڑ دیجئے چیف جسٹس پاکستان کے یہ ریمارکس صورتحال کی صحیح عکاسی کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومتی معاملات نہیں چل رہے پنجاب میں نا اہلی نکما پن انتہا کو پہنچ چکا ہے انہوں نے وزیر صحت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مذموم عزائم والے افراد کو لے کر چلنا حکومت کی پالیسی ہے انہوں نے یہ تمام ریمارکس سابقہ مسلم لیگی حکومت کے تیار کردہ پی کے ایل آئی منصوبے کے تناظر میں دیئے دراصل موجودہ حکومت بھی وہی غلطی کر رہی ہے جو کہ سابقہ حکومت اس سے پہلی والی صوبائی حکومت کے منصوبوں کے حوالے سے کر رہی تھی شہباز شریف نے چوہدری پرویز الٰہی کے کئی منصوبوں کو نامکمل رکھا ان میں کچھ صحت کچھ تعلیم کے حوالے سے اہم منصوبے تھے موجودہ حکومت بھی یہ ہی غلطی کر رہی ہے اس وقت سب سے اہم منصوبہ جو کہ 80سے 85فیصد مکمل ہو گیا ہے یعنی اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ اس کو مکمل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس منصوبے پر ڈیڑھ کھرب روپے کی کثیر رقم خرچ ہو چکی ہے یہ سی پیک کا بھی ایک طرح سے حصہ ہے چین جیسے دوست ملک کی خواہش ہے کہ اس کو جلد مکمل کیا جائے یہ تو صاف ظاہر ہے کہ اس اہم ترین اور عوامی مفاد عامہ کے منصوبے کو اس مرحلے پر ختم تو نہیں کیا جا سکتا بس قصہ یہ ہے کہ حکومت اس منصوبے کا کریڈٹ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو دینا نہیں چاہتی اسی طرح گردے جگر کے ٹرانسپلانٹ ہسپتال کے منصوبے کو بھی متنازع بنایا جا رہا ہے بعض تعلیم اور صحت کے منصوبوں کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے لیپ ٹاپ سکیم ختم کر دی گئی دانش اسکولوں کا مستقبل مخدوش نظر آ رہا ہے سالڈ ویسٹ مینجمنٹ وغیرہ کے منصوبوں کو بھی وہ اہمیت نہیں دی جا رہی جو کہ ماضی کی حکومت دیتی تھی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نئے منصوبوں کے اجراء کا تو دور دور نشان نہیں الٹا پرانے منصوبوں کا مذاق اڑا کراور متنازعہ بنا کر ان کی اہمیت کو ختم کیا جا رہا ہے پنجاب کے عوام موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اور شہباز شریف کی کارکردگی کا بجا طور پر موازانہ کرتے ہیں فوڈ اتھارٹی نے ماضی میں جس طرح 70سال میں پہلی دفعہ ملاوٹ سے پاک اور ہوٹلوں اور دیگر جگہوں پر فروخت ہونے والی کھانے پینے کی اشیاء کے حوالے سے جو شعورو آگہی پیدا کی اس کو سیاست سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے اب اس مہم کو بھی متنازعہ بنایا جا رہا ہے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید اس میں پیش پیش ہیں۔ انہیں اعتراض ہے کہ ملاوٹ شدہ یا ناقص اشیاء فروخت کرنے والوں یا قواعد و ضوابط کی پابندی نہ کرنے والوں کو بھاری جرمانے کیوں کئے جا رہے ہیں؟ یہ اعتراض بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے لگتا ہے کہ سابقہ حکومتوں کے اچھے منصوبوں کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے شیخ صاحب پھر یہ اعتراض تجاوزات کے خاتمے کے خلاف مہم پر کیوں استعمال نہیں کرتے؟ تجاوزات کے خاتمے کی اس مہم نے لاکھوں افراد کا روز گار چھین لیا ہے وہ اس حوالے سے ان سے ہمدردی کیوں نہیں کرتے؟

نواز شریف کی گرفتاری کے بعد آصف زرداری کی متوقع گرفتاری کے سیاسی مضمرات اور اثرات پر سیاسی و عوامی حلقوں میں بحث جاری ہے سچ بات تو یہ ہے کہ آصف زرداری کی گرفتاری اگر ہو بھی جائے تو اس سے کوئی سیاسی بھونچال آنے کا پنجاب میں کسی طرح کا کوئی امکان نہیں ہے دراصل عوام کی بڑی تعداد کرپشن کے حوالے سے ابہام کا شکار ہے جب کرپشن کا انجام سامنے آتا ہے تو وہ دوسرے فریق کا موقف سن کر کسی قسم کا نتیجہ نکالنا یا اس حوالے سے ذہن بنانا چاہتے ہیں آصف زرداری کے حوالے سے جب عدالت یا کسی اور ادارے میں بحث ہو گی اور فریقین ثبوت اور دلائل دیں گے تو پھر کوئی حتمی یا قطعی رائے سامنے آئے گی دراصل موجودہ حکومت کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ وہ کرپشن کو اپنے مخالفین کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے اپنی ناقص کارکردگی چھپانے کے لئے کرپشن کو پراپیگنڈے کے طور پر استعمال کر رہی ہے اگر احتساب بے لاگ اور غیر جانبدارانہ ہو تو کسی کو احتجاجی عمل پر انگلی اٹھانے کی جرأت اور ہمت نہ ہو گی جب حکومت کے وزیر مشیر نیب ایف آئی اے اور عدالتوں کی ترجیحاتی اور گرفتاریوں کی پیش گوئیاں شروع کر دیتے ہیں تو احتسابی عمل مسلم لیگ (ن) اس تمام ہنگامی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے قریب آنے سے گریزاں ہیں وہ بھی آصف زرداری کی کرپشن کے انتخابات کا بوجھ اپنے کندھوں پر ڈالنے کی متحمل نہیں ہو سکتی اس کو معلوم نہیں کہ ادارے ان کی کرپشن پکڑنے میں کسی حد تک سنجیدہ نہیں کیونکہ جب بلوچستان حکومت کو گرانے سینٹ کے چیئرمین لانے اور تحریک انصاف کی حکومت وفاق اور صوبہ پنجاب میں لانے میں دامے درمے سخنے آصف زرداری پیش پیش تھے تو جب بھی آصف زرداری پر یہ مقدمات اور الزامات موجود تھے ویسے بھی مسلم لیگ (ن) بجا طور پر یہ سمجھتی ہے کہ حکومت کو گرانے یا اس کے لئے کوشش کرنے کا ابھی وقت نہیں آیا ابھی نہ تو ادارے نہ عوام نہ ہی تحریک انصاف کا ووٹر ان تبدیلیوں کو قبول کرے گا نامکمل کوشش موجودہ ضرب اختلاف کے لئے مہلک ثابت ہو گی اور بعد میں کسی مناسب موقع پر تبدیلی کی کوشش کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی یہ درست ہے کہ عوام مہنگائی اور نامناسب گیس بجلی کی لوڈ شیڈنگ بے روزگاری کا ایک طوفان اور بے سمت معیشت اور مسلسل یوٹرن لینے کے حوالے سے پریشان اور سخت ہیجان میں مبتلا ہیں لیکن یہ بھی درست ہے کہ سیاسی تجزیہ نگار قانون دان اور بعض اہم ادارے ابھی انتظار میں ہیں کہ احتسابی عمل کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟ کیا بے سمت معیشت کی موجودہ حکومت درست سمت میں لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے نواز شریف، شہباز شریف کو پکا یقین ہے کہ موجودہ حکومت مسلم لیگ (ن) جیسی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتی اسی لئے وہ ’’انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر گامزن ہیں وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ عدالتوں سے انہیں انصاف ملے گا اور مستقبل میں وہ بہتر پوزیشن میں ہوں گے عمران خاں کی ٹیم کو جو سہولتیں اور سہارے ملنے تھے مل گئے اس کے باوجود وہ معیشت کو سنبھالنے اور عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے اس لئے گھوم پھر کر نظریں ان کی طرف ہی ٹھہریں گی۔