....مگر یہ نظام، یہ قانون، یہ خاموشی کیوں؟

January 11, 2019

19برس تھوڑا عرصہ نہیں ہے، یہ نظام، یہ قانون اس کے 19برس کھا گیا، اس نظام میں بولنے والے سارے پرزے چپ رہے، محض چار سو روپے نہ ہونے کے باعث رانی بی بی کو انیس سال سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑے۔ اسے رہائی ملی تو وہ بولی ’’میں کہتی رہی کہ ہم بے قصور ہیں لیکن نہ تو قانون کو کوئی فرق پڑا اور نہ ہی جج نے کچھ سنا، جیل میں آئے تو اپیل کی درخواست کے لئے پولیس والے نے چار سو روپے مانگے، ہم اتنے غریب، اتنے مجبور تھے کہ چار سو روپے نہ دے سکے۔ محض چار سو روپے کی وجہ سے مجھے طویل عرصہ جیل بھگتنا پڑی، اب جب لاہور ہائی کورٹ نے ناکافی ثبوت اور ناقص شواہد کے باعث بری کیا ہے تو کہا جا رہا ہے کہ عدالت نے مجھے باعزت بری کر دیا ہے مگر یہ کوئی نہیں سوچتا کہ 19سال کی جیل نے میری زندگی، میرا خاندان برباد کر دیا ہے۔ 1998ء میں مجھ پر شوہر کے قتل کا الزام لگا مگر میرے ساتھ میرے والد، والدہ، بھائی اور کزن کو بھی گرفتار کر لیا گیا، پھر عدالت نے پورے خاندان کو عمرقید کی سزا سنا دی۔ میرے والد پر تشدد کیا گیا، وہ پانچ برس بعد جیل ہی میں مر گئے، میرا جوان بھائی 19سالہ جیل کے باعث بوڑھا ہو گیا، صرف بوڑھا ہی نہیں بیمار بھی ہو گیا، 19سال بیت گئے اس ملک کی حکومتیں، یہاں کے حکمران، یہاں کی پولیس، یہاں کے ادارے کوئی بھی میرے ساتھ کھڑا نہ ہوا، مجھے دھتکارا گیا، اب برادری دھتکارتی ہے کہ یہ عورت 19سال جیل رہ کر آئی ہے۔ ‘‘

خواتین و حضرات! یہ ہے چنیوٹ کی رانی بی بی کی کہانی۔ لاہور ہائیکورٹ نے رانی بی بی کی سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کو جیل انتظامیہ کی بدنیتی قرار دیا ہے اور اس سزا پر افسوس کا اظہار بھی کیا ہے۔ اس افسوس کا کیا فائدہ، افسوس تک پہنچتے پہنچتے 19سال گزر گئے، اس سے بھی زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی غفلت اور سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کیلئے ریاست کے پاس کوئی قانون ہی موجود نہیں۔

ہماری اسمبلیوں میں پہنچنے والے اپنے لئے تو نت نئی قانون سازی کرتے ہیں مگر انہیں کوئی احساس نہیں کہ اس ملک کے اصل مسائل حل کرنے کیلئے کوئی قانون سازی کی جائے۔ پچھلے پینتیس چالیس برسوں میں دولت کے مقابلے کے قصے تو بہت سامنے آئے مگر اس ملک کے لوگوں کے لئے کوئی قانون سازی ہوتی نظر نہیں آئی، اب جب عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد کراچی میں تقریر کی اور صرف اتنا کہا کہ ان کی حکومت بے وطن لوگوں کے لئے قانون سازی کرنا چاہتی ہے تو اس خواہش کے خلاف پیپلز پارٹی بھی بول پڑی، عمران خان کی ایک اتحادی جماعت بھی احتجاجی آوازوں میں شامل ہو گئی، احتجاج کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ پاکستان میں 1951ء کے سٹیزن ایکٹ کے تحت اس دھرتی پر پیدا ہونے والا ہر بچہ اس ملک کا شہری ہے مگر یہاں قانون کون مانتا ہے، اسی لئے تو یہاں حقائق بہت تلخ ہیں۔ یہاں پاکستان سے محبت کرنے والوں کو بھی اپنا نہیں مانا جاتا۔ اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ جو لوگ 1947ء میں اپنا گھر بار چھوڑ کر پاکستان کی محبت میں آئے تھے، ان کے بارے میں ابھی تک مقامی اور مہاجر کی بحث جاری ہے۔ پھر ایک مرحلہ 1971ء میں آیا جب پاکستان کی محبت میں بہت سے بنگالی پاکستان میں رک گئے، انہیں ملک ٹوٹنے کا دکھ تھا، وہ اسی کرب میں اسی دھرتی پر رہے مگر یہ دھرتی انہیں اپنا شہری ماننے کو تیار نہیں ہے۔ 1973ء میں آئین ضرور بنا مگر ان کا فیصلہ نہ ہو سکا، ان سے متعلق کوئی قانون نہ بن سکا۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کی دھرتی پر کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے پاکستان کی محبت میں بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا، یہ بہاری آج بھی کیمپوں میں رہتے ہیں، انہیں پاکستان کی محبت نے بے وطن بنایا، بنگلہ دیش کے بغض سے بھرے ہوئے حکمرانوں نے انہیں شہریت نہ دی۔ نواز شریف سمیت پاکستان کے کئی حکمرانوں نے کیمپوں میں قید ان بہاریوں سے وعدے کئے مگر یہاں وعدے پورے کرنے کا رواج کہاں ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش کی دھرتی پر ان لوگوں کے لئے کوئی جگہ نہ بن سکی جن کے دلوں میں پاکستان کی محبت جاگ رہی تھی، یہ بنگالی بہاری آج بھی پاکستان سے محبت کی سزا بھگت رہے ہیں۔ قانون انہیں کسی ملک کا شہری تسلیم نہیں کرتا۔ ہمارا نظام، ہمارا قانون، ہماری ریاست اس سلسلے میں خاموش ہے۔ ہم ابھی تک ان لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں بنا سکے۔ ہم تمام ترامیم اپنے بچائو کیلئے لاتے ہیں۔

ابھی بنگالیوں اور بہاریوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا تھا کہ افغان مہاجرین کی ایک بڑی کھیپ پاکستان آ گئی۔ یہ افغان یہاں رہنے لگے، ان کے بچے یہیں پیدا ہوئے، یہیں جوان ہوئے، یہیں ان کی شادیاں ہوئیں، یہیں وہ کاروبار کرتے ہیں، یہیں ٹیکس دیتے ہیں مگر ہمارا قانون انہیں شناخت نہیں دے سکا۔ آئینے کا دوسرا رخ دیکھئے، ہمارے بہت سے پاکستانی امریکہ، کینیڈا، یورپ اور دوسرے ملکوں میں گئے، وہاں کی شہریتیں لیں، وہاں کی اسمبلیوں تک پہنچ گئے۔ ہماری دھرتی پر بنگالی، بہاری اور افغان رہتے ہیں، ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں مگر قانون اس سلسلے میں خاموش ہے۔ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد اس خاموشی کو توڑنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے کراچی میں تقریر کی مگر اس تقریر کا قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن کی جانب سے کوئی والہانہ استقبال نہیں کیا گیا حالانکہ یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، اس پر غور ہونا چاہئے۔ اس سلسلے میں قانون سازی ہونی چاہئے۔ یورپ اور امریکہ والے پانچ سال بعد شہریت دے دیتے ہیں، ہم ان لوگوں کو کئی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی شہریت نہیں دے سکے۔ پچھلے دنوں لاہور میں شارپ کے سید لیاقت بنوری نے ایک مذاکرہ کروایا تھا، پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، اے این پی سے طلاق پانے والے ایک رہنما، محترمہ ناصرہ جاوید اقبال، انوار حسین حقی اور مجھ خاکسار نے کئی تجاویز دی تھیں۔ پتا نہیں ہم سرزمین پاکستان پر بے وطن لوگوں کو شناخت دینے سے کیوں کتراتے ہیں، جب شناخت سے محروم لوگ ہماری دھرتی پر رہتے ہیں، یہاں کام کرتے ہیں، یہاں سے رزق کھاتے ہیں تو پھرا ہمارا نظام، ہمارا قانون اس سلسلے میں کیوں خاموش ہے۔ پوری ایرانی قوم کشمیر سے تعلق رکھنے والے امام خمینی کو اپنا راہبر مانتی ہے، انقلاب ایران کا عظیم راہنما مانتی ہے تو ہم ان پچاس ساٹھ لاکھ افراد کو شناخت دینے کے لئے کیوں تیار نہیں ہیں۔ عمران خان نے مرض کی درست تشخیص کی ہے، اس کا علاج ہونا چاہئے۔ ان افراد کو آباد کرنے کے لئے رقبے کے اعتبار سے صوبوں میں تقسیم کر دینا چاہئے ہمیں شہریت کے قوانین کو واضح کرنا ہو گا ورنہ مسائل پیچیدہ ہوتے جائیں گے۔ سقوط ڈھاکہ پر نصیر ترابی نے یادگار غزل کہی تھی آج اس کے کچھ اشعار یاد آ رہے ہیں کہ

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھائوں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر، شکستہ پائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیرؔ

وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)