فوجی عدالتیں

January 11, 2019

امریکہ میں نائن الیون ہوا تو امریکیصدر پچاس سے زائد ممالک کی فوجیں جمع کر کے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ پاکستان میں اُن دنوں جنرل پرویز مشرف سیاہ و سفید کے مالک تھے اور منتخب حکومت کا تختہ اُلٹنے کے باعث عالمی طاقتوں میں ’اچھوت‘ بنے ہوئے تھے۔ اُنہیں امریکی وزیرِخارجہ نے تعاون حاصل کرنے کے لیے ٹیلی فون کیا، تو وہ افغانستان پر حملے کے لیے تمام سہولتیں فراہم کرنے پر بخوشی آمادہ ہو گئے، چنانچہ اتحادی فوجوں نے اِس قدر مہلک ترین بم برسائے کہ افغانستان کا تورا بورا ہو گیا۔ لاکھوں افغانی شہید ہوئے۔ اس خونریز جنگ نے مجاہدین میں خودکش حملہ آور پیدا کیے اور مذہبی انتہا پسندی پھیلتی گئی۔ پاکستان بھی اِس کا نشانہ بنا۔ یہاں کی مسجدیں اور امام بارگاہیں بھی خودکش حملوں سے محفوظ نہ رہیں۔ عام شہری خونخوار دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے گئے۔ سوات پر پاکستانی طالبان نے قبضہ کر لیا تھا اور حکومتی رِٹ ہر جگہ کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ فوج نے اِس دہشت گردی کے خلاف متعدد آپریشن کیے اور جوانوں اور افسروں نے عظیم قربانیاں دے کر مختلف علاقوں میں وطن کی سرزمین دہشت گردوں کے تسلط سے بحال کرائی۔ پھر 16دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔

ہوا یہ کہ مسلح دہشت گردوں نے اسکول کا محاصرہ کر لیا۔ اُن میں سے بعض عمارت کے اندر داخل ہوئے جہاں پھول سے بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ درندہ صفت دہشت گردوں نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ وہ جو میز کے نیچے چھپ گئے تھے، اُنہیں ڈھونڈ نکالا اور بڑی سفاکی سے قتل کیا۔ اسکول کی پرنسپل اور اساتذہ بھی خون میں لت پت کر دیے گئے۔ پورے ملک میں کہرام سا مچ گیا۔ باہر کی دنیا میں شدید ارتعاش پیدا ہوا۔ انتہائی غم اور کرب کی حالت میں سول اور فوجی قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور کئی روز کی مشقتِ شاقہ سے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک مربوط قومی ایکشن پلان ترتیب دیا جس میں سویلین دہشت گردوں کے مقدمات کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کو کلیدی اہمیت دی گئی، کیونکہ سول عدالتوں میں عملاً مقدمات چل ہی نہیں رہے تھے۔ جج صاحبان کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں اور گواہوں کو موت کی نیند سلا دینے کے پیغامات بھیجے جا رہے تھے۔ اُس وقت نون لیگ کی حکومت قائم تھی جس کے لیے پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم کی منظوری اِس لیے دشوار ہو رہی تھی کہ پیپلزپارٹی فوجی عدالتوں کے قیام کی سخت مخالف تھی۔ اِس کے علاوہ حکومت میں شامل پختونخوا ملّی عوامی پارٹی نے بھی برملا اختلاف کر دیا تھا لیکن اس وقت عوامی دباؤ کے تحت دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی آئینی ترمیم پارلیمنٹ نے منظور کر لی۔ 2017ء میں یہ مدت ختم ہوئی، تو مزید دو سال کی توسیع پر سیاسی جماعتوں میں شدید اختلافات پیدا ہوئے، مگر اِن فوجی عدالتوں سے جو قومی فوائد حاصل ہوئے تھے، اُن کی بنیاد پر مزید دو سال کی توسیع دے دی گئی۔ اب 2019ء میں پھر یہ سوال زیرِبحث ہے کہ اُن میں مزید توسیع کی جائے یا اُن کا وجود ختم کر دیا جائے۔

پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے اعلان کر دیا ہے کہ پیپلزپارٹی کی ایگزیکٹو کونسل نے ایک قرارداد کے ذریعے مزید توسیع دینے سے انکار کر دیا ہے۔ جمہوری نقطۂ نظر سے اُن کا موقف صائب معلوم ہوتا ہے، مگر عام تاثر یہ ہے کہ دہشت گردی پر قابو پانے میں فوجی عدالتوں نے اہم کردار اَدا کیا ہے اور دو سو کے قریب دہشت گرد پھانسی پر لٹکا دیے گئے ہیں اور ابھی 185مقدمات زیرِالتوا ہیں۔ آرمی چیف جن سزاؤں کی توثیق کرتے ہیں، وہ سپریم کورٹ میں بھی زیرِغور آتی ہیں۔ غیرمعمولی حالات میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ضروری معلوم ہوتی ہے ورنہ پہلے کی طرح دہشت گرد اور خودکش حملہ آور دندناتے پھریں گے اور پوری قوم نے دہشت گردی کے خلاف جو حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی ہیں، اُن کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نون لیگ کے مرکزی رہنما جناب احسن اقبال اور ترجمان محترمہ مریم اورنگزیب نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری جماعت آئینی ترمیم کی حمایت کرے گی، البتہ مختلف حلقوں کی طرف سے اِس امر پر بھی زور دیا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتیں لاپتا افراد کا سراغ لگانے میں بھی اپنا کردار اَدا کریں۔

پوری قوم اِس امر کا اعتراف کرتی ہے کہ ہماری دلیر فوج، مستعد رینجرز، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پولیس نے ملک میں دوبارہ امن لانے میں زبردست کردار اَدا کیا ہے۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کوئی سہل کام نہیں تھا۔ ایک دنیا ہماری افواج کی شجاعت اور پیشہ ورانہ مہارت کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، اِس لیے ہم پر لازم آتا ہے کہ ان کی ضرورتوں کا پورا پورا خیال رکھا جائے جن میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع بھی شامل ہے۔ ہمارے لیے یہ امر بھی قابلِ فخر ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جو کوششیں کر رہے ہیں، اُن کے اچھے نتائج بھی برآمد ہو رہے ہیں۔ وہ ہماری خارجہ پالیسی کو طاقتور اور ثمربار بنانے میں بڑی بلند نگاہی سے کام لے رہے ہیں اور ہمارے وزیرِخارجہ جناب شاہ محمود قریشی بھی کمال ذہانت کا ثبوت دے رہے ہیں۔ یہ معمولی بات نہیں کہ بل گیٹس پاکستان میں سرمایہ کاری کا عندیہ دے رہے ہیں۔ حالات بہتر ہوتے نظر آ رہے ہیں، یہ علیحدہ بات ہے کہ حکومت میں شامل بعض افراد کی بدزبانی معاملات میںخرابی پیدا کر رہی ہے۔

کورکمانڈر کانفرنس میں مشرقی سرحد پر سیکورٹی صورتِحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری عسکری قیادت کو اِس پر غیرمعمولی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ بھارت کو ہمارے علاقے میں ڈرون طیارے استعمال کرنے کی جرأت کیسے ہوئی اور وہ آئے دن ہمارے شہریوں کو شہید اور زخمی کیوںکرتا چلا جا رہا ہے اور اس کی عسکری قیادت پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں کس برتے پر دیتی رہتی ہے۔ بلاشبہ ہمارے عوام دل و جان سے اپنی فوج کے ساتھ ہیں کہ وہ ہماری سلامتی کی ضامن ہے، لہٰذا اِسے اپنی تمام تر توانائیاں اِسی نکتے پر مرکوز رکھنا چاہئیں۔