جنید جمشید طیارہ حادثہ، پی آئی اے اور سی اے اے ذمہ دار قرار

January 12, 2019

کراچی (اسٹاف رپورٹر )ماہرین نے وہ وجوہات تلاش کرلی ہیں جس کے نتیجہ میں چترال سے واپس آنے والے پی آئی اے کے طیارے کو حادثہ ہوا تھا نتیجتاً معروف نعت خواں جنید جمشیدسمیت تمام مسافر اور عملہ جاں بحق ہوگئے تھے رپورٹ کے مطابق طیارے کا پاور ٹربائن بلیڈ ٹوٹ کرانجن میں گیا جس کی وجہ سے انجن بند اور طیارہ گر کر تباہ ہوگیا‘سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ نے چترال حادثے کی ذمہ داری پی آئی اے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی پر ڈال دی ہے، تفصیلات کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ نے مذکورہ جہاز کے کریش ہونے کے بارے میں اپنی جاری کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2برس قبل چترال سے اسلام آباد آنے والے جہاز کی تباہی کی وجہ پی آئی اے کی جانب سے بروقت مینٹی نینس نہ کرنا اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے فرائض میں غفلت ہے ۔پی آئی اے کا اے ٹی آر ساختہ جہاز 7 دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد کی جانب محو پرواز تھا کہ ایبٹ آباد میں حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوگیا تھا ۔ اس جہاز میں عملے کے پانچ ارکان سمیت 47 افراد سوار تھے جو کہ سب کے سب اس حادثے میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔ مسافروں میں جنید جمشید اور ان کی اہلیہ بھی شامل تھے۔ جہاز کا دائیں طرف کا اانجن چترال پہنچنے پر خرابی کا شکار ہوگیا تھا مگر پی آئی اے کی انتظامیہ نے اسے صرف ایک انجن پر اسلام آباد تک پرواز کرنے کا ہدایت کی ۔ راستے میں جہاز کا دوسرے انجن کا بلیڈ اس میں ٹوٹ کر گھس گیا جس کی وجہ سے جہاز اچانک زمین پر آ گرا۔ یہ افتاد اتنی اچانک تھی کہ پائلٹ کو فلائٹ کنٹرول کو بھی کوئی پیغام دینے کا موقع نہیں ملا ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ نے انتہائی مختصر تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ جہاز کے بائیں جانب کے انجن کا بلیڈ 10 ہزار گھنٹے پرواز کرنے کے بعد تبدیل کرنا تھا ۔ مذکورہ جہاز کی مینٹی نینس11 نومبر 2016 کو ہوئی ، اُس وقت جہاز 10ہزار 4 گھنٹے کی پرواز مکمل کرچکا تھا ۔ تاہم اس بلیڈ کو نہ بدلا گیا ۔ اس مینٹی نینس کے بعد بھی جہاز نے 93 گھنٹے کی پرواز مزید کی جس کے بعد 7 دسمبر 2016 کو یہ حادثہ رونما ہوا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر پی آئی اے وقت پر پرزہ بدل دیتی تو یہ حادثہ نہیں ہوتا ۔ اسی طرح سول ایوی ایشن اتھارٹی کی بحیثیت سپروائزنگ اتھارٹی یہ ذمہ داری تھی کہ پرزہ تبدیل نہ ہونے کی صورت میں جہاز کو گراو نڈ کردے ، مگر سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حکام نے بھی مجرمانہ غفلت برتی۔ اس طرح جہاز میں سوار عملے کے 5 افراد اور 42 مسافروں کی ہلاکت کے ذمہ دار یہ دو ادارے ہیں ۔ سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈ نے حیرت انگیز طور پر اپنی رپورٹ میں چترال سے اسلام آباد پرواز کے موقع پر دائیں انجن کی خرابی کا ذکر ہی گول کردیا ہے ۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی ایک ریگولیٹری باڈی ہے مگر اس کا کردار اب صرف کاغذی ہی رہ گیا ہے ۔ پی آئی اے ، ائرپورٹ سیکوریٹی گارڈ، ایف آئی اے ، اینٹی نارکوٹکس بورڈ سمیت کوئی بھی ادارہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کی حیثیت کو ماننے کو تیار نہیں ہے ۔