روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے!

January 15, 2019

فلم کے سین میں فلم بین داخل ہو گئے۔ بوٹوں کے تسمے کھلے اور غیر پسندیدہ کرداروں کے چہروں پر اپنے نشان بنانے لگے۔ بیک گرائونڈ میوزک کے طور پر شعلہ بیاں مقرروں کی تقریریں بجنے لگیں۔ نون کے شاٹ میں سپریم کی جیپ دوڑنے لگی۔ بینروں پر ٹائروں کے نقش اجاگر ہونے لگے اور پھر معاملہ الٹ گیا، اسکرین سے دیکھنے والوں کے ساتھ کردار بھی باہر نکل آئے۔ دھرنے کے سین سے ایک تیز رفتار کنٹینر نکلا اور سینما ہال کی دیوار گراتا ہوا سڑک پر دوڑنے لگا۔ اس کے پیچھے پولیس کی گاڑیوں کے ہوٹر شور مچانے لگے۔ شہر کی پولیس، اسکرین سے نکلتی ہوئی کاروں کو حیرت سے دیکھنے لگی۔ وائر لیس پر ان سے ان کی شناخت پوچھی جانے لگی۔ کنٹینر اڑنے لگا۔ اُس کی رفتار دس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھ گئی۔ وہ کنٹینر ہر گھر کے ٹیلی وژن سے گزرتا ہوا وہاں پہنچ گیا جہاں قومی اسمبلی کے عجائب گھر میں سجے ہوئے پہاڑوں میں پڑتی ہوئی دراڑوں کو دھاگوں سے جوڑا جا رہا تھا۔ یعنی خواب اور حقیقت آپس میں گڈمڈ ہو چکے ہیں۔ جیل اور جاتی امرا کی دیواریں ایک دوسرے میں پیوست ہو چکی ہیں۔ گڑھی خدا بخش کی دیواریں بھی دوڑتی چلی آ رہی ہیں۔ بہت جلد ساری دیواریں آپس میں مل جل کر رہنے لگیں گی۔ جاتی امرا اور گڑھی خدا بخش کے سوداگر آکشن ہائوس میں موجود ہیں۔ سچ کی نیلامی کی جا رہی ہے۔ کہیں ڈھائی ارب ڈالر کا معاملہ تو کہیں ساڑھے تین ارب ڈالر کی بولی لگائی گئی ہے۔ ایک سوالیہ سلوگن بھی دیواروں پر ابھر رہا ہے ’’کیا سودا بازی کے بعد پھر لوٹ مار۔۔ لمبی لوٹ مار؟‘‘۔

فلم کی رفتار بہت تیز ہے۔ ڈائریکٹر تجریدیت کی طرف مائل ہے۔ کہیں علامت کھل رہی ہے، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کے جہاز پرواز کر رہے ہیں اور کہیں شاٹس ابھی مفہوم کی تلاش میں ہیں۔ فیصلے کا انتظار جاری ہے۔ اپیل کا حق ایئر پورٹس پر ای سی ایل کا بورڈ اٹھانے والوں کو بھی ہے۔۔ ہر جگہ الجھائو ہے۔ کوئی منظر بھی واضح نہیں۔ وہی چور بھی ہے جو صاحبِ عز و جاہ ہے۔ جہاں جنگ جاری ہے وہیں مذاکرات بھی ہو رہے ہیں۔ جن کا فیصلے سے کوئی تعلق نہیں، وہیں فیصلہ ہے ہی انہی کا۔انصاف بول بھی رہا ہے اور خاموش بھی ہے۔ حکومت نے کانوں میں ہینڈز فری لگائے ہوئے ہیں اور باہر کی آوازیں سن بھی رہی ہے۔

کیا واقعی شریف فیملی کی سیاست ختم ہو چکی ہے؟۔ کیا زرداری خاندان اب اقتدار میں نہیں آئے گا۔ کیا واقعی بلاول بھٹو اور مریم نواز کھیلے بغیر اپنی باری لے بھی چکے ہیں۔ کیا واقعی غیر ملکی بینکوں میں پڑی ہوئی دولت دونوں کےمستقبل کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ کیسا الجھائو ہے کہ ہر سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں بھی ہے اور ’’نہیں‘‘ میں بھی۔

ہر طرف ایک گورکھ دھندے کا پھیلائو ہے۔ بار کونسلوں میں جہاں جانے والے کی الوداعی تقریبات شروع ہیں، وہیں آنے والے کے استقبال کے لئے جھنڈیاں بھی لگ رہی ہیں۔ کہیں شوخ و شنگ رنگوں سے مہکتی ہوئی جھنڈیاں۔ کچھ جھنڈیاں ایسی بھی ہیں جن سے سراپا سوال آنکھیں لپک رہی ہیں۔ تبدیلی کے پس منظر میں جھانکتی ہوئی یہ آنکھیں پوچھتی ہیں۔ کیا اب بھی انصاف کے ڈیم تعمیر ہوں گے۔ کیا اب بھی عدالت بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرے گی۔ انصاف کے طریقۂ کار میں کوئی تبدیلی آئے گی یا نہیں۔ مجھے اِن آنکھوں میں بلاول بھٹو اور مریم نواز کی آنکھیں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔ دونوں میں بڑا دکھ ہے۔ دونوں کا رنگ اڑنے سے پیشتر ہی زرد ہو چکا ہے۔ بے شک رنگ بہتر کرنے والی ادویات باہر سے منگوائی جا سکتی ہیں مگر فرشتوں نے نئی لیڈر شپ کی تلاش شروع کر دی ہے۔ دیکھئے قرعۂ فال کس کے نام نکلتا ہے۔ جی ہاں! یہ سوال بھی پیدا ہو چکا ہے کہ عمران خان کے بعد کون ہو گا۔ اس قوم کا رہبر و رہنما۔ لیڈر کی تلاش کے لئے پانچ سال کوئی وقت ہی نہیں ہے۔ یہ بہت ضروری ہے وگرنہ قحط الرجال کے اِس عالم میں پھر کسی طالع آزما کو اقتدار پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ کہتے ہیں خالی مکانوں پر آسیب بسیرا کرنے لگتے ہیں۔ سچ مچ ملک خداداد میں لیڈر شپ کا ہولناک قحط پڑا ہوا ہے۔ عمران خان کے بعد کوئی دکھائی ہی نہیں دیتا۔ نئی لیڈر شپ کہاں سے آئے گی۔ بلدیاتی اداروں کی بہتر کارکردگی سے جنم لے سکتی ہے مگر انہیں گزشتہ حکومت مردہ کر گئی ہے۔ صرف اتنی سی حوصلہ افزا بات ہے کہ یہ مردہ ابھی مردار میں نہیں بدلا، سو ان میں پھر سے روح پھونکی جا سکتی ہے۔ وہی روح جو پرویز مشرف نے بلدیات کے سینے میں پھونک دی تھی مگر پرویز مشرف نے این آر او کر لیا تھا۔ این آر او وہ عفریت ہےجو سب کچھ ہڑپ کر جاتا ہے۔ مجھے عمران خان سے ایسی غلطی کی توقع نہیں۔ چاہے بلاول بھٹو بار بار اسلام آباد پر چڑھائی کرے۔ جتنے حملے اُس کے جی میں ہیں کرے۔ غزنوی یا غوری جب حملہ آور ہوتے تھے تو ان کے ساتھ ہزاروں جانثار ہوتے تھے۔ بلاول بھٹو جب چڑھائی کرے گا تو اُس کے ساتھ جتنے لوگ ہونگے انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر اندرونِ سندھ سے حکومتِ سندھ کے خرچے پر دوچار سو ویگنیں بھر لائے تو وہ دوسری بات ہے۔ حکومتِ سندھ کی فلم فلاپ ہونے والی ہے۔نیب اور ایف آئی اے کو مطلوب حکومتیں کتنی دیر چل سکتی ہیں۔ کتنے شرجیل میمنوں کے گھروں میں نوٹوں کی بوریاں اسٹور کی جا سکتی ہیں۔ کتنی حسینائوں کے بریف کیسوں میں میک اپ کے سامان کی جگہ ڈالر رکھے جا سکتے ہیں۔ اب اور نام والوں کے بے نامی اکائونٹس نہیں کھل سکتے۔ گورنر راج کے قدموں کی چاپ سن رہا ہوں مگر یہ چاپ کسی اونچی ایڑی والے سینڈلوں کی ہے۔ کیا کہیں فاطمہ بھٹو کو تو سندھ کا گورنر نہیں لگا یا جا رہا؟ روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی رے!