وزیراعظم کا دورہ سندھ: سیاسی فضا گرم ہونے کا امکان

January 17, 2019

پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف جارحانہ حکمت عملی کسی حدتک کامیاب نظرآرہی ہے پیپلزپارٹی کی قیادت نے سندھ بھر میں جلسوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ان جلسوں سے سابق صدر آصف علی زرداری اور پی پی پی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو جارحانہ خطاب کررہے ہیںان کے لہجوں میں حکومت کے لیے تلخی کا عنصرپایا جاتا ہے گرچہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کو 23 جنوری تک مقدمات میں ضمانت مل گئی ہے تاہم حکومت بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں سپریم کورٹ کے تحفظات اور ریمارکس کے باوجود بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ کا نام تادم تحریر ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نہیں نکالا گیا یہ بھی کہاجارہا ہے کہ ایوان میں فیصلہ کن اکثریت حاصل نہ ہونے کے سبب وزیراعظم پر پی پی پی کے ساتھ مفاہمت کے لیے دباؤ ہے تاہم حکومت نے دباؤ کو قبول کرتے ہوئے پی پی پی کے گھر سندھ پر سیاسی یلغار کی حکمت عملی اپناتے ہوئے وزیراعظم عمران خان اور وزیراطلاعات فواد چوہدری کے سندھ دورے کا شیڈول ترتیب دے دیا ہے جس کے بعد سندھ ایک بار پھر سیاسی گٹھ جوڑ کا محوربننے جارہا ہے۔وزیراعظم کی آمد سے قبل فوادچوہدری سندھ کا 2 روزہ دورہ کیا اور اہم سیاسی ملاقاتیں کیں وزیراعظم عمران خان 25 جنوری کوایک روزہ دورے پر سندھ پہنچ رہے ہیں۔ وزیراعظم ہم خیال جماعتوں کی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کریں گے۔ وزیراعظم کو گھوٹکی کے دورے کی دعوت علی گوہرخان مہر نے دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان دورہ سندھ میں پارٹی امور کا جائزہ بھی لیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو سندھ میں جاری وفاقی حکومت کے ترقیاتی پراجیکٹس پرپیش رفت کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا وزیراعظم کے دورے سے پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی میں کشیدگی بڑھنے اور سندھ کی سیاست میں ہلچل پیدا ہونے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جب سندھ میں حکومت کی تبدیلی یا گورنرراج کی افواہیں گرم تھیں توفوادچوہدری کو 31 دسمبر کو سندھ کا دورہ کرنا تھا تاہم اسی روز چیف جسٹس کے ریمارکس کے بعد یہ دورہ ملتوی کردیا گیا تھا۔دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم کے دورے کا مقصد سیاسی ہے یا پھر وہ دورہ کراچی کے دوران الیکشن میں اہلیان کراچی سے گئے گئے وعدوں کو نبھانے اور کراچی کے لیےخصوصی پیکیج کا اعلان کرنے آرہے ہیں دوسری جانب پی پی پی کی جانب سے ان دوروں پر شدیدردعمل سامنے آیا ہے۔ سکھر میں میڈیاسے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ نے کہاہے کہ کوئی فسادپھیلانے سندھ میں آئے گا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹاجائے گا ہم نے شرپسندوں کا مقابلہ کیا، چھوٹے موٹے فسادی کچھ نہیں کرسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ کسی کے آنے پر پابندی نہیں لگارہے، جوآرہے تھے وہ خود آتے آتے رک گئے ، پورا ملک وزیراعظم کا ہے، جہاں چاہیں آئیں جائیں۔ جب تک پارٹی قیادت اورعوام چاہیں گے، سندھ حکومت قائم رہے گی اور میں وزیراعلیٰ رہوں گا، ای سی ایل میں نام ہونے پر مجھے کوئی فکر اور پرواہ نہیں، ہمیں عدالتوں پر پورا یقین ہے کہ ریلیف ملے گا ۔ یہ لوگ مجھے سرکاری دورے پر جانے سے نہیںروک سکتے اور میرا فی الحال کہیں جانے کا کوئی ارادہ نہیں، حج اور کربلا سے بلاواآیا تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔دوسری جانب پی پی پی کی جارحانہ سیاسی حکمت جاری ہے پی پی پی عوامی عامہ ہموار کرنے اور حکومتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہی ہے ،کوٹری میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہاہے کہ موجودہ وفاقی حکومت ماضی کے فرعونوں سے سبق سیکھنے کے بجائے سندھ اورصوبے کے عوام سے سوتیلا سلوک اور ہمارے خلاف سازشیں کررہی ہے سندھ کے عوام نے کٹھ پتلی افلاطونی حکومت اورجعلی جے آئی ٹی رپورٹ کو مستردکردیا ہے ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے، اگر یہ باز نہ آئے تو ہم انہیں سکھائیں گے کہ ووٹ کی چوری کا بدلہ کس طرح لیا جاتا ہے۔ادھر سندھ اسمبلی کااجلاس جاری ہے، اجلاس کےد وران حکومت اور اپوزیشن کے دوران تلخ تندوتیز جملوں کا تبادلہ ہوتا رہا اجلاس میں پانچ ماہ بعد قائمہ کمیٹیوں کے قیام پر بھی اتفاق ہوا ادھر متحدہ قومی موومنٹ میں گروپ بندی کے خاتمے اور تمام گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوششیں دم توڑنے لگیں، تمام گروپ تنظیمی ڈھانچامضبوط کرنے، ضمنی اور بلدیاتی انتخابات کی تیاریوںمیں مصروف ہوگئے، ذرائع کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ میں اہم رہنماؤں کے درمیان اختلافات ختم کرنے، انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اورانتخابی سیاست میں ایک نشان یا اتحادسے حصے لینے کی کوششیں دم توڑنے لگی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم (پاکستان) بہادرآباد کی تنظیمی کمیٹی نے کارکنان سے رابطوں کو تیز کرنے اور بلدیاتی انتخابات کی مہم کا آغاز کردیا ہے اوراس سلسلے میں 18 جنوری کو کراچی میں پہلا جلسہ کیا جائے گا دوسری جانب تنظیمی بحالی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹرفاروق ستار تمام جماعتوں کو یکجاکرنے کا اعلان کرتے ہوئے ماضی کی ایم کیو ایم کی طرز پر اپنے تنظیمی ڈھانچے کو منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ پاک سرزمین پارٹی کے رہنما حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اورکراچی میں 24 جنوری کو ہونے والے ضمنی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات میں بھی یہ جماعتیں اپنے اپنے انتخابی نشان کے ساتھ ہی میدان میں اتریں گی۔اگر متحدہ قومی موومنٹ کے دھڑوں نے علیحدہ علیحدہ انتخابات میں حصہ لیا تو ممکن ہے کہ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے بعد طویل عرصے بعد کراچی کا میئرمتحدہ قومی موومنٹ کے بجائے کسی دوسری جماعت سے ہو۔