ججوں کو ان کا ضابطہ اخلاق یاد دلانے کا وقت آچکا

January 18, 2019

اسلام آباد (انصار عباسی) آج جب ملک کو ایک نیا چیف جسٹس مل رہا ہے، یہ وقت ہے کہ عدلیہ کو اس کا ضابطہ اخلاق یاد دلایا جائے جس کے تحت ایک جج سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ شائستہ، پرسکون رہے، اضافی شہرت سے گریز کرے، اپنے عدالتی کام سے کام رکھے، عوامی تنازعات سے بچنے کی کوشش کرے اور دیگر بھی کچھ توقعات ہیں۔ 2009ء میں جاری کیے جانے والے ضابطہ اخلاق میں ججوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سرکاری یا نجی نوعیت کی ماورائے عدالت ذمہ داریوں اور فرائض سے گریز کریں۔ ضابطہ اخلاق میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ جج کو خوف خدا رکھنے والا، قانون پر عمل کرنے والا، اعتدال پسند، سچا، دانشمند، محتاط، نرم دل، پاک اور لالچ سے دور ہونا چاہئے۔ انصاف کرتے ہوئے ایسے جج کو سخت ہوئے بغیر مضبوط ہونا چاہئے، کمزور ہوئے بغیر نرم گفتار ہونا چاہئے، اس کے انتباہ میں جلال ہونا چاہئے اور وہ اپنے الفاظ پر قائم رہنے والا شخص ہو، ہمیشہ پرسکون رہے، متوازن نظر آئے اور جو بھی معاملات اس کے روبرو پیش کیے جائیں ان میں وہ درست نتائج اخذ کر سکے۔ اپنی نشست پر بیٹھتے اور برخاست ہوتے ہوئے وہ وقت کی پابندی کرے، محتاط رہے، عدالت کے وقار کے تحفظ کیلئے احتیاط کرے، مقدمہ لڑنے والے فریقوں اور ساتھ ہی ان کے وکلاء کے ساتھ مساوی سلوک کرے۔ ججوں کے ضابطہ اخلاق میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک جج کو کام کرتے ہوئے عوام کی طرف سے شہرت ملتی ہے، اسے مزید کی طلب نہیں ہونا چاہئے۔ بالخصوص وہ کسی بھی عوامی تنازع میں نہ شامل نہ ہو، سیاسی معاملات میں نہ پڑے، باوجود اس کے کہ اس میں قانون کا معاملہ ہی شامل کیوں نہ ہو۔ ججوں کیلئے بنائے گئے ضابطہ اخلاق میں توقع کی گئی ہے کہ ایک جج کو ناپسندیدگی سے بالاتر ہونے اور اس مقصد کے حصول کیلئے اپنے تمام سرکاری و نجی معاملات کو ناشائستگی سے پاک رکھنا ہوگا۔ ضابطہ اخلاق میں مزید لکھا ہے کہ ایک اس بات کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف انصاف ہوا ہے بلکہ یہ ہوتا بھی نظر آئے، ایک جج کو ایسے کسی بھی اقدام یا رائے دینے سے گریز کرنا ہوگا جس سے یہ تاثر ملے کہ یہ، بالواسطہ یا بلاواسطہ، کسی کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدالتوں کا کوئی بھی جج کسی کو کسی بھی طرح کی حمایت فراہم نہیں کرے گا، اس میں حلف کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی کی ایسی تقریبِ حلف برداری منعقد کرنا بھی شامل ہے جو آئین پاکستان میں وضع کردہ طریقہ کار سے متصادم ہو۔ ضابطہ اخلاق میں بتایا گیا ہے کہ ایک جج کو ایسے کسی بھی کیس کا حصہ بننے سے انکار کرنا چاہئے جس میں اس کا ذاتی مفاد وابستہ ہو، اس میں ایسے لوگوں کا کیس بھی شامل ہے جنہیں وہ اپنا قریبی رشتہ دار یا قریبی دوست سمجھتا ہو۔ ایک جج کو چاہئے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ کاروباری معاہدے کا حصہ نہ بنے، کاروباری سرگرمیاں جاری نہ رکھے، چاہے یہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو، جس کے کیس کی وہ سماعت کر رہا ہو۔ جج کو چاہئے کہ وہ ایسے کسی کیس کا حصہ نہ بنے جس میں اس کے کسی فریق یا اس کے وکیل کے ساتھ کوئی تعلق ہو، یا دونوں وکیلوں اور دونوں فریقوں کے ساتھ تعلق ہو ۔ضابطہ اخلاق میں مزید کہا گیا ہے کہ جج کو اپنی طرف سے یا کسی بھی شخص کی طرف سے کسی بھی ایسے معاملات میں شامل ہونے سے گریز کی ہر ممکن کوشش کرنا چاہئے جو مقدمہ بازی کی طرف بڑھتے ہوں، جن میں تجارت، صنعت اور قیاس آرائی پر مبنی لین دین کے معاملات شامل ہیں۔ اپنے عہدے کا فوری یا مستقبل میں، فائدہ اٹھانا ایک سنگین غلطی ہے۔ ایک جج کو نجی افراد یا اداروں کے ساتھ ایسے مالی معاملات اور امور سے دور رہنا چاہئے جو بطور جج فرائض کی انجام دہی میں ہزیمت کا باعث بنیں۔ ضابطہ اخلاق میں بتایا گیا ہے کہ اپنے عدالتی کام کاج کے دوران اور ساتھ ہی اپنے دیگر ساتھی ججوں کے ساتھ کام کرتے ہوئےایک جج کو چاہئے کہ وہ اپنی اور دیگر عدالتوں می، عدلیہ کے ادارے کے وقار کیلئے ہم آہنگی پر مبنی ماحول بنائے رکھے۔ کسی بھی جج، چاہے وہ مساوی درجے کی عدالت کا ہو یا ماتحت عدالت کا، کی رائے سے عدم اتفاق کی صورت میں وہ اس کا اظہار شائستگی اور تحمل کے ساتھ کرے۔