دولت، حشمت، عزت سبھی کچھ...پھر بھی ’’فقیر‘‘ فقیر خاندان

January 27, 2019

1957ء میں حیات، فقیر خاندان کی نمایاں شخصیات کی ایک یاد گار تصویر

رؤف ظفر،لاہور

عکّاسی: عرفان نجمی

دریائے راوی کے کنارے واقع ہزاروں سال پرانے تاریخی شہر، لاہور کے درودیوار پر بے شمار نقوش ثبت ہیں، جن میں سیاسی سماجی آویزشوں کے علاوہ اِن معروف خانوادوںاور مشہور خاندانوں کی داستانیں بھی رقم ہیں، جو کسی زمانے میں عروج سے ہم کنارہوئے ، مگرپھر تاریخ کے اوراق میں کہیںگُم ہو گئے۔ تاہم ان کی یادگاریں اور نشانیاں آج بھی ان کی عظمت ِرفتہ کی گواہی دے رہی ہیں۔ لاہور کا ’’فقیر خاندان‘‘ بھی ان ہی میں سے ایک ہے،جو کئی دَہائیاں علم و ادب پر حکمرانی کرنےکے بعد گوشۂ گم نامی کی نذر ہو گیا ،لیکن ان کے چھوڑے ہوئے نقوش پر آج بھی پنجاب کے عروج و زوال اور سیاسی نشیب و فراز کی داستانیں پڑھی جا سکتی ہیں۔ کسی زمانے میں پنجاب میں اس خاندان کی 900سے زائد چھوٹی بڑی جاگیریںاور حویلیاں تھیں، مگر اب ماضی کا جاہ و جلال و جمال صرف 12مرلے کی ایک تین سو سال سے زائد پرانی حویلی ’’فقیر خانہ‘‘ میں سمٹ کر رہ گیا ہے۔ قدیم لاہور میںمغل دور کے 13 دروازوں میں سے ایک دروازے، بھاٹی گیٹ کے اندر نصف میل کے فاصلے پر یہ تاریخی حویلی اب ’’فقیر خانہ میوزیم‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں نہ صرف 2ہزار سے زائد نایاب تاریخی اشیاء ،نادر قلمی نسخے ونوادرات، کئی سو سال پرانے فن پارےاور گندھارا تہذیب کے ہزاروں سال پرانے بعض نمونے رکھے گئے ہیں بلکہ یہ عمارت پنجاب کےسیاسی ، سماجی اور معاشی اُتار چڑھائو اور کئی راز ہائے درون خانہ کی بھی امین ہے۔ فقیر خاندان کی تاریخ کئی سو سال پر محیط ہے اور تقریباً ہر صدی میں اس خاندان کے بزرگوں کو روحانی اور علمی عروج حاصل رہا ،لیکن پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دَوران کا نقطۂ عروج تھا، جب اس خاندان کے تین بھائی پنجاب کے سیاہ و سفید کے مالک تھے۔ اس کے بعد ان کی روایتی شان و شوکت تو باقی نہ رہی، لیکن خاندان کے لوگ انفرادی طور پر آج تک علمی و ادبی محاذ پر سرگرم عمل ہیں۔

’’فقیر خاندان‘‘ کی شان دار خدمات، عظیم روایات کے امین، فقیر سیّد اعجاز الدّین ،نمایندۂ جنگ سے گفتگوکرتے ہوئے

بخارا سے ہجرت

لاہور میں توفقیر خاندان کی داستان کا آغاز 1730ء میں اُس وقت ہوا، جب اس خاندان کے ایک سرکردہ بزرگ یہاںآکر آباد ہوئے، لیکن فقیر خاندان کی تاریخ 12ویں صدی ہجری سے ملتی ہے ،جب خاندان کے سُرخیل، جلال الدّین سُرخ پوش شاہ حیدر، بخارا سے ہجرت کر کے ملتان آئے۔ اُن کا مزار آج بھی اوچ شریف میں موجود ہے۔ انہوں نے حضرت بہائوالدین ذکریا ؒکی صحبت میں 30سال گزارے اور خانقاہ اوچ شریف کی بنیاد رکھی۔ مؤرخین نے اس دَور کے اوچ شریف کو پورے برصغیر میں علمی ،ادبی اور روحانی اعتبار سے لاثانی قرار دیا ہے۔ جلال الدین سرخ پوش کے 17بچے تھے، جن میں سے 11کا سلسلہ آگے چلا۔ ان کے ایک بیٹےچونیاں میں آباد ہو ئے، جب کہ چوتھے بیٹے کی اولاد سے فقیر خاندان کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1730 ء میں فقیر خانہ کے جد ِامجد، غلام شاہ روزگار کی تلاش میں لاہور آئے، جہاں انہیں ایک دوست حکیم عبداللہ انصاری کی وساطت سے مغلیہ دربار میں میر منشی کی ملازمت مل گئی۔ اسی سال نادر شاہ درانی نے پانی پت کی تیسری جنگ کے بعد پنجاب پر قبضہ کر لیا ، یوں پنجاب پر افغانوں کی حکمرانی ہوگئی۔ جب سید غلام شاہ کا انتقال ہوا، تو ان کا ایک بیٹا محض تین برس کا تھا، جس کی پرورش ،حکیم عبداللہ انصاری نے کی،انہوں نے اُس بچے کو حکمت اور دیگر مروجہ علوم کی تعلیم دی۔ وہ ہونہار بچہ اور کوئی نہیں، ’’غلام محی الدّین‘‘ تھے،جنہوں نے آگے چل کر’’ فقیر‘‘ کا لقب اختیار کیا۔یہ لقب اختیار کرنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ اُن پرفقیرانہ رنگ غالب تھے۔ غلام محی الدّین کا کہنا تھا کہ ان کے بعد آنے والےاگر دولت و حشمت میں کھیلنے لگے، تو یہ لقب انہیں مغرور ہونے سے بچائے گا۔ یوں یہ لقب آنے والی صدیوں تک اس خاندان کی پہچان بن گیااور آج بھی انہی کی شناخت ہے۔

لاہور کا پہلا اشاعتی ادارہ

اُس وقت یہ کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ غلام محی الدّین نام کا ایک یتیم بچہ آگے چل کر نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب کے سیاسی اور سماجی منظر نامے میں ایک تاریخی کردار ادا کرے گا۔ وہ ایک علم دوست شخص تھے، انہیں علم و ادب کا جنون تھا۔ غلام محی الدّین نے پنجاب کے مسلمانوں کو تعلیم دینے اور کتابیں چھاپنے کا بیڑہ اٹھایا۔ ان کی یہی دیرینہ خواہش پنجاب میں پہلے ’’پبلشنگ ہائو س‘‘کے قیام کا باعث بنی۔ وہ پرانے مسودات اور مشہور کتابوں کی دوبارہ کتابت کرواتے اور بچوں ، بڑوں میں تقسیم کردیتے ۔ یوں فنِ کتابت کو بھی فروغ ملا۔ اُس زمانے میں لاہور میں کاغذ نہیں بنتا تھا، بلکہ کشمیر اور سیالکوٹ سے آتا تھا۔ انہوں نے کاغذ سازی کے ہنر مندوں اور کاریگروں کو کشمیر اورسیالکوٹ سے بلاکر اندرون بھاٹی گیٹ میں آباد کیا۔ آج بھی بھاٹی گیٹ کے اندر ایک محلّہ’’محلّہ کاغذیاں‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ کاغذ سازی اور کتابوں کی اِشاعت سے اس شہر میںعلم و ادب کو فروغ حاصل ہوا۔ غلام محی الدّین ایک ماہر طبیب بھی تھے۔ علاج معالجےکے حوالے سے بھی ان کی خدمات ناقابل ِفراموش ہیں ،لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ ’’مدرسہ فقیر خانہ‘‘ کا قیام تھا، جہاں بچوں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی تھی۔ پنجاب میں تعلیم کے فروغ میں اس مدرسے کے کردار کو تمام مؤرخین نے سراہا ہے۔بھاٹی گیٹ کے اندر قائم اس مدرسے میں اساتذہ کو دہلی، کشمیر، بٹالہ، سیالکوٹ اور بھیرہ سے لاہور لا کر آباد کیاگیا۔ مدرسے میں 400بچوں کے لیےایک ہاسٹل بھی موجود تھا۔ غلام محی الدّین نے اس درس گاہ کے علاوہ بھاٹی گیٹ بازار حکیماں میں ایک ڈیسپنسری بھی بنوائی، جہاں دیسی طریقے سے علاج ہوتا تھا، جب مریضوں کی تعداد بڑھ گئی، تو انہوں نے بھاٹی دروازےکے باہر ’’دارالشفاء ‘‘کے نام سے ایک اسپتال قائم کیا۔ اُن کے تین بیٹے فقیر عزیز الدّین، فقیر سید امام الدّین اور فقیر سید نور الدّین بھی ماہر طبیب تھے اور وہ اسپتال میں کام کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے زمانے میں سوئی سے سفید موتیا کا پہلا آپریشن کیا ۔ 300بستروں (چارپائیوں) پر مشتمل اس اسپتال میں 28بہترین حکیم کام کرتے تھے، جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور آیا ، تو اس نے 27گائوں اس اسپتال کو عطیہ کیے، وہ اور اسی کی ساس بھی اس شفاخانے سے علاج کرواتے تھے۔یہ اُس وقت برّ صغیر کا سب سے بڑا شفا خانہ تھا، جہاں علاج بھی مفت ہوتا۔یہ اسپتال پورے 30سال چلتا رہا ،لیکن پنجاب پر انگریزوں کے قبضے کے بعد اس کی حالت اور نوعیت بالکل تبدیل ہو گئی۔ اس کا احوال فقیر خاندان کے ایک سرکردہ رکن اور فقیر خانہ میوزیم کے اِ ن چارج، فقیر سیّد سیف الدّین کی زبانی سنیے۔ وہ کہتے ہیں’’گرچہ اس شفا خانے کی تباہ حالی بیان کرنے کے لیے ہمیں پنجاب کے سیاسی تاریخی واقعات کے تسلسل سے ہٹنا پڑے گا۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ شفاخانے پر بعد میں گزرنے والے حالات کو یہیں بیان کیا جائے، کیوں کہ یہ بھی پنجاب کی سیاسی تاریخ کا ایک دل چسپ باب ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ،انگریزوں نے پنجاب پر قبضے کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ سمیت تمام امراء اور شرفا کی سرکار کی طرف سے ملنے والی تمام املاک پر قبضہ کر لیا تھا، اس لیے یہ اسپتال بھی ضبط ہو گیا ،لیکن انگریزوں کو یہ بھی احساس تھا کہ اس سے عوام کو فائدہ ہو رہا ہے۔ اس لیے انہوں نے دیسی طریقۂ علاج کو برقرار رکھتے ہوئے، شفاخانے کے ساتھ مزید کئی عمارتیں تحویل میں لے کر اسپتال کو توسیع دی اور ساتھ ہی ولایتی طریقہ ٔعلاج بھی شروع کر دیا۔ یوں شفاخانے کی یہ جگہ لاہور کے مشہور ’’میئو اسپتال‘‘ کی بنیاد ثابت ہوئی۔ جسے بعد ازاں کافی مدت تک ایشیاکے سب سے بڑے اسپتال ہونے کا اعزاز بھی حاصل رہا۔ بعد میں 1822ء میں جب واٹرلو کی جنگ ہوئی ،تو وہاں سے بہت سے یورپین ڈاکٹرز ملازمت کے لیے پنجاب آ گئے۔ ان میں ڈاکٹر اسٹین بینچ، ڈاکٹر مارٹن اور ڈاکٹر ہالنگ برگ بھی شامل تھے، جن کا تعلق آسٹریا، ہنگری اور امریکا سے تھا۔ ان ڈاکٹروں نے حکیموں کے ساتھ مل کر ایلوپیتھک طریقۂ علاج شروع کیا، بعدازاں ڈاکٹر بینچ نے ’’35 Years in East ‘‘کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی، جس میں اس اسپتا ل کا احوال بیان کیا۔ بہر حال یہ اسپتال سیاسی نشیب و فراز کے ساتھ ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ وقت گزرنےکے ساتھ یہاں سے دیسی طریقۂ علاج ختم ہو تاگیااورآج بھی اس اسپتال کا شمار ایشیاء کے بڑے اسپتالوں میں ہوتاہے ،لیکن بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ اس کی بنیاد فقیر خاندان نے رکھی تھی۔ ‘‘

فقیر خانہ میوزیم کا اندرونی منظر

پُر آشوب لاہور

سیّد سیف الدّین نے کہا ’’یہ تو میئو اسپتال کی کہانی تھی، جسے شفاخانے کے حوالے سے مکمل کرنا ضروری تھا۔ اب چلتے ہیں واپس اُس دور کی جانب، جب لاہور میں فقیر محی الدّین کے تین بیٹوں کا طوطی بول رہا تھا۔یہ شہر کبھی پر امن نہیں رہا تھا، لیکن فقیر محی الدّین نے کتابیں لکھنے، چھپوانے اورانہیں صوبے کے کونے کونے میںتقسیم کرنے کا کام جاری رکھا۔ بُرے حالات اور طوائف الملوکی کا ذکر تقریباً تمام مؤرخین نے کیا ہے۔ اُس وقت مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی ، راجوں ،مہاراجوں اور سکھوں نے اپنی اپنی ریاستیں بنا لی تھیں۔ مورخین نے لکھا ہے کہ 1730ء سے 1799ء تک 70برسوںمیں لاہور کو 70صدمے (ہر سال ایک صدمہ) برداشت کرنا پڑے۔ وہ یوں کہ اُس دور میں ہر سال افغان سردیوں میں اپنے 18ھزاری، 30ھزاری اور 50ھزاری فوجی جتّھوں کے ساتھ لاہور آتے اور شدید سردیاں گزار کر واپس چلے جاتے ،لیکن ان کی حیثیت لٹیروں کی سی ہوتی تھی۔ وہ مال و اسباب کے ساتھ عورتیں بھی اغوا کر کے لے جاتے، باغ مسجد وزیرخاں ان کی فوجی چھائونی ہوتی تھی۔ مون سون کی آمد سے پہلے وہ واپس افغانستان چلے جاتے ،لیکن ایک مصیبت کے ٹلنے کے بعد لاہوریوں پر دوسری مصیبت سکھ جتّھوں کی صورت میں نازل ہوجاتی ۔ جنہوں نے مختلف علاقوں میں اپنی جتّھا ریاستیں قائم کی ہوئی تھیں۔ ان میں افغانوں سے لڑنے کا حوصلہ نہ تھا۔ اس لیے وہ ان کی واپسی کا انتظار کرتےتھے۔ اُس پر آشوب دَور میں بھی ہمارے اجداد فقیر سید غلام محی الدّین نے اپنی علمی و ادبی اور طبّی سرگرمیوں میں کمی نہ آنے دی۔ پنجاب میں بد نظمی و لاقانونیت کا یہ دَور 70برسوںتک جاری رہا۔ 1776ء میں سِکھوں کے ایک بہت بڑے جتّھے (بھنگی جتّھا) نے پورے لاہور پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد ہمیں گجر سنگھ، صوبہ سنگھ اور لہنگا سنگھ بھی نظر آتے ہیں۔ گجر سنگھ نے ایک قلعہ بنوایا ،یہ جگہ آ ج بھی لاہور میں قلعہ گجر سنگھ کہلاتی ہے۔ اس کے جانوروں کی چراگاہ لاہور سے امرتسر تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہ وہ دَور تھا، جب لاہوریوں کو اپنے گھر سے ایک مخصوص دروازے سے نکلتے وقت جانے اور آنے کے لیےٹیکس دینا پڑتا تھا۔ اس کے علاوہ بھی 17ٹیکس عائدتھے۔ لیکن اس دوران ایک اچھا واقعہ بھی پیش آیا، جو ماضی کی روایات کے برعکس تھا۔ اُس واقعےکا گرچہ فقیر خاندان سے براہ راست کوئی تعلق نہیں، لیکن پنجاب کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور دل چسپ واقعہ ہے۔ ہوا یوں کہ 1738ءمیں جب احمد شاہ ابدالی نے پنجاب پر حملہ کیا ،تو واپسی پر 1200 عورتوں کو غلام بنا کر لے گیا۔ اس وقت لاہور میں بھنگی جتھے کے ایک سردارنے واپس جاتے ہوئے ،احمد شاہ ابدالی کی فوج پر حملہ کیا اور خواتین واگزار کروا لیں ۔ پنجاب کی تاریخ کایہ پہلا واقعہ تھا، جس میں لاہور سے افغانوں پر حملہ ہوا۔ ورنہ اُس وقت تک صدیوں سے افغانی ہی حملہ کرتے چلے آ رہے تھے ۔ خواتین کو اُن کے گھروں تک بہ حفاظت واپس پہنچایا گیا۔

’’فقیر خانہ میوزیم‘‘ کے اِن چارج، فقیر سیّد سیف الدّین

اب ہم اُسی دَور کی طرف واپس آتے ہیں ، اُن پر آشوب حالات کے باوجود لاہور میں جن دو شخصیات نے روحانیات اور علم کی شمع روشن کی ہوئی تھی، ان میں ایک ہندو وسطی رام،اور دوسرے فقیر سید غلام محی الدّین تھے، جن کا مدرسہ ،اسپتال اور پبلشنگ ہائوس ساتھ ساتھ چل رہے تھے ۔ انہوں نے جو لائبریری قائم کی ، اُس میں 10ہزار کتابیں ،نادر مسودات ، قلمی نسخے اور نایاب مخطوطات شامل تھے۔ یہ وہ دَور تھا، جب مسجدوں کو تالے لگ گئے تھے اور اذانوں پر پابندی تھی۔پنجاب کی اِسی دَور کی سیاسی تاریخ کا ایک اور دل چسپ واقعہ بھنگیوں کی توپ سے منسوب ہے۔ یہ توپ آج بھی مال روڈ پر میوزیم کے باہر سڑک پر رکھی ہوئی ہے۔ یہ توپ ،جیساسنگھ بھنگی کے پاس ہوا کرتی تھی ، جو در حقیقت احمد شاہ ابدالی کی توپ تھی، جو اُس نے سیالکوٹ کے ایک سردار، حشمت خان چٹھہ کو تحفے میں دی تھی۔ بعد میں سکھوں نے چٹھہ سردار کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا۔ اُس توپ کی ایک دل چسپ بات یہ ہے کہ سکھوں نے اس سے کوئی گولہ داغے بغیر پنجاب کے بیش ترعلاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جیسا سنگھ، اپنے جتھے کے ساتھ اس کو مختلف شہروںجیسے سیالکوٹ ،شیخوپورہ ، سمبڑیال لے جاتا تھا۔وہ شہر کے دروازے پر اسے کھڑا کر دیتا اور دھمکی دیتا کہ اگر مخالف سردار نے ہتھیار نہ ڈالے تو وہ اس سے گولہ داغ کر تباہی مچا دے گا۔لیکن گولہ داغنے کی نوبت نہ آتی، مخالفین اس کے خوف سے پہلے ہی ہتھیار ڈال دیتے۔ یوں اس توپ نے کوئی گولہ داغے بغیر پنجاب کے کئی علاقے فتح کر لیے۔‘‘

تنگ آمد، بجنگ آمد

فقیر خانہ حویلی کا ایک منظر

مؤرخین کے بہ قول اہالیانِ لاہور 70برس کی آویزشوں ، حملوں اور زیادتیوں سے تنگ آ چکے تھے کہ تاریخ نے ایک کروٹ لی ، جو پنجاب اور خود فقیر خاندان کے لیے ایک انقلاب ثابت ہوئی۔ فقیر خاندان کے بزرگ، ہندو اور دوسرے طبقوں کے چندسرکردہ لوگ سرجوڑ کر بیٹھےکہ اس ظلم و ستم سے کیسےچھٹکارا حاصل کیا جائے۔ بہت غور وخوض کے بعد طے پایا کہ گوجرانوالہ کے ایک 19سالہ سکھ سردار ،جس کا جتّھاسکر چوکیا کہلاتا تھا، اس کو لاہور آنے اور شہریوں کو تحفّظ فراہم کرنے کی دعوت دی جائے، کیوں کہ اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ دلیر،انصاف پسند ،کمزوروں کی مدد کرنے والا، اپنا وعدے کا پکّا اور سکھ ، ہندو، مسلمان سب کے ساتھ برابر کا سلوک کرتا ہے۔ جانتے ہیں کہ وہ نوجوان کون تھا؟ وہ مہاراجہ رنجیت سنگھ تھا۔ اس نے لاہور کے شہریوں کی درخواست قبول کر لی اور چار دن کی جدوجہد کے بعد لاہور پر قابض ہو گیا۔ اس نے دوسرے سرداروں کی طرح کوئی لُوٹ مار نہیں کی۔ اس طرح کئی دہائیوں کے بعد لاہوریوں نے سکھ کا سانس لیا۔ اصل میں رنجیت سنگھ کی آمد کے بعد نہ صرف لاہور، بلکہ پورے پنجاب کی سیاسی تاریخ نے ایک نیا رُخ اختیار کرلیا۔مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے لیے یہ دَور بلاشبہ کوئی خوش گواردَور نہیں تھا، لیکن نامساعد حالات کے باوجود فقیر خاندان نے مسلمانوں کے مذہبی، ثقافتی اور علمی و ادبی وَرثے کے تحفظ کی بھرپور کوششیں کیں۔ رنجیت سنگھ کے دَور میں پہلی مرتبہ فقیرخاندان کے ایما پر قرآن پاک کا پنجابی اور گورمکھی زبان میں ترجمہ ہوا۔ حالاں کہ اُس دور میں بھی مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوئے، لیکن تاریخ میں رنجیت سنگھ کے جتنے منفی پہلو اُجاگر کیے گئے ہیں ، ان میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔وہ فقیر خاندان کے قائم کردہ شفا خانے سےاپنا اور اپنی ساس کا علاج کرواتا تھا۔ یہی روابط اُس وقت فقیر خاندان کے عروج کا باعث بنے ،جب رنجیت سنگھ کے دربار میں مسلمانوں کی نمائندگی کا مسئلہ پیدا ہوا، تو متفقّہ طور پر فقیر خاندان کے فقیر عزیز الدین کا نام پیش کیاگیا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے انہیں اپنا پرنسپل آفیسر مقرر کر دیا،بعد ازاں انہیں وزیر خارجہ بنایا گیا۔ جب کہ ان کے چھوٹے بھائی فقیر امام الدّین کو وزیر خزانہ کے منصب پر فائز کیا گیا تھا۔ وہ کچھ عرصے کے لیے لاہور کے قائم مقام گورنر بھی رہے۔ ان کے تیسرے بھائی وزیر داخلہ مقرر ہوئے،ان کے پاس محکمۂ صحت اور مطبخ کے امور کی دیکھ بھال بھی شامل تھی۔ ان تینوں بھائیوں نے اُس عہد میں نمایاں خدمات انجام دیں ،جس کی وجہ سے نہ صرف لاہور بلکہ پورے پنجاب میں کئی دہائیوں کے بعد شہریوں کو کچھ حد تک امن نصیب ہوااور سکھ، افغانی حملہ آوروں سے نجات ملی۔ اس زمانے میں مہاراجہ کے بعد ان تینوں بھائیوں کے احکامات چلتے تھے ، تیس چالیس برس تک چیزوں کی قیمتیں ایک جگہ برقرار اور جرائم کی وارداتیں نہ ہونے کے برابر رہیں۔ اگر صرف تاریخی حقائق پر بات کی جائے ،تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب نے اتنی وسعت اختیار کی، جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ مہاراجہ نے سیالکوٹ، گجرات، قصور، امرتسر کے علاقے اپنی قلم رو میں شامل کیے، بعد ازاں کشمیر کو فتح کر کے پنجاب کا حصّہ بنایا۔ یہی نہیں، افغانستان پر حملہ کر کے اس کے اہم ترین علاقے پشاور کو پنجاب کا حصّہ بنایا، جو آج پاکستان کا حصّہ ہے ۔ اس کے علاوہ جمرود، گلگت ، بلوچستان ، ملتان اور سندھ کے بعض علاقے بھی پنجاب میں شامل کیے۔یوں یہ تمام علاقے آج پاکستان کا حصّہ ہیں۔نواب آف بہاولپور سے خراج کا معاہدہ کیا۔ مؤرخین نے مہاراجہ کے کارناموں کے پس پردہ فقیر برادران کا کردار بھی بتایا ہے، اُس دور میں پنجاب میں فقیر خاندان کی ساڑھے 9سو جاگیریںتھیں، جب کہ خاندان کے لوگ اہم ترین عہدوں پر بھی فائز تھے۔ سرحدی اُمور چلانے کے علاوہ انہوں نے علم و ادب کی خدمت بھی کی۔

فقیر عزیز الدّین نے 1813ء میں میڈی اور راجوڑ کے پہاڑی راجوں سے گفت و شنید کر کےاٹک قلعے کو افغان گورنر جہاں داد کے تسلط سے آزاد کروایا۔ انہوں نے مہاراجہ کے معتمد ِخاص کے طور پر شمال مغرب میں افغانیوں اور مشرق میں برطانوی حکمرانوں کے ساتھ کام یاب مذاکرات کر کے مہاراجہ کے راج کو طوالت دی۔ 1804ءمیں انہی کی کوششوں سے امرتسر میں ایک معاہدہ ہوا، جس کے تحت انگریزوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی خود مختار ریاست کو تسلیم کرکے برابری کی سطح پر اتحاد کیا۔ مہاراجہ کی حکومت کے دوران بھی انگریزوں نے ان کی حکومت کا دَورہ کیا۔ ان سب میں فقیر عزیز الدّین نے سفارت کاری کے فرائض انجام دیئے۔ 1839میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد بھی انہیں مہاراجہ شیر سنگھ کے ساتھ اُمورِ مملکت چلانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1845ءمیں عزیز الدّین کا انتقال ہو گیا، ان کے بعد ان کے چھوٹے بھائی فقیر امام الدّین امرتسر میں واقع قلعۂ گوند گڑھ کے قلعے دار مقرر ہوئے ۔تیسرے بھائی فقیر نور الدّین بھی برطانوی راج میں مختلف اُمور سرانجام دیتے رہے۔ وہ مہاراجہ دلیپ سنگھ کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔ فقیر نور الدّین اور عزیز الدّین دونوں فارسی زبان میں شعر بھی کہتے تھے۔فقیر نور الدّین کا شعری مجموعہ ’’دیوانِ منّور‘‘ کے نام سے 2003ء میں دوبارہ شائع ہوا۔ ان کا انتقال 1852ءمیں ہوااور ان کے دو بیٹوں فقیر ظہور الدّین اور فقیر قمر الدّین کا رنجیت سنگھ کے بعد ان کے خاندان سے گہرا تعلق رہا۔ فقیر ظہور الدّین مہاراجہ دلیپ سنگھ کو فتح گڑھ میں فارسی زبان سکھاتے تھے۔ پنجاب کا یہ یادگار عہدمہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے ساتھ 1839 میں تمام ہوا۔ بعد ازاں، جب انگریزوں نے پنجاب پر قبضہ کیا ،تو سارا منظر ہی تبدیل ہو گیا۔ فقیر خاندان سمیت ، جوخانوادے ، خاندان ، مہاراجے ، عروج کی بلندیوں پر تھے، وہ خاک نشیںہوگئے۔ مغلیہ سلطنت کا سورج غروب ہو رہا تھا ۔ انگریزوں نے، جو مسلمانوں سے ویسے ہی نالاں رہتے تھے، سرکار سے ملنے والی تمام جاگیروں ، زمینوں اور حویلیوں پر قبضہ کر لیا۔ستم بالائے ستم کہ مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹ کر ان کا’’ذہنی قتل ِعام‘‘ کیاگیا۔ پنجابی زبان کو دانستہ طور پر ختم کر کے مادری زبان سے رشتہ ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ سیّد سیف الدّین کے بہ قول ،’’ہمارے آباؤ اجداد کے قائم کردہ مدرسے اور شفاخانہ بند کر دیا گیا۔ علمی وادبی سرمایہ قبضے میں لے کر معاشی قتل ِعام کیا گیا۔ یوں فقیر خاندان کے لوگ پس ِمنظر میں چلے گئے ۔ تاہم انفرادی طور پر انہوں نے علم و ادب کی خدمت جاری رکھی۔ ظاہر ہے جسم اور سانس کا رشتہ تو برقرار رکھنا تھا۔ انہوں نے انگریزوں کے پاس ملازمتیں اختیار کر لیں اور کافی اونچے عہدوں تک پہنچے۔ تحریک ِپاکستان میں بھی انفرادی طور پر حصّہ لیا۔ تاہم وہ عروج اُنہیں کبھی حاصل نہ ہو سکا،جو اس سے قبل کئی سو سال تک ان کا مقدرتھا۔ قیام پاکستان کے وقت ان کے پاس فقط ایک ،دو حویلیاں ہی بچیں،جن میں سے ایک چھوٹی حویلی اندرون بھاٹی گیٹ ،موجودہ ’’فقیر خانہ میوزیم‘‘ کی شکل میں اُن کے شاندار ماضی کی گواہی دے رہی ہے۔‘‘

عہد ِرفتہ سے عہد ِحاضر تک

پنجاب میں سکھوں کے دورِ حکومت کے خاتمے اور انگریزوں کی عمل داری کے بعد فقیر خاندان کو بھی پہلی سی عظمت و سطوت حاصل نہ رہی۔’’ یادگار ِفقیر ‘‘کے مصنّف، ڈاکٹر عبداللّطیف کا کہنا ہے کہ ’’خاندانوں کا عروج و زوال بھی زمانے کی دھوپ چھائوں جیسا ہوتا ہے ،مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں یہ خاندان اپنے عروج کے نصف النہار پر تھا۔ 19ویں صدی کے آخر میں اس خاندان کو پہلے جیسی عظمت تو حاصل نہ رہی، مگر یہ اُس وقت بھی روایتی شان و شوکت اور صلاحیتوں کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ 20ویں صدی کا آغاز یقیناً ان کے زوال کا زمانہ تھا، مگر فقیر سید افتخار الدّین اور فقیر سید نجم الدّین اور دیگر کئی شخصیات کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے عیاں تھاکہ اقبال کا آفتاب ڈھل ضرور چکا ہے لیکن غروب نہیں ہوا۔ 1857ء کے بعد انگریزوں کے دور میں فقیرخاندان کے افراد علم و ادب کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہو گئے۔ ان میں فقیر افتخار الدّین کا نام سب سے نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ 1896ء سے 1904ء تک افغانستان میں انڈیا کے سفیر (انگریز حکومت کے نمائندہ) رہے۔ ان کے سُسر فقیر قمرالدّین کو بھی انگریزوں کے دربار میں نمایاں حیثیت حاصل تھی، لیکن اونچا درجہ بہرحال داماد کو بھی حاصل تھا۔ فقیر افتخار الدّین کی تین بیٹیاں تھیں۔ اُن میں سے ایک بی بی جان تھیں، جن کی شادی اپنے کزن فقیر نجم الدّین کے ساتھ ہوئی، جو علّامہ اقبال کے بہت گہرے رفیق تھے۔ دوسری بیٹی محبوب بی بی اور تیسری مبارک بی بی تھیں ،جن کی شادی فیروز پور میں مراتب علی شاہ (پیدائش1882ء) سے ہوئی۔ وہ فیروز پور میں ملٹری کنٹریکٹر تھے ۔ ان کا یہ کاروبار اتنا پھلا پھولا کہ دولت اُن کے گھر کی باندی بن گئی۔ وہ لاہور کے معروف صنعت کار سیّد بابر علی، سید امجد علی، واجد علی اور افضال علی کے والد تھے۔ امجد علی ،وزارتِ خزانہ اور سفارت کاری پر بھی فائز رہے۔ سیّدمراتب علی اور بابر علی کا یہ خاندان بعد ازاں پاکستان کے بڑے بڑے صنعت کار خاندانوں میں سرِفہرست رہا، تاہم اس کی بنیاد مبارک بی بی کے ہاتھوں پڑی، جن کا تعلق فقیر خاندان سے تھا۔ سیّد مراتب علی ہمیشہ فقیر خاندان کے ممنون رہے اور انہیں ان کی وصیّت کے مطابق ان کے سسرال کے آبائی قبرستان مبارک حویلی (اندرون شہر لاہور) میں دفن کیا گیا ۔فقیر افتخار الدّین نے اولاد ِنرینہ نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کی، جس سے ان کا ایک بیٹا سراج الدّین پیدا ہوا، تاہم ابھی بیٹا ڈیڑھ برس ہی کاتھا کہ فقیر افتخارالدّین کا انتقال ہوگیا، انتقال کے وقت اُن کی عمر 48برس تھی۔اُن کے بیٹے سراج الدین ، کمشنر ی کے عہدے تک پہنچے۔

سید افتخار الدّین کے بعد فقیر خاندان میںجس شخصیت کو سب سے زیادہ شہرت ملی ،وہ فقیر سیّد نجم الدّین تھے ۔ وہ بنیادی طور پر سرکاری ملازمت سے وابستہ تھے ،انہیں اُردو، فارسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کا زیادہ وقت اصحاب ِعلم و دانش کی صحبتوں میں گزرتا۔ سید نجم الدّین نے سید امیر علی شاہ کی مشہور کتاب’’ ہسٹری آف اسلام ‘‘کا اُردو ترجمہ کیا، لیکن یہ کتاب بوجوہ شائع نہ ہو سکی۔ سید نجم الدّین انارکلی میں رہتے تھے ، اُس زمانے میں علّامہ اقبال بھی انار کلی میں مقیم تھے۔ وہ اپنا زیادہ وقت علّامہ اقبال کے ساتھ گزارتے تھے۔ خود علّامہ بھی اُن کے گھر چل کر آتے ، اُن ادبی محفلوں میں اُس وقت علّامہ اقبال کے علاوہ مولوی احمد الدّین، محمد شاہ وکیل، فقیرسید افتخار الدّین، شیخ گلاب دین اور سر فضل حسین وغیرہ شریک ہوتے تھے۔ سید نجم الدّین کی ایک لڑکی اور پانچ لڑکے تھے ،جن کے نام فقیر وحید الدّین، فقیر فصیح الدّین، فقیر احتشام الدّین اور فقیر صلاح الدّین تھے۔ ان میں سے ایک لڑکے فقیر سید کرنل (ر) وحید الدّین نے بعد ازاں مشہور کتاب ’’روزگار فقیر‘‘ لکھی، جو اپنے والد کے ہم راہ علّامہ اقبال سے ملاقاتوں کے تاثرات پر مشتمل تھی۔ فقیر نجم الدّین کا انتقال 1934ء میں ہوا۔

قیام پاکستان سے قبل اور بعد کے سیاسی و سماجی منظر نامے میں نمایاں نظر آنے والی شخصیت فقیر سید وحید الدّین کی ہے۔ وہ 1903ء میں پیدا ہوئے۔ علّامہ اقبال سے ان کی نیاز مندی کی ابتداء 1916میں ہوئی ،جب وہ علی گڑھ کالج میں طالب علم تھے۔ پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ان کے والد سید نجم الدّین نے ان سے وعدہ لیا تھا کہ ’’تمہارا دل پڑھائی میں نہیں لگتا ،تو مت پڑھو ،لیکن یہ وعدہ ضرور کرو کہ روزانہ صبح شام، علّامہ اقبال کے ہاں حاضر ہوا کرو گے‘‘سید وحید الدین نے ہرممکن حد تک یہ وعدہ نبھایا۔ فقیر وحید الدّین دوسری جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہو گئے تھےاور کرنل کے عہدے تک پہنچے۔ فیض احمد فیض بھی ان دنوں فوج میں عہدیدار تھے، یوں دونو ںشخصیات میں ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ، جب کرنل وحید الدّین نے علّامہ اقبال کے حوالے سے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب لکھنا شروع کی تو کتاب کا عنوان ’’روز گار فقیر‘‘ فیض احمد فیض ہی نے تجویز کیا تھا، علّامہ اقبال کی تاریخ ِپیدائش کی تصحیح بھی سیّدوحید الدّین کا ایک بڑا ادبی کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید ’’اقبال تصویروں میں‘‘ محسنِ اعظم اور ’’انجمن‘ ‘کے نام سے شخصی خاکوں پر مبنی کتابیں بھی لکھیں۔ 1965ءمیں’’ THE REAL RANJEET SINGH ‘‘کے عنوان سے ایک سرگزشت(بائیوگرافی) بھی لکھی۔ ان کا انتقال 16جولائی 1968ءکو ہوا۔

کرنل وحید الدّین کے چار بیٹے ، اعتزاز الدّین، اعزاز الدّین، ایاز الدّین اور اعجاز الدّین تھے۔ اعزاز کو ٹیسٹ پلیئر اور اعتزاز کو پولو میں ملکی اور عالمی شہرت ملی، جب کہ ایاز، کاروبار سے وابستہ ہیں ،تاہم ان میں سے 76سالہ فقیر سید اعجاز الدّین آج بھی ’’فقیر خاندان‘‘ کی علمی و ادبی روایات کو روشن رکھےہوئے ہیں۔ انہوں نے تاریخ، بائیو گرافی اور سوانح پر 20کتابیں لکھی ہیں،جن میں سے بیش ترانگریزی زبان میں ہیں۔ ان کتابوں کو بیرون ملک بھی بہت پزیرائی حاصل ہوئی۔سید اعجاز الدّین ایچی سن کالج ،لاہورسے فارغ التحصیل ہوئے اور پھر (2008ءسے 2012ء) اسی کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ انہوں نے برطانیہ سے چارٹرڈ اکائونٹینٹ کی تعلیم حاصل کی اور دوران ِملازمت ٹیکسٹائل، فرٹیلائزر، انشورنس، بینکنگ اور آئل اینڈ گیس کے شعبوں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز رہے۔ انہوں نے پنجاب میں سکھ ہسٹری پر خصوصی ریسرچ کی ہے۔ وہ نومبر 2007ءسے اپریل 2008ء تک نگران حکومت میں وزیر ِثقافت بھی رہے۔ فقیر اعجازالدّین کی ایک انگریزی زبان میں ضخیم کتاب ’’THE RESOURCEFUL FAKIR‘‘ کو عالمی سطح پر پزیرائی ملی۔ وہ 1994ءسے برطانیہ کے اعزازی کاؤنسلر ہیں اور برطانوی حکومت نے ان کی خدمات کےاعتراف میںاُنہیں’’ آرڈر آف برٹش ایمپائر ‘‘کا خطاب بھی دیاہے۔ فقیر اعجازالدّین کا ایک بیٹا کومیل مصوّر ، جب کہ دو بیٹیاں مبارکہ اور موقنہ ہیں۔ سیّداعجاز الدّین ریٹائرڈ زندگی میں بھی ہمہ وقت علمی و ادبی سرگرمیوں اور لیکچرز میں مصروف رہتے ہیں۔ ایک ملاقات میں انہوں نے کہاکہ ’’عروج و زوال، ہمیشہ سے،قوموں ،خاندانوں اور قبیلوں کامقدر ہے۔ فقیر خاندان نے بھی دو تین سو سال قبل اور بعد ازاں برّصغیر کی تاریخ پر اَن مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ زمانے کے نشیب و فراز نے اس خاندان کو گہنا ضرور دیا ہے، لیکن مٹایا نہیں۔ آج بھی اس خاندان کے لوگ دنیا میںجہاں کہیں بھی ہیں، اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں ہیں۔ یہ لوگ تمام دنیا میں بکھرے ہوئے ہیں، البتہ ان کے درمیان کوئی مربوط ومنظّم رابطہ اور ایسا بزرگ نہیں رہا، جو ’’بائینڈنگ فورس‘‘کا،کام کرسکے۔ میری ایک پھوپھی جہاں آراء بیگم، ہر سال فقیر خاندان سے وابستہ چندخاندانوں کی ایک سالانہ محفل ضرورمنعقد کرتی تھیں، لیکن 2017ء میںاُن کے انتقال کے بعد سے یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ یہ بات سمجھ لیجیےکہ اِس وقت لاہوریا دنیا کے کسی بھی حصّے میں، جہاں کہیں بھی فقیر خاندان کے افراد موجود ہیں، اُن سب کا شجرۂ نسب تین بھائیوں فقیر نور الدّین، فقیر عزیز الدّین اور فقیر امام الدّین سے ملتا ہے۔ ان بھائیوں ہی نے اپنے آباؤ اجداد کی نصیحت کے مطابق انسان دوستی، عاجزی اور انکساری پر عمل کرتے ہوئے، اپنے خاندان کے ساتھ فقیر کا لفظ لگایا تھا، جو بعد میں اس خاندان کی پہچان بنا۔ اس وقت سے اب تک یہ خاندان بکھرا ہوا ہے ، جس میں بدلتے حالات و واقعات کا بھی عمل دخل ہے،لیکن ایک دَور تھا،جب قدیم لاہور میں فقیر خاندان کی 25 حویلیاں تھیں۔ نئی نسل کے لوگ قدیم لاہور کی گلیاں چھوڑ کر پوش آبادیوں میں چلے گئے ، اب قدیم لاہو ر، اندرون بھاٹی گیٹ ہمارایہ گراں بہا اثاثہ صرف ’’فقیر خانہ میوزیم‘‘ تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح قیام پاکستان سے پہلے جب ایچی سن کا لج میں داخلے کے لیےکسی رئیس یا نام وَر خاندان سے تعلق ہی کافی ہوتاتھا ،تو اُس وقت اِس کالج کے 89میں سے 17بچّوں کا تعلق فقیر خاندان ہی سے تھا۔ اب شاید یہ تعداد صرف چند ایک تک محدود ہو کر رہ گئی ہو۔

1800ھ سے 2018ء تک فقیر خاندان کے سیاسی ،سماجی ، علمی و ادبی نشیب و فراز کی داستان اگر اندرون بھاٹی گیٹ ،فقیر خانہ میوزیم میں سیکڑوں نوادرات اور تاریخی تصاویر میں ملفوف نظر آتی ہے ،تو ڈیفینس میں واقع، فقیر اعجاز الدّین کی لائبریری کی نادر اور ضخیم کتب بھی اس خاندان کی عظمت ِرفتہ کے نقوش سمیٹے ہوئے ہیں،جواب عہد ِجدید کے دھندلکوں میں گُم تو ہو چکے ہیں، لیکن مِٹےنہیں ہیں۔